کیا جنگ ہو گی؟

کیا جنگ ہو گی؟
کیا جنگ ہو گی؟

  

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنے دورہ اسلام آباد کے دوران پاکستان کے ساتھ تاریخی تعلقات کی تجدید کی۔20ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے حوالے سے مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے۔اس دورے سے نازک صورت حال کا سامنا کرنے والی پاکستانی معیشت کو بہت حد تک ریلیف ملنے کے امکانات ہیں۔اگرچہ اس پر عمل درآمد ہونے اور اثرات عوام تک پہنچنے میں وقت لگے گا۔

شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنا پرتپاک اور والہانہ استقبال کرنے والے میزبانوں کے ساتھ کھڑے ہوکر بتایا کہ2030ء تک چین معاشی اعتبار سے دنیا کی پہلی اور بھارت تیسری بڑی قوت ہوگا۔انکا یہ بھی کہنا تھا کہ اس وقت تک پاکستان کا شمار دنیا کی 20بڑی معیشتوں میں ہوگا۔اگر چہ بعدازاں وفاقی وزیر خرانہ اسدعمر نے ایک تقریب میں اظہار خیال کرتے ہوئے امید ظاہر کی اس صدی کے آخر تک پاکستان دنیا کی بیسویں بڑی معیشت بن جائے گا۔یعنی صرف81سال کے بعد۔ ایسے میں دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ اسد عمرکے دیگر معاشی تجزیوں کی طرح یہ اندازہ بھی غلط نکلے۔ سعودی ولی عہدکی پاکستان آمد سے پہلے پلوامہ واقعہ رونما ہو چکا تھا۔بھارتی حکومت اور میڈیا نے بے بنیاد پروپیگنڈا اور الزامات کی بوچھاڑ کر کے فضا نہایت کشیدہ بنا رکھی تھی۔

ایسے میں سعودی ولی عہد کی آمد ہر لحاظ سے اہم تھی۔شہزادہ محمد بن سلمان سعودی عرب کی ترقی کے حوالے سے خود ویژن2030کو پوری دنیا میں متعارف کرانے کی مہم پر ہیں جو بنیادی طور پر سعودی معاشرے اور اقتصادیات کو نئی بنیادوں پر استوار کرنے کا منصوبہ ہے۔

سعودی ولی عہد نے اپنے دورہ اسلام آباد کے دوران جہاں یہ کہہ کر پاکستانیوں کے دل موہ لئے کہ وہ ریاض میں پاکستان کے سفیر ہیں۔وہیں نئی دہلی ائیر پورٹ پر استقبال کیلئے تمام پروٹوکول قواعد یکسر نظر انداز کر کے آنے والے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو اپنا بڑا بھائی قراردیدیا۔

سعودی ولی عہد کے حالیہ غیر ملکی دوروں کا مقصد اپنے ویژن 2030ء کی جانب بڑھنے کیلئے عملی اقدامات کرنا ہے۔اس سب کا اہم ترین حصہ یہ ہے کہ سعودی حکومت دنیاکے مختلف ممالک میں500ارب ڈالر کی ایسی سرمایہ کاری کرنا چاہ رہی ہے جس سے تیل کی افادیت کم ہونے کے باوجود مالی معاملات کسی خرابی کی طرف جانے کے بجائے مزید بہتری کی جانب جائیں۔ سعودی حکومت ابتدائی طور پر جن ممالک میں سرمایہ کاری کرنا چاہتی ہے ان میں پاکستان، بھارت، چین، ملائشیا اور انڈونیشیا بھی شامل ہیں۔ سرزمین پاکستان پر کھڑ ے ہو کر صرف 11سال بعد بھارت کو دنیا کی تیسری بڑی اکانومی کے طور پر پیش کرنا بہت اہم بات ہے۔

سفارتی زبان میں یہ کہا گیا کہ بھارت کو ترقی کرنی ہے تو اس کو خطے میں امن و امان بھی قائم رکھناہوگا۔نئی دہلی میں دورے کے دوران بھارتی وفود کے سعودی حکام اور کاروباری شخصیات کے ساتھ جس طرح کے معاملات طے پائے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی عرب اپنی بیرونی سرمایہ کاری کا بیشتر حصہ ممکنہ طور پر بھارت میں لگائے گا۔بعض اطلاعات کے مطابق سعودی عرب بیرونی سرمایہ کاری کیلئے مختص کل500ارب ڈالر کی رقم میں سے 300ارب ڈالر کی خطیر سرمایہ کاری صرف بھارت میں کرے گا۔

اگر رقم اس سے آدھی یا ایک چوتھائی بھی ہو تو اندازہ لگایاجا سکتا ہے کہ مستقبل میں بھارت ،سعودیہ تجارتی تعلقات کی نوعیت کیا ہونے جا رہی ہے۔سعودی ولی عہد کے دورہ کے دوران بھارتی حکومت نے اس دیرینہ خواہش کا پھر اظہار کیا کہ انہیں مسلم ممالک کی تنظیم(او آئی سی)میں شرکت کا موقع دیا جائے۔

اس دورے کے فوری بعد ایک بھارتی وزیر نے ٹویٹ کیا کہ ہمارا مطالبہ تسلیم کر لیا گیا ہے اور وزیر خارجہ سشما سوراج ابو ظہبی میں اگلے ماہ ہونے والی او آئی سی کانفرنس میں اعزازی مہمان کے طور پر شرکت کریں گی۔

بھارتی حکومت کا ایک عرصہ سے مطالبہ ہے کیونکہ مسلم آبادی کا دسواں حصہ بھارتی شہریوں میں مشتمل ہے۔اس لئے اسے او آئی سی کی فل ممبر شپ ملنی چاہیے۔سو اب یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ اور چین کی طرح سعودی عرب کے بھی بھارت سے گہرے تجارتی تعلقات عالمی برادری کو اس امر پر مجبور کردیں کہ وہ خطے میں کسی قسم کا مسلح تصادم نہ ہونے دیں کیونکہ اب علاقائی امن فریقین سے کہیں زیادہ عالمی برادری کی ضرورت بن چکی ہے۔پلوامہ واقعہ میں مقامی نوجوان ملوث ہے جو بھارتی سکیورٹی فورسز کے مظالم سے اس قدر تنگ آ چکا تھا کہ فدائی حملہ کر کے 49اہلکاروں ہلاک اور کئی ایک کو زخمی کردیا۔بھارتی حکام کا ہمیشہ سے یہ وتیرہ رہاہے کہ کوئی بھی نا خوشگوار واقعہ رونما ہوجائے تو منہ اٹھا کر پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا شروع کردیا جاتاہے۔

پلوامہ واقعہ کے حوالے سے اب تو خود بھارت کے اندر سے یہ آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ کانگریس کے خلاف انتخابی جنگ میں مصروف وزیر اعظم نریندر مودی خودبھی اس واردات میں ملوث ہو سکتا ہے، تاکہ ووٹروں کا دھیان ہٹانے کیلئے سیاسی فائدہ اٹھایا جائے۔پاکستان کے خلاف بھارتی الزامات اس قدر بے وزن اور غیر حقیقی ہیں کہ دنیا میں کوئی نوٹس لینے کو تیار نہیں۔بھارت کو عام دنوں میں بھی پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کی بیماری ہے اور اگرالیکشن وغیرہ قریب آ جائیں تو پھر خود ایسے مواقع ڈھونڈے یا بنائے جاتے ہیں۔آج بھارتی میڈیا اور حکمرانوں نے اس قدر شور مچا رکھاہے کہ جیسے آسمان ٹوٹنے والا ہے۔جنگ ،جنگ کی رٹ لگانے کا واحد مقصد بھارتی عوام کی توجہ حقائق سے ہٹا کر ووٹ حاصل کرنا ہے۔اس تمام صورت حال کو پوری دنیا مانیٹر کر رہی ہے۔

اسی دوران بھات نے ایران چاہ بہار بندر گاہ بھی آپریشنل کردی ہے اور پہلی شپمنٹ افغانستان روانہ کردی ہے۔لڑائی کا واویلا محض انتخابات تک ہے۔اس کے بعد بھارت عالمی برادری کے دباؤ اور علاقے میں اپنے تجارتی مفادات کے تحفظ کے لئے بال�آخر مذاکرات کی میز پر آئے گا۔

علاقے میں اس وقت جو واقعات رونما ہو رہے ہیں انہیں چندماہ قبل امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے دورہ پاکستان،بھارت، افغانستان کے تناظر میں دیکھنا ہوگا۔اس وقت جو ماردھاڑ کی فضا نظر آ رہی ہے یہ سب مصنوعی ہے۔ہمارے خطے کے بارے میں بابا ئے سفارتکاری آغاشاہی مرحوم نے1998ء کے ایٹمی دھماکوں کے بعد پیش گوئی کی تھی کہ امریکہ علاقے میں ایٹمی جنگ نہیں ہونے دے گا۔ اگر اس کو ایسا کوئی خطرہ نظر آیا تو براہ راست مداخلت کرکے صورتحال کو کنٹرول کیا جائے گا۔

امریکہ کو آج چین سے تجارتی جنگ میں یقیناً سنجیدہ چیلنجز درپیش ہیں مگر فوجی طاقت اور عالمی اثرورسوخ کے حوالے سے اب بھی اسکا دور تک کوئی مقابلہ نہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ جنگ کسی کو بھی سوٹ نہیں کرتی۔معیشت کے میدانوں میں بڑے فیصلے کرنے والے جنگی محاذ پر بھی اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔برصغیر پاک وہند کو طویل عرصے کے بعد موقع ملاہے کہ امن کے ذریعے اپنے عوام کو خوشحال کیاجائے اسے بھلا کون ضائع کرے گا۔

قصہ مختصریہ کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی لڑائی کا کو ئی امکان نہیں۔محدود آپریشن،ایل او سی یا ورکنگ باؤنڈری پر جھڑ پیں وغیرہ پہلے بھی ہوتی رہی ہیں اور آئندہ بھی کچھ عرصے تک ہوتی رہیں گی،لیکن یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ یہ کہنا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ اس لئے نہیں ہو سکتی کہ دونوں ملک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں۔شاید زیادہ درست نہیں ۔کارگل واقعے میں دونوں ممالک کے درمیان لڑائی پھیلنے کے خدشات بہت بڑھ گئے تھے۔

معروف صحافی و تجزیہ کار نسیم زہرانے کارگل لڑائی سے متعلق گہری تحقیق کے بعد مرتب کردہ اپنی کتاب’’فرام کارگل ٹوکو‘‘ میں لکھا ہے کہ چین نے بھی پاکستان کی فوج کو واپس بلانے کے لئے کہہ دیاتھا۔انڈیا نے سپلائی لائن کاٹ کر بہت نقصان پہنچایا۔نسیم زہرہ لکھتی ہیں کہ اس صورتحال پر جنرل مشرف نے امریکی مداخلت کرانے کے لئے نواز شریف کو رابطہ کرنے کا کہا ،کارگل میں کیا ہوا کیا نہیں سے قطع نظر ایک مرتبہ تو بھر پور جنگ سر پر کھڑی نظر آئی تھی جو بالآخرامریکی مداخلت سے ٹل گئی۔اول تو اب ایسی صورتحال سرے سے موجودہی نہیں۔

اگر ہو بھی تو عالمی برادری کے کاروباری مفادات کے باعث روکنے والی قوتیں پہلے سے بھی کہیں زیادہ اور سرگرم ہیں۔سو جنگ کا کوئی امکان نہیں۔ اگر کسی کو جنگ ،جنگ کا شور مچا کر اپنے دیگر مقاصد پورے کرنے ہیں تو کوئی کیا کہہ سکتا ہے؟

مزید :

رائے -کالم -