الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں ……افسانے اور حقیقت
مضمون نگار چیف منسٹر پنجاب کے معاون خصوصی برائے اطلاعات اور حکومت پنجاب کے ترجمان ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف نے جب سے انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال کا فیصلہ کیا ہے اسے حزب اختلاف کی جماعتوں کی طرف سے مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے- پنجاب میں ہونے والے آئندہ بلدیاتی انتخابات میں ان مشینوں کے استعمال کی خبر نے اس شور وغوغا میں مزید اضافہ کردیا ہے- اس صورتحال میں یہ ضروری ہے کہ ا لیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے بارے میں گھڑی جانے والی کہانیوں اور پھیلائی جانے والی افواہوں کے بارے میں پاکستان کے عوام کو حقائق سے آگاہ کیا جائے-
الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے بارے میں کی جانے والی افسانہ طرازی میں کہیں تو ان مشینوں کے دنیا میں استعمال کے بارے میں شکوک پیدا کئے جارہے ہیں اور کہیں ان پر اٹھنے والے اخراجات سے متعلق مبالغہ آرائی کی جارہی ہے - کوئی یہ راگ الاپ رہا ہے کہ ان مشینوں کے استعمال سے الیکشن میں بدعنوانیوں کی راہ آسان ہو جائے گی اور ان مشینوں کے ذریعے ڈالے جانے والے ووٹوں میں آسانی سے ردوبدل کیا جاسکے گا اور کوئی یہ ہانک رہا ہے کہ اس طرح انتخابات میں دھاندلی کے امکانات میں اضافہ ہو جائے گا- ان تمام باتوں سے بڑھ کر، الیکٹرانک مشینوں کے استعمال کے فیصلے کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کی نیت پر بھی شک کا اظہار کیاجارہا ہے -
الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے بارے میں یہ فرض کرنا کہ یہ مشینیں دنیا بھر میں کہیں استعمال نہیں کی جاتیں سرے سے غلط ہے - حقیقت یہ ہے کہ ان مشینوں کا استعمال نہ تو نیا ہے اور نہ ہی یہ مشینیں کسی ایسی ٹیکنالوجی پر مبنی ہیں جو پہلے سے آزمودہ نہیں - ان مشینوں کا اصل فائدہ ان ممالک میں ہے جہاں آبادی بہت ذیادہ ہے اور وہاں پر جمہوری نظام بھی رائج ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں اس وقت بھی دنیا کے تقریبا تمام بڑے جمہوری ممالک میں زیر استعمال ہیں - اکانومسٹ انٹیلی جنٹس یونٹ کے انڈکس برائے جمہوریت کے مطابق دنیا بھر میں 3.4 ارب افراد جمہوری ممالک میں بستے ہیں اور ان میں سے 2.6 ارب افراد یا 75فیصد ان ممالک میں رہتے ہیں جو یا تو الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں استعمال کررہے ہیں یا پھر مستقبل قریب میں ان کو اختیار کرنے کا سوچ رہے ہیں - دنیا کی سب سے بڑی جمہوریتوں میں بھارت، امریکہ، انڈونیشیا، پاکستان اور برازیل شامل ہیں - ان میں سے پاکستان اور انڈونیشیا کے علاوہ تمام ممالک الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں ہی استعمال کررہے ہیں - یہاں تک کہ انڈونیشیا میں بھی انتخابات میں یہی مشینی نظام اپنانے پر سنجیدگی سے غور کیا جارہا ہے۔ چنانچہ یہ کہنا صریحا غلط ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت عالمی رحجان کے برعکس کوئی کام کرنے جارہی ہے- حقیقت یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اسی راستے پر گامزن ہے جسے زمانہ حال میں جمہوری اقوام کے مشترکہ رحجان کا راستہ کہاجاسکتا ہے-
الیکٹرانک مشینوں کے بارے میں دوسری کہانی ان پر اٹھنے والے اخراجات کے بارے میں گھڑی جاتی ہے-حقائق کو جاننے کی کوشش کئے بغیر بعض لوگوں نے یہ دعوی کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتے کہ ان مشینوں پر کئی سو ارب روپے خرچ آئیں گے- اس طرح کے تخمینے مضحکہ خیزمبالغہ آرائی کے سوا کچھ نہیں - بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے -تھرڈ جنریشن سے تعلق رکھنے والی الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں پر فی مشین 17ہزار ہندوستانی روپے جو کہ تقریبا 40ہزار پاکستان روپے بنتے ہیں خرچ آرہے ہیں - ان میں سے ہر مشین ایک کنٹرول یونٹ، ایک بیلٹنگ یونٹ اور ایک ووٹر ویریفائیڈ پیپر ٹریل یونٹ پر مشتمل ہے- بھارت نے 2019 میں ملک بھر میں 10لاکھ پولنگ سٹیشنوں پر یہ مشینیں نصب کی تھیں - نصب شدہ مشینوں کی تعداد 18لاکھ تھی- پاکستان کو اپنی آبادی کے اعتبار سے ان مشینوں سے 6گنا کم مشینیں درکار ہوں گی یعنی تقریبا 3لاکھ مشینیں - اگر ہم بھارت کے اخراجات کو سامنے رکھیں تو پاکستان کو اس مد میں صرف 12 ارب روپے صرف کرنا پڑیں گے- آپ اس میں ”متعلقہ اخراجات“ یا ڈالر کی قیمتوں میں کمی بیشی کے اثرات کو بھی شامل کرلیں تو تب بھی یہ اخراجات افسانہ طرازوں کے لگائے گئے سینکڑوں ارب روپے کے تخمینوں اور دعوؤں کی گرد کو بھی نہیں پہنچتے- علاوہ ازیں ہمیں ان تمام بچتوں کو بھی پیش نظر رکھنا پڑے گا جو ایک نسبتا بہتر اور تیز رفتار انتخابی عمل کے نتیجے میں ہمیں حاصل ہوں گی۔ پھر مرحلہ وار انتخابات کی صورت میں مشینوں پر اٹھنے والے اخراجات مزید کم بھی ہوسکتے ہیں۔
ووٹنگ مشینوں پر تنقیدکرنے والوں کا ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ الیکشن کمیشن کو ہر مشین کے ساتھ ایک آئی ٹی ایکسپرٹ متعین کرنے کی ضرورت ہوگی - یہ اعتراض بھی نئے نظام پر ہونے والے دوسرے اعتراضات کی طرح بے معنی اور بلا جواز ہے- ووٹنگ مشینوں کو چلانے کے لئے کسی خصوصی مہارت کی ضرورت نہیں - یہ انتہائی سادہ اور آسان مشینیں ہیں جنہیں ہمارا پولنگ سٹاف اور ووٹرز دونوں بڑی سہولت سے استعمال کرسکیں گے- ان مشینوں کے استعمال کے لئے شائد آئی ٹی سے اس سے بھی کم شناسائی درکار ہوئی جتنی ایک عام سمارٹ فون کے لئے ضروری ہوتی ہے- واضح رہے کہ ہم ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جس میں بسنے والے دس کروڑ سے زائد افراد اپنے ٹیلی فونوں پر تھری جی اور فورجی کی سہولتیں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں -
الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے بارے میں ایک اور مغالطہ جسے بڑے پیمانے پر پھیلایا گیا ہے یہ ہے کہ ان مشینوں کے ذریعے الیکشن نتائج میں آسانی سے گڑبڑکی جاسکتی ہے- اس مغالطے کے جواب میں صرف یہ کہنا ہی کافی ہے کہ پاکستان کے لئے جو الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں تجویز کی جارہی ہیں ان کی بنیاد ایک ایسے نظام پر رکھی گئی ہے جسے عرف عام میں ووٹر ویریفائیڈ پیپر آڈٹ ٹریل (VVPAT) کہا جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی کسی بھی مشین میں ووٹ ڈالنے کے بعد ہر ووٹر کو مشین سے ایک پرنٹڈ کاغذ ملے گا جس میں وہ اپنے نام کے آگے اس امیدوار کا نام دیکھ سکے گا جسے اس نے ووٹ دیا ہوگا- انتخابات کے بعد یہ کاغذات ایک پیپر آڈٹ ٹریل کے طورپر محفوظ کرلئے جائیں گے اور کسی تنازعہ کی صورت میں انہیں ثبوت کے طور پر پیش کیا جاسکے گا- علاوہ ازیں اس نظام کے تحت ووٹوں کی گنتی یا نتائج میں کوئی بھی ممکنہ ردوبدل متعلقہ مشین کے سسٹم سے ا رتباط یا اس میں دخل اندازی کے ذریعے ہی ممکن ہو سکتا ہے جو کہ مجوزہ میشنوں میں سرے سے نا ممکن ہے -
دوسری طرف الیکشن ایکٹ میں ہونے والی ترمیم میں بھی یہ واضح طور پر کہہ دیا گیا ہے کہ ہر مشین اپنی جگہ پر سٹینڈ الون یعنی کہ ایک مکمل واحدت ہوگی اور ان مشینوں کا آپس میں کوئی رابطہ نہیں ہوگا یعنی یہ مشینیں انٹرنیٹ حتی کہ بلوٹوتھ یا وائی فائی وغیرہ سے بھی کسی طور منسلک نہیں ہوں گی- اس وقت دنیا بھر کے مختلف ممالک میں ان مشینوں کے غلط استعمال سے محفوظ رہنے کے لئے آئی ٹی کے کئی اقدامات اختیار کررکھے ہیں - مثال کے طور پر بھارت میں استعمال ہونے والی مشینوں میں اکٹھے ہونے والے اعدادوشمار تک رسائی کے لئے کسی بھی ممکنہ کوشش کی نشاندہی کے لئے ایک موثر سسٹم تیار کررکھا ہے- یہ سسٹم کسی بھی مداخلت کی صورت میں متعلقہ مشین کو فوری طور پر ناکارہ بنا دیتا ہے - ان مشینوں کا تمام تر سوفٹ ویئر ایک ایسی چپ میں محفوظ کیا گیا ہے جسے آئی ٹی کی زبان میں ون ٹائم پروگرام ایبل (One TIME Programmable) چپ کہا جاتا ہے - آئی ٹی کا ایک عام طالب علم بھی اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ اس طرح کی چپ کے سوفٹ ویئر میں کسی طرح کی گڑبڑ یا دخل اندازی ممکن نہیں ہوتی- بھارت میں اس ٹیکنالوجی کے اجراء کے بعد سے اب تک 113 کروڑ ووٹراپنا حق رائے دہی استعمال کرچکے ہیں اور اس دوران ووٹنگ کے حوالے سے صرف 25 شکایات موصول ہوئیں، جو جانچ پڑتا ل کے بعد تمام کی تمام غلط ثابت ہوئیں -
بعض لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ الیکٹرانک مشینیں انتخابی دھاندلی کے سدباب کے لئے موثر ثابت نہیں ہوتیں - یہ خیال حقیقت پر مبنی نہیں - بروکنگز انسٹیٹیوٹ کے جائزے کے مطابق بھارت میں ان مشینوں کے استعمال سے نہ صرف انتخابی ہیراپھیری اور دھاندلی میں کمی آئی ہے اور انتخابات کے دوران تشدد کے واقعات کم ہوئے ہیں بلکہ معاشرے کے کمزور طبقات خصوصا خواتین کی ووٹوں کی تعداد میں بھی قابل قدر اضافہ ہوا ہے- اپنے غیرجانبدارانہ تبصروں کے لئے معروف پاکستانی الیکشن ایکسپرٹ سرور باری نے بجا طور پرلکھا ہے کہ الیکٹرانک مشینوں کے استعمال سے انتخابات میں روا رکھنے جانے والے ان پس پردہ ہتھکنڈوں کا قلع قمع ہوسکے گا جن پر ہماری سیاسی جماعتیں عرصہ دراز سے انحصار کئے چلی آتی ہیں ان ہتھکنڈوں میں جعلی ووٹوں سے بکسوں کی بھرائی، پولنگ ایجنٹوں کی چال بازیاں، غیرسیل شدہ پولنگ بیگز کے ذریعے بعداز انتخابات نتائج میں ردوبدل اور تاخیر کے ساتھ نتائج کا اعلان شامل ہیں -
آخر میں اس الزام کی حقیقت پر بھی ایک نظر ضروری ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے اجراء کا منصوبہ نیک نیتی پر مبنی نہیں - دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی یہ تصور پیش کرنے والی پہلی سیاسی جماعت نہیں ہے - الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا تجربہ سب سے پہلے 2011 ء میں ایک بلدیاتی انتخاب اور پھر 2017 ء میں قومی اسمبلی کی ایک نشست پر ضمنی انتخاب میں کیا گیا تھا اور اس وقت بالترتیب پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ اقتدار میں تھیں - اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سٹریٹجکٹ پلان 2019-23ء میں بھی اس امر کا عہد کیا گیا تھا کہ اس طرح کے پائلٹ انتخابات کے مزید تجربات کئے جائیں گے(مثلا ًالیکٹرانک ووٹنگ مشین، بائیومیٹرک ویریفیکیشن مشین اور اورسیز ووٹنگ مشین کے سسٹم کا اجراء وغیرہ) تاکہ ان تجربات کی روشنی میں ایسی مطالعاتی رپوٹیں تیار کی جاسکیں جو پارلیمنٹ اور دوسرے متعلقہ اداروں کے روبرو قانونی اور عملی غوروخوض کے لئے پیش کی جاسکیں - سٹریٹیجک پلان میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ یہ رپوٹیں دسمبر2021 ء تک مکمل کرکے پیش کردی جائیں گی- سچ پوچھیں تو پاکستان تحریک انصاف پہلے سے موجود ایک اصلاحی عمل کو آگے بڑھانے اور اسے اس کے منطقی انجام تک پہنچانے کا فریضہ سرانجام دے رہی ہے-
مذکورہ بالا تمام حقائق زبان حال سے کہہ رہے ہیں کہ وقت آچکا ہے کہ ہم ایک ایسے ازکاررفتہ اور فرسودہ انتخابی طریقہ کار کو خیرباد کہہ دیں جس کا دامن غیرقانونی اور غیر اخلاقی سرگرمیوں کے فروغ کی آماجگاہ کے سوا کچھ بھی نہیں - مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اگرچہ اس تبدیلی کا سہرا پاکستان تحریک انصاف کے سر ہے لیکن آخر کار اس سے کسی ایک جماعت کی بجائے 13کروڑ سے زیادہ پاکستانی ووٹر فائدہ اٹھائیں گے-
آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پے اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں