فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر370

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر370
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر370

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کراچی پہنچتے ہی ہمارے مہربان دوستوں نے ہمارے لئے جن جگہوں پر جانا ضروری سمجھتے ہوئے جو فہرست مرتب کی تھی اس میں بندو خاں بھی شامل تھے۔
’’یہ بندو خاں کون صاحب ہیں؟‘‘ ہم نے طفیل احمد جمالی سے پوچھا۔
انہوں نے کہا ’’یہ صاحب نہیں‘ کباب ہیں۔‘‘
’’کیا ۔۔۔ بندو خاں کبابوں کا نام ہے؟‘‘
’’بھئی تم تو بہت کوڑھ مغز انسان ہو۔ تم پاکستان میں رہتے ہو نا؟‘‘ انہوں نے کہا۔
’’بالکل۔‘‘
’’تو پھر بندو خاں کے کبابوں کا نام تک نہیں سنا‘ بڑی شرم کی بات ہے۔‘‘
ابراہیم جلیس بولے ’’واقعی۔ اگر میں تمہاری جگہ ہوتا تو ہاکس بے پر جا کر سمندر میں ڈوب مرتا۔‘‘

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر369 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ہم نے عرض کیا ’’مگر لاہور میں کوئی بندو خاں کے کبابوں کو نہیں جانتا۔ وہاں اور بھی مشہور کباب والے ہیں مثلاً چونا منڈی کے کباب‘ گوالمنڈی کے کباب۔‘‘
’’بھئی مانتے ہیں کہ لاہور والے بہت خوش خوراک ہیں۔ وہاں کھانے پینے کی چیزوں کی بھی بڑی ورائٹی ہے مگر چٹ پٹی چیزوں میں کراچی کا جواب نہیں ہے۔ تم بہت لاہور لاہور کرتے ہو‘ یہ بتاؤ وہاں گولے کے کباب ہوتے ہیں؟‘‘ انہوں نے کہا۔
’’نہیں تو؟‘‘
’’یہاں ہوتے ہیں۔ ریوالی سینما جانے والی سڑک پر چل کر تمہیں کھلائیں گے۔ کیا یاد کرو گے۔‘‘
’’کیوں نہیں‘ کل ہی پروگرام بنا لو‘‘ الیاس صاحب نے تائید کی۔
’’اور بندو خاں کے کباب تو یقیناً لاہور میں نہیں ہوتے اسلئے کہ وہاں بندو خاں ہی نہیں پائے جاتے۔ اس کے علاوہ چائنیز فوڈ جیسا کراچی میں ہوتا ہے وہ تم لاہور والوں کو کہاں نصیب ہے۔‘‘
یہ بھی ٹھیک ہے کہ اس وقت تک لاہور میں چائنیز کھانے کے ریستوران ہی صرف دو تھے اور وہ بھی بس واجبی سے۔ جبکہ کراچی میں بہت اچھے چائنیز ریستوران تھے۔
اسی شام ہم لوگ موٹر رکشوں میں سوار ہو کر بندو خاں کی دکان پر پہنچ گئے۔ یہ دکان لب سڑک ہی تھی۔ سڑک پر دور تک کاروں کی قطاریں لگی ہوئی تھیں۔ اس وقت تک لاہور میں کاروں کی بہتات نہیں ہوئی تھی۔
’’دیکھا تم نے‘‘ جمالی صاحب نے کہا ’’اتنی بہت سی کاریں دیکھی ہیں کبھی؟ یہ سب بندو خاں کے کباب کھانے آئی ہیں؟‘‘
’’کاریں؟‘‘ ہم نے حیران ہو کر پوچھا۔
’’بھئی تم واقعی اوّل نمبر کے کوڑھ مغز ہو۔ کاریں نہیں کاروں والے اور دیکھو کتنے صبر سے لائن میں کھڑی ہیں۔‘‘
سامنے ہی کاؤنٹر پر کباب بن رہے تھے اور پراٹھے تلے جا رہے تھے۔ نہایت اشتہا انگیز خوشبو ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ بندو خاں کو تو اشتہار دینے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ شہر کی ایک اہم سڑک پر ان کے کباب پراٹھوں کی مہکتی ہوئی خوشبو سب سے مؤثر اور بڑا اشتہار تھی۔
اس کاؤنٹر یا باورچی خانے کے عقب میں میزیں اور کرسیاں لگی ہوئی تھیں۔ شوقین لوگوں کا ایک ہجوم تھا۔ بیرے بڑی پُھرتی اور مستعدی سے کباب پراٹھے اِدھر سے اُدھر لے جا رہے تھے۔ گرما گرم کباب پراٹھے بھوک کو اور بڑھا دیتے تھے۔ ہماری باری کافی دیر بعد آئی۔
ہم نے بے صبری سے پوچھا ’’کیا ان کبابوں کیلئے ایک دن پہلے آرڈر دینا پڑتا ہے؟‘‘
بولے’’صبر کرو۔ دیکھتے نہیں کتنی بھیڑ ہے۔ باری آنے پر کباب ملیں گے۔ بھائی یہ کراچی ہے‘ یہاں ڈسپلن کا بہت خیال رکھا جاتا ہے۔‘‘
جب کباب اور سنکے ہوئے سرخ پراٹھے میز پر آئے تو ساری شکایت دور ہو گئی۔ بندو خاں کا کباب پراٹھا واقعی ایک مختلف اور منفرد چیز تھی۔
ہمیں یاد آیا کہ قیام پاکستان سے پہلے بھی ایک کباب پراٹھے والے سارے ہندوستان میں مشہور تھے۔ علی گڑھ کی نمائش مشہور تھی۔ اس نمائش کے دنوں میں علی گڑھ میں یہ کباب اور پراٹھے ایک نرالی خصوصیت سمجھے جاتے تھے۔ بہت سے لوگ صرف ان ہی کی خاطر نمائش میں جاتے تھے۔ ہندوستان کے طول و عرض میں جہاں کہیں کوئی نمائش لگتی تھی یہ صاحب وہاں پہنچ جاتے تھے۔ نام تو ان کا یاد نہیں‘ علی گڑھ کے کباب پراٹھے والے کہلاتے تھے۔
ہم جب میرٹھ میں پڑھتے تھے تو وہاں بھی سال کے سال نوچندی کا میلہ لگتا تھا۔ دور دور سے دکاندار آتے تھے۔ شریک ہونے والے بھی اس کے انتظار میں رہتے تھے۔ اِدھر نوچندی کا میلہ شروع ہوا‘ اُدھر لوگوں نے اِدھر کا رخ کیا۔ صاحب حیثیت لوگ خیمے اور شامیانے لگا لیا کرتے تھے جہاں نشست و برخاست بلکہ سونے تک کا انتظام ہوتا تھا۔ سارا دن گھوم پھر کر وہاں آرام کیا جاتا تھا۔ نمائش میں دیر ہو جائے تو وہیں سو جاؤ۔ (جاری ہے )

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر371 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں