کپتان کی تبدیلی

کپتان کی تبدیلی
کپتان کی تبدیلی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


جوں جوں میاں نواز شریف کی یقینی وطن واپسی کا وقت قریب آ رہا ہے، حکومتی ترجما نوں کی فوج ظفر موج نے ان کے خلاف پراپیگنڈا تیز کر دیا ہے۔ یہ پہلی حکومت ہے، جس کے ترجمانوں کی تعداد خود حکومت کو بھی معلوم نہیں،آئے دن کسی نئے ترجمان کی تقرری ہوتی ہے۔ ظاہر ہے جب ترجمان کی تقرری کا معیار وزیراعظم نے بدتمیزی مقرر کیا ہوا ہو تو بہت سے لوگ اپنی زبان کا استعمال کر کے ترجمان بن چکے ہیں۔ ترجمانوں کے معیار کی گراوٹ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے وزیراعظم کے معاونِ خصوصی شہباز گل نے میاں نواز شریف کی کامیڈین اداکاروں کے ساتھ تصویر پر بھی بھانڈ پن کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ یہ بھول گئے کہ وہ جن کی بات کر رہے ہیں ان سے جیتنا نا ممکن ہے چنانچہ ا ن کامیڈین اداکاروں نے وہ کرارا جواب دیا کہ شہباز گل کے پاس بغلیں جھانکنے کے سوا کوئی چارہ نہیں باقی رہا۔ میاں نواز شریف سے ملاقات کرنے والوں میں نہ صرف تمام طبقات زندگی کے لوگ شامل ہیں بلکہ خود حکومتی پارٹی کے ممبران اسمبلی اپنا اپنا بائیوڈیٹا وہاں پہنچانے کے لئے ہاتھوں میں لئے پھر رہے ہیں اور میاں صاحب کی ہلکی سی جنبش ابرو کے منتظر ہیں۔ ان پی ٹی آئی ممبران اسمبلی کو بھی معلوم ہے کہ اگلے الیکشن میں پی ٹی آئی کا ٹکٹ یقینی شکست اور ضمانت ضبط کروانے کا ٹکٹ ہے۔

ظاہر ہے یہ پارٹی اراکین جان بوجھ کر سیاسی خود کشی نہیں کریں گے، جس کسی کو دوسری پارٹیوں‘ خاص طور پر مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ مل گیا وہ اسے جیت کی ضمانت اور خوش قسمتی سمجھتے ہوئے آمین کہے گا اور جس کسی کو نہیں مل سکا وہ صبر کر کے آزاد الیکشن لڑے گا۔ خیبر پختونخوا کے بلدیاتی الیکشن کے دوسرے مرحلہ او ر پنجاب میں پی ٹی آئی کا رہا سہا بھرم بھی جاتا رہے گا اور یہ ایک ایسے عاشق کا جنازہ ہو گا، جو انتہائی دھوم سے نکلے گا۔ صفر بٹا صفر کارکردگی والی حکومت ڈیڑھ گز لمبی زبان کے سوا اور استعمال کر بھی کیا سکتی ہے۔ معیشت اور گورننس تو آئندہ آنے والی حکومت ہی سنبھالے گی۔ پچھلے ایک سال سے آئی ایم ایف سے مذاکرات ہو رہے ہیں، مذاکرات تو شیطان کی آنت کی طرح طویل ہو گئے ہیں، لیکن معاہدہ ہے کہ ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ البتہ آئی ایم ایف کی شرائط پیشگی مان کر عوام کے اوپر ایک کے بعد دوسرا عذاب مسلط کرنے کا سلسلہ باقاعدگی سے جاری ہے۔ ہر مہینہ کئی بار بجلی گیس پٹرول مہنگا ہوتا ہے اور نئے نئے ٹیکس لگائے جاتے ہیں۔ مشیر خزانہ شوکت ترین خیر سے سینیٹر منتخب ہو چکے ہیں اور اب وہ وفاقی وزیر خزانہ کے طور پر عوام کو روڈ رولر بن کر زیادہ آسانی سے پیس سکیں گے، کیونکہ مشیروں پر عدالت عالیہ نے پابندی لگائی ہوئی ہے کہ وہ کمیٹیوں کے اجلاس کی صدارت نہیں کر سکتے۔ اسی پابندی کے بعد اس وقت کے مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کو سینیٹر بنوانے کی ناکام کوشش کی گئی تھی، لیکن وہ یوسف رضا گیلانی سے الیکشن ہار گئے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ اگر عمران خان واقعی انہیں سینیٹر بنوانے میں سنجیدہ ہوتے تو اسلام آباد کی بجائے خیبر پختونخوا سے امیدوار بناتے جیسے شوکت ترین کو وہاں سے بنوایا گیا ہے۔  


میاں نواز شریف کے خلاف پراپیگنڈے کے نئے راؤنڈ کا آغاز خود عمران خان نے کیا اور وہی گھسے پٹے الزامات لگائے جو وہ سالوں سے لگا رہے ہیں۔ عمران خان کی سیاست کارکردگی کی نہیں،بلکہ صرف الزامات کی سیاست ہے اور لوگوں کے کان اتنے سالوں سے وہی الزامات سن سن کر پک چکے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے بھی میاں نواز شریف کو قید  کیا تھا، پھر تا حیات نا اہل کروایا تھااور سات سال تک جلا وطن رکھا تھا، لیکن میاں صاحب نہ صرف واپس آئے،ان کی نا اہلی ختم ہوئی بلکہ وہ تیسری بار ملک کے وزیراعظم بھی بنے۔ عمران خان کا دور جنرل مشرف کا نظریاتی اور سیاسی تسلسل ہے اسی لئے وہی ایکشن ری پلے ہوا۔ اسی طرح قید، نااہل قرار دینے کا فیصلہ اور جلا وطنی، جس طرح پہلے یہ سب ختم ہوا اور وہ تیسری دفعہ وزیراعظم بنے، اب بھی یہ انتقامی کارروائیاں ختم ہوں گی اور وہ واپس آکر چوتھی دفعہ وزیراعظم بنیں گے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ مقتدرہ یہ سمجھنے سے کیوں قاصر ہے کہ انتقامی کارروائیوں سے مقبول ترین عوامی لیڈر کی سیاست ختم نہیں کی جا سکتی اور وہی ناکام تجربہ وہ کیوں بار بار دہراتی ہے۔سازشوں اور اداروں کے غیر قانونی استعمال کے نتیجہ میں بنائے گئے غلط مقدموں اور ناجائز طور پر دی گئی سزاؤں سے سوائے شرمندگی اور جگ ہنسائی کے کیا ملتا ہے۔

عوام کے محبوب اور مقبول لیڈر دوبارہ عوام میں ہوتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ جس دن میاں نواز شریف لاہور پہنچیں گے ان کا ویسا ہی استقبال ہو گا جیسا بے نظیر بھٹو کا 1986ء میں ہوا تھا۔استقبالیہ جلوس کا ایک سرا ائرپورٹ پر ہو گا اور دوسرا سرا داتا دربار پر ہو گا اس دن لاہور کی تمام سڑکوں پر جم غفیر ہو گا اور پورا شہر ان کے استقبال کے لئے موجود ہو گا۔کوئی بتائے کہ دو تہائی اکثریت والے وزیراعظم کو سازش سے ہٹانے سے کیا حاصل ہوا۔ کیا عوام میں ان کے لئے محبت کم ہوئی۔ ان کی جگہ جس پارٹی کو زبردستی حکومت دلوائی گئی اس کا یہ حال ہے کہ لاہور میں NA-133 کے حالیہ ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کا امیدوار میدان میں تھا ہی نہیں اور یہ مقابلہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان ہوا۔ یہ ہے تجربہ گاہ میں بنائی گئی ٹیسٹ ٹیوب پارٹی کا انجام اور ایک ایسے ڈرامہ کا ڈراپ سین جس نے ترقی کرتے ہوئے اور ایشین ٹائیگر بنتے ہوئے پاکستان کو 25 سال پیچھے یعنی اکیسویں صدی سے دوبارہ بیسویں صدی میں پہنچا دیا ہے۔ عوام اب مزید اس ناکام تجربہ کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہیں اور نہ ہی اس قابل رہے ہیں کیونکہ ان کی برداشت کی سکت تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔ عمران خان کو چاہئے کہ اپنے ترجمانوں کی بے وقت کی راگنی بند کرائیں اور گھسے پٹے الزامات کا نیا راؤنڈ شروع کرنے کی بجائے اپنے گریبان میں جھانکیں اور کوئی باعزت فیصلہ کرنے کی کوشش کریں۔ عمران خان نے پی ٹی آئی کی تمام تنظیمیں توڑ کر نئے عہدیدار لگا ئے ہیں، لیکن وقت ٹیم کی نہیں،بلکہ کپتان کی تبدیلی کا آ چکا ہے۔ 

مزید :

رائے -کالم -