جعلی یا غیر معیاری ادویات کا مسئلہ : حل کیا ہے؟
آج سے کوئی بیس سال پہلے 1998ء کے لگ بھگ ایک غلغلہ اٹھا کہ ملک میں بھاری مقدار میں جعلی ادویات بن رہی ہیں اور مارکیٹ میں موجود ہیں۔ ایف آئی اے کو پتہ چلا کہ زیادہ تر جعلی ادویات کے زیادہ تر کارخانے اندرون شہر لاہور میں یا گلبرگ کی کوٹھیوں کے تہہ خانوں میں قائم ہیں، یہ بھی معلوم ہواکہ ایسا کاروبار کرنے والوں کے سرپرست بااثر لوگ ہیں۔دبنگ وزیراعلیٰ نے کریک ڈاؤن کیا اور سپیشل ڈرگ کورٹس بنائیں، اس کے بعد کچھ عرصے تک خاموشی رہی۔ اب پھر پنجاب کے بڑے شہروں لاہور، ملتان، فیصل آباد اور خیبر پختونخوا میں جعلی ادویات کا شور اٹھا۔ معاملہ عدالت تک گیا۔عدالتی ریمارکس کے پیش نظر ایک دفعہ پھر پنجاب کی حکومت سخت اقدامات پر مجبور ہوئی۔ ڈرگ ایکٹ کے صوبائی دائرے میں آنے والے قوانین میں ترمیم کی گئی ۔ اس ترمیم کے تحت ضلعی سطح پر ڈرگ انسپکٹر کو وسیع اور کڑے صوابدیدی اختیارات دئیے گئے۔ان آمرانہ اور ظالمانہ اختیارات کی بنا پر ادویہ ساز کمپنیوں اور کیمسٹ برادری نے مشترکہ ہڑتال کی کال دی۔ پنجاب اسمبلی کے سامنے مظاہرہ ہوا جس میں خود کش دہماکے کا افسوسناک واقعہ بھی پیش آیا ۔ بہر حال اب شنید ہے کہ حکومت اور سٹیک ہولڈرز کے درمیان ابتدائی بنیادی مذاکرات کامیاب ہو گئے ہیں اور ترمیم میں تبدیلیوں پر حکومت رضامند ہوگئی ہے۔ بنیادی سوالات یہ ہیں کہ کیا جعلی اور غیر معیاری ادویات دونوں ایک ہی چیز ہیں یا تکنیکی طور پر ان میں کوئی فرق ہے؟ جعلی ادویات زیادہ تر کیسے اور کون لوگ تیار کر کے بیچتے ہیں ؟ غیر معیاری ادویات زیادہ تر کہاں بن رہی ہیں اور ان کی روک تھام کیسے ممکن ہے؟ حکومتی پالیسی میں خامیا ں کہا ں کہاں ہیں ؟ ریگولیٹرز میں کالی بھیڑیں کتنی ہیں؟ کیا سخت قوانین بنانے اور کالی بھیڑوں کو جابرانہ اختیارات دینے سے یہ اہم ترین مسئلہ حل ہوسکتا ہے ؟ کیا تادیبی قوانین کے ساتھ ساتھ یہ مسئلہ اعلیٰ ترین اخلاقیات کا بھی متقاضی ہے یا نہیں ؟ کیا جعلی دواؤں کے کاروبار میں یا اس کے فروغ اور فروخت میں کچھ اور لوگ بھی موٗثر کردار ہیں یانہیں؟ کیا ٹی وی چینلز پر آدھ آدھ گھنٹے کے اشتہارات چلانے والے ادویہ ساز رجسٹرڈ ہیں ؟ کیا ادویہ اس نوعیت کی چیز ہے کہ اس کے اشتہارات ٹی وی اور اخبارات اور ہفتہ وار میگزینوں میں شائع کی جائیں۔ کیا ہربل ادویات باقاعدہ انڈر کنٹرول ہیں یا زیادہ تر جعلی ادویات ہربل میں ہی فروخت ہو رہی ہیں؟کیا ادویات کے نرخ مقرر کرنے کے لئے کوئی سائنسی معیار ہے؟ بعض بنیادی ضرورت کی ادویات آج بھی 50پیسے فی گولی میں دستیاب ہیں یا اپنی قیمت کی وجہ سے کبھی مارکیٹ سے غائب ہو جاتی ہیں اور اسی طرح کی کئی ادویات جو ضمنی ادویات شمار کی جاتی ہیں ان کی قیمت 50 روپے فی گولی رکھی گئی ہے ؟ مختصراً یہ کہ ایک افراط و تفریط اور ایک انار کی ہے جو ہر شعبے کی طرح صحت کے شعبے میں بھی ہر طرف چھائی ہوئی نظر آرہی ہے ۔
جعلی ادویات وہ ہوتی ہیں جو کہ عموماًکثیرالقوی کمپنیوں کی مشہور اور کثیر الاستعمال برانڈ ز میں انہی کے نام اور پیکنگ میں جعلساز طریقے سے بنائی جاتی ہیں۔ یہ مارکیٹ میں لائی جاتی ہیں اور ہاتھوں ہاتھ بکتی ہیں جعلی ادویہ سازی کا کا م بڑے شہروں کی گنجان آباد گلیوں کے مکانوں کے تہہ خانوں میں عموماً انجام پاتا ہے ۔ ایسے مکروہ کاروبار کرنے والے لوگوں کے سرپرست بھی بڑے بڑے لوگ ہوتے ہیں۔ آج تک جتنے بھی لوگ اس دھندے میں پکڑے گئے ہیں اپنے سرپرستوں کی مہربانی کی وجہ سے ہمیشہ بچ نکلے ہیں۔ غیر معیاری ادیات کا مسئلہ اپنی جگہ ہے ۔ یہ اپنی نوعیت کا ایک ایشو ہے جس کا حل بالکل ممکن اور آسان ہے ۔ بنیادی بات یہ ہے ہمارے ملک میں ایلوپیتھک ادویات کا 98 فی صد خام مال انڈیا ، چائنہ اور یورپی ممالک سے درآمد ہوتا ہے اس درآمد شدہ خام مال کے ساتھ اسی ملک کے وارنٹیز، تکنیکی اور تجزیاتی دستاویزات ہوتی ہیں جو یہاں ہمارے ریگولیٹرز پوری چیکنگ اور جانچ پڑتال کے بعد پورٹ سے ایشو کرنے کی اجازت دے دیتے ہیں۔ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (DRAP) یا منسٹری کے پاس پوری دنیا کی خام مال بنانے والوں کی فہرستیں موجود ہیں۔ شنید ہے کہ کراچی اوراسلام آباد کی ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹریاں اب اس معیار کی ہیں کہ وہ درآمدی کمپنیوں کے خام مال کی اچھی طرح پرکھ اور جانچ پڑتال کرسکتی ہیں۔ اگر کوئی کمپنی چاہے وہ انڈیا کی ہو ، چائنا کی ہو یا یورپی ممالک کی، اگر اس کے خام مال میں کوئی کمی ہے تو اس کو بلیک لسٹ کر کے اس سے درآمد بند کرنا پوری طرح ہمارے ریگولیٹرز کے کنٹرول میں ہے۔
ایسا بھی ممکن ہے کہ کوئی ادویہ ساز فرم بنیادی ادویہ کی مقدار کم کرکے ادویہ سازی کرے اور اس طرح اپنے منافع کا مارجن بڑہانے کی کوشش کرے ۔ یہ ادویہ جعلی نہیں بلکہ غیر معیاری Substandard کہلائیں گی۔اس قسم کے غیر قانونی کام کی روک تھام کے لئے پنجاب، سندھ، کے پی کے اور بلوچستان میں صوبائی ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹریاں کام کر رہی ہیں۔ ضلعی سطح پر متعین ڈرگ انسپکٹرز صاحبان بازار میں عام میڈیکل سٹورز سے دواوؤں کے نمونے اٹھا کر لیبارٹری میں بھجوائے ہیں۔یہی نمونے مرکزی لیبارٹری کو بھی بھجوائے جاتے ہیں۔یہ اگر غیر معیاری نکلیں تو ان کو صوبائی کوالٹی کنٹرول بورڈ اور مرکزی کوالٹی کنٹرول بورڈ میں بھجوا دیا جاتا ہے۔یہ بااختیار ادارے ان کیسز کو ڈرگ کورٹس میں بھجوا دیتے ہیں وہاں سے اس کام کے ذمہ داروں کو سزائیں بھی ہوتی ہیں اور فرمز کے لائیسنس بھی منسوخ ہوچکے ہیں ۔
دراصل اس مسئلہ کا حل یہ نہیں ہے کہ ڈرگ انسپکٹرز کے اختیارات بڑھائے جائیں۔ ڈرگ ریگولیٹرز کو عدالتی اختیارات دینا تو انتہائی ناقص العقل اقدام ہے۔اس کا منطقی نتیجہ مزید افراتفری اور رشوت خوری کی صورت میں برآمد ہوگا لیکن اس مکروہ دھندے کی روک تھام بالکل نہیں ہو گی۔دراصل ہمارا بنیادی المیہ ہمارا اخلاقی زوال اور بے حسی ہے۔ڈرگ ریگولٹرز اور انسپکٹرز میں 50فی صد لوگ اب بھی انتہائی ایماندار اور مخلص ہیں اور انہی کی دیانت حب الوطنی کی وجہ سے آج بھی صحت کا معیار اس حد تک قائم و دائم ہے لیکن باقی کالی بھیڑیں ہیں ۔ اور اپنی منتھلی لینے کے لئے زندہ ہیں لہٰذا منتھلی لینے والوں کے ہاتھ میں مزید مطلق العنان اختیارات دینا اس لعنت کو مزید آگے بڑھانے کے برابر ہو گا۔ حکومت کے کرنے کا پہلا کام یہ ہے کہ ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹیوں کو جدید ترین آلات سے لیس کیا جائے۔لیبارٹریوں کے تجزیاتی افسران، غیر جانبدار، دیانتدار، اعلیٰ ترین تکنیکی مہارت رکھنے والے اور اچھی شہرت کے حامل ہوں ۔ ان کو تنخواہیں اور مراعات بھی سپشل گریڈ اور مارکیٹ کے برابر دی جائیں۔تجزیاتی کام دو سطحوں پر کیا جائے بنیادی خام مال کی ٹیسٹنگ بھی مسلسل کی جائے اور اس بات پر نظر رکھی جائے کے کو ئی بلیک لسٹ کمپنی تو درآمدی فہرست میں شامل نہیں، جبکہ تیار شدہ ادویات (Finished Drugs) کی ٹیسٹنگ بھی ہوتاکہ غیر معیاری ادویات کا پتہ لگایا جاسکے ۔
ہمارے نزدیک ڈرگ انسپکٹر اور ریگولیٹرز کا کوئی بنیادی سروس سٹرکچر نہ ہونا، ان کے لئے اگلے گریڈ میں ترقی کے راستے مسدود ہونا، ان کے لئے کوئی مناسب پرکشش مراعات کا نہ ہونا بھی اپنی جگہ ایک المیہ ہے ہماری آنکھوں کے سامنے سول سروس میں لوگ گریڈ 17 میں آجاتے ہیں ۔ ڈی ایم جی اور انکم ٹیکس میں ہر پانچ سال بعد ترقی کرتے کرتے21 گریڈ میں ریٹائر ہو جاتے ہیں ۔ لیکن راقم الحروف کی آنکھوں کے سامنے ڈرگ انسپکٹرز ، ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسرز ، ہسپتالوں کے میڈیکل آفیسرز پی ایچ ڈی ، ایم سی پی ایس اور ایف آرسی ایس جیسے اعلیٰ تعلیمی معیار اور سروس سے گزر کر 19 گریڈ میں ریٹائر ہو جاتے ہیں ۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ کے کرتا دھرتا اپنے لئے سب کچھ کرتے ہیں۔ لیکن تعلیم اور صحت کے شعبے اور ان شعبوں کے ملازمین کے ساتھ ہمیشہ سوتیلی ماں کا سلوک کرتے ہیں۔ ہمارے اربابِ بست و کشاد کو اس اہم نکتے پر بھی غور کرنا چاہئے۔ ادویہ ساز فرمز کی کوالٹی کنٹرول لیبارٹریاں اور ان کے کوالٹی کنٹرول منیجر ز اعلیٰ معیار کے ہونے چاہیں۔ اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔تمام ادویہ ساز فرمز باقاعدہ صنعتی زونز کے اندر ہو نے چاہئے ۔رہائشی علاقوں اور گلیوں میں ادویہ سازی پر مکمل پابندی ہونی چاہئے ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آئندہ ہر صنعتی زون میں ایک الگ فارما سیوٹیکل بلاک ہو اور صرف اسی بلاک کے اندرفرمز کو لائسنس دئیے جائیں۔
ملکی اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق دوا صرف مستند ڈاکٹر کے نسخے پر ایک مستند اور کوالیفائیڈ فارماسسٹ کے زیر نگرانی رجسٹرڈ شدہ سٹور یا فارمیسی سے خریدی اور استعمال کی جاسکتی ہے۔ ایلوپیتھک یا ہربل ادویہ کی اشتہار بازی قانوناً سختی سے ممنوع ہے لیکن وطن عزیز میں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ ٹی وی چینلز ، میگزینز،رسالوں میں پورے پورے صفحے کے اشتہارات شائع ہوتے ہیں جن میں زیادہ تر اشتہارات ہربل اور ہومیو پیتھک ادویات کے ہوتے ہیں ۔ ان اشتہارات میں ان دواؤں کے فوری اور جادوئی اثرات کو نمایاں کیا گیا ہوتا ہے۔کیا حکومت کو یہ خلاف قانون کام نظر نہیں آتا۔ کیا ان اشتہاری ادویات کی چیکنگ اور معیار یا رجسٹریشن کا بھی کوئی ادارہ ہے؟ ہمارا احساس ہے کہ معروف دوا ساز کمپنیاں اپنے معیار کا بخوبی ادراک رکھتی ہیں۔اپنے اخلاقی تقاضوں کا بھی پوری طرح خیال رکھتی ہیں۔ ان کی اچھی شہرت اور معیار کی شناخت میں ہی ان کی کاروباری ترقی کا راز پنہاں ہے۔ 1990ٗۂٗۂۂٌٰٰٗ ء سے پہلے ادویہ سازی کا شعبہ 90 فی صد تک بیرونی کمپنیوں کے کنٹرول میں رہا اور پچھلے تیس سال میں ہماری قومی دوا ساز کمپنیوں نے ملکی ضرورت کا 65 فی صد اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے۔تو یقیناًیہ معیار کے بل بوتے پر ہی ہے۔ اگر معیار پر سمجھوتہ ہوتا تو اتنی زیادہ کامیابی ممکن نہیں تھی۔معروف قومی دواساز کمپنیوں نے کثیر القوی کمپنیوں کے برابر معیار رکھ کر کم نرخ پر مقابلہ کر کے یہ کامیابی حاصل کی ہے اور ملکی معیشت میں اپنا حصہ شامل کیا ہے اور نوجوانوں کو وائٹ کالر جابز دئیے ہیں حکومتی اربا ب بست و کشاد اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے حکام کو چاہئے کہ نئے قوانین اور قواعد بنانے میں ان کی رائے کا مکمل احترام کریں اور اگر دوا ساز کمپنیوں کے مالکان یا پاکستان فارمامینوفیکچرز ایسوسی ایشن کی نظر میں کچھ ایسی کالی بھیڑیں ہیں جو ان کی بدنامی کا سبب بن رہی ہیں تو کمپنی مالکان بھی ان کو اپنی صفوں سے نکال باہر کرنے میں حکومت کا کھل کر ساتھ دینا چاہئے۔