سینیٹ کے لئے ہارس ٹریڈنگ،حکومت کو ترمیم کے لئے مشکلات
تجزیہ :چودھری خادم حسین
حکومت کی سر توڑ کوشش اور سیاسی جماعتوں کی مسئلہ کی نوعیت کے اعتبار سے رضا مندی کے باوجود تا حال سینیٹ کے انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ روکنے کا فارمولا نہیں طے پایا اور نہ ہی حتمی فیصلہ ہوا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اکابرین ملت شاید پوری طرح متفق نہیں یا پھر خود ان حضرات کو موقع دینا چاہتے ہیں جو اس الیکشن سے کمائی کرنے والے ہیں ۔ اس میں کئی اغراض بھی ہو سکتی ہیں ۔ مسلم لیگ (ن) کی حد تک تو سمجھ آتی ہے کہ اس کے اراکین شاید ڈسپلن میں ہوں ،تاہم شبہ کی گنجائش موجود ہے کیونکہ پنجاب کے سوا مسلم لیگ (ن) کوبلوچستان اور خیبرپختونخوا میں خدشات ہیں۔ یوں بھی یہ ہارس ٹریڈنگ حقیقت میں فاٹا کے بعد خیبر پختونخوااوربلوچستان میں زیادہ متوقع ہے۔عمران خان اصولی بات کرتے ہیں ، ان کی طرف سے تو شو آف ہینڈ کے طریقے کامطالبہ کر دیا گیاجو مان بھی لیا گیا تاہم جب حکومت کی طرف سے اسمبلی میںآکر ووٹ دینے کی بات کی گئی تو ان کی طرف سے انکار کر دیا گیا ۔ دوسرے معنوں میں وہ دعا گو ہیں ۔ باردیگرحکومت کی گردن پر پاکستان پیپلز پارٹی نے اصولاً تو حمایت کر دی۔ساتھ ہی گول میز (کل جماعتی کانفرنس) کی تجویز بھی دے دی کہ سب کو راضی کرو تو ہمارے ووٹ بھی لے لو شاید یہ اس لئے بھی ہے کہ خیبرپختونخوا اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے ایک رکن کے لئے اراکین بھی نہیں ہیں اس کے باوجود گلزارخان کے دونوں صاحبزادے وقار اورعمار پر امید ہیں کہ ماضی میں گلزارخاں محترمہ شہید کو یہ معجزہ دکھا چکے ہوئے ہیں۔جب ان کو ٹکٹ دیا گیا تو اس کے بعد انہوں نے اپنے صاحبزادے کے لئے کہا۔ محترمہ نے بتایا کہ اتنے اراکین نہیں۔ ان کو بتایا گیا کہ ایک رکن کے لئے پورے ہونے کے بعد دو ہیں اگر آپ ایک تجویز کنندہ اور ایک تائید کنندہ بنادیں تو یہ نشست مل سکتی ہے۔ محترمہ نے اجازت دے کر اور انہوں نے یہ نشست جیت کر دو نشستیں بنا دیں ۔
اس وقت جو بھی حالات ہیں ان میں ماہرین آئین و قانون کا کہنا ہے کہ کسی بھی ترمیم کا اطلا ق موجودہ انتخابات پر نہیں ہوگا کہ تمام مراحل مکمل ہو چکے اب صرف پولنگ ہونا ہے جس کا طریقہ کار طے ہے اس سے انحراف نہیں ہو سکتا ۔ اس سلسلے میں الیکشن کمیشن بھی رائے دے چکا اگر جلدی کی گئی تو پھر قانون یا آئین میں کی گئی ترمیم کے لئے ’’موثر بہ ماضی‘‘کے الفاظ بھی منظور کراناہوں گے جو نئی بحث چھیڑ دیں گے۔ بہتر عمل یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے اراکین کو کنٹرول کریں اور مستقبل کے لئے اس کمیٹی کو فعال بنائیں جو پارلیمنٹ کے 33اراکین پر مشتمل ہے اور اس کی ذمہ داری انتخابی اصلاحات کے لئے آئینی اور قانونی ترامیم کے مسودات تیار کرنا ہے جن کی منظوری کے بعد آزاد، خود مختار، غیر جانبداراور با اختیار الیکشن کمیشن شفاف تر انتخابات کرانے کا اہل ہوگا ۔ اس میں تمام تجاویز شامل کی جا سکتی ہیں لیکن اس کے لئے تحریک انصاف کی شرکت لازم ہے ان کی طرف سے تین اراکین نامزد ہیں۔لیکن تحریک انصاف والے استعفے دئیے بیٹھے ہیں اور اسمبلی میں آنا ہی نہیں چاہتے۔ اس طرح اس گو مگو کی حالت سے نکلنا کتنا مشکل ہے اس کا اندازہ لگایاجا سکتا ہے ۔ یوں بھی مستقبل کے چیئرمین سینٹ اور ڈپٹی چیئرمین کے لئے بھی سودے بازی ہونا ہے۔اب اگر یہ کہا جائے کہ اراکین اور سیاسی جماعتیں خود ہی ماحول خراب کر رہی ہیں اور تمام معاملات کی ذمہ داری ان پر عائد ہوتی ہے تو کیا غلط ہے؟ دیکھئے نتیجہ کیا نکلتاہے۔