پاک بھارت مسائل کا حل، جنگ یا مذاکرات

پاک بھارت مسائل کا حل، جنگ یا مذاکرات
پاک بھارت مسائل کا حل، جنگ یا مذاکرات

  

پلوامہ کے واقع کے بعد پاک بھارت تعلقات یکدم شاید انتہائی پست سطح پر چلے گئے ہیں۔ سفارتی سطح پر رمیش کمار کے ذریعے وزیراعظم نریندر مودی اور بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کے ساتھ رابطہ ہوا ہے۔ پی ٹی آئی کے پارلیمنٹیرین کی یہ ملاقات انتہائی اہم ہے

رمیش کمار بھارتی حکومت کی دعوت پر کھمب میلے میں شرکت کے لئے بھارت کے دو روزہ دورے پر تھے۔ انہوں نے اپنی اس پوزیشن کو استعمال کیا اور پاک بھارت تعلقات کو کسی انتہائی اور ناقابل واپسی پوزیشن تک جانے سے روکنے کی اپنے تئیں کاوش کی، بڑی مستحسن کاوش۔ ان ملاقاتوں کی تفصیلات تو دستیاب نہیں ہیں، لیکن رمیش کمار نے یہاں آکر جو بیان دیا ہے، وہ حوصلہ افزا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں (رمیش کمار) نے بھارتی وزیراعظم کو عمران خان کا پیغام پہنچایا اور یقین دلایا کہ اس حملے میں پاکستان قطعاً ملوث نہیں ہے۔

رمیش کمار کے بقول آئندہ دنوں میں مودی کی طرف سے مثبت جواب آئے گا۔ رمیش کمار کا پُراعتماد لب و لہجہ بھارتی رویے میں مثبت تبدیلی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔دیکھتے ہیں عملاً بھی ایسا ہوتا ہے کہ نہیں۔

نریندر مودی جو پلوامہ حملے کے فوراً بعد پاکستان پر نفرت کے تیر ہی نہیں گولے برسا رہے تھے۔ انہوں نے راجستھان میں اپنے خطاب کے دوران جو کچھ کہا وہ اس تبدیلی کا اشارہ ہے ،جس کا ذکر رمیش کمار نے اپنے بیان میں کیا تھا، انہوں نے کہا کہ وہ چاہیں گے کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان پاک بھارت امن سے متعلق اپنے لفظوں کا پاس رکھیں۔ اس طرح لگتا ہے کہ رمیش کمار کی ملاقات نے کچھ اور کیا ہو یا نہ ،لیکن ایک بات کلیئر ہے کہ حالات میں ابتری رک گئی ہے، لیکن حالات خطرناک ہیں۔

آج کل ہمارے میڈیا میں جنگ کی تیاری اور قیام امن کے لئے پاک بھارت مذاکرات کی باتیں ہو رہی ہیں، مختلف مکتبہ ہائے فکر کے حوالے سے بہت کچھ پڑھنے اور سننے کو مل رہا ہے۔جذباتیت بھی بہت زیادہ ہے، لیکن ایک بات پر زور دیا جا رہا ہے اور وہ ہے مذاکرات۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے پاک بھارت امن مذاکرات کی باتیں بلند آہنگ میں کی جا رہی ہیں۔مذاکرات کو ہی مسئلے کا حل بتایا جا رہا ہے، لیکن بھارتی رویئے مذاکرات نہیں، جنگی نظر آتے ہیں۔

مسئلہ کشمیر، مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان وجہ تنازع ہے۔ تقسیم ہند کے طے شدہ ایجنڈے کے مطابق کشمیر پاکستان کا حصہ ہے۔ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو پاکستان یا ہندوستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کرنے کا حق دیا گیا ہے۔ بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے کشمیری مسلمانوں کے اس حق کو تسلیم کیا اور اقوام عالم کو اس پر عمل کرنے کا وعدہ بھی کیا۔

کشمیری مسلمان 70سال سے اپنا حقِ خود ارادیت حاصل کرنے کے لئے ہندو افواج کے خلاف سینہ سپر ہیں۔ اقوام عالم نے بھی ان کے حقِ خود ارادیت کے لئے قراردادیں پاس کی ہیں۔

کشمیریوں کی تین نسلیں اپنے حق خود ارادیت کے لئے لڑ رہی ہیں، لیکن ہندوؤں کی ریشہ دوانیاں اور عسکریت انہیں دبائے بیٹھی ہے۔ ایسا ہی کچھ فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ یہودی کر رہے ہیں۔

ان کی بھی تین نسلیں آزادی کا سورج طلوع ہوتے دیکھنے کے لئے جدوجہد کر چکی ہیں۔ اقوام عالم ان کے حق آزادی کے لئے قراردادیں بھی پاس کر چکی ہیں، لیکن یہودی ان کے حقوق دینے پر آمادہ نظر نہیں آ رہے۔ مذاکرات کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔

بھارت کے ساتھ ایک فیصلہ کن جنگ بھی ضروری ہے،تاکہ مسئلہ کشمیر حل ہو سکے۔ ہندوستان نے، اس کی ہندو قیادت نے ، پاکستان کو ایک مسلم ریاست کے طور پر کبھی تسلیم نہیں کیا ہے۔ بھارتی حکمران، بھارتی اسٹیبلشمنٹ پاکستان کو کمزور کرنا اور ختم کرنا چاہتی ہے۔ فوجی جارحیت کے ذریعے ہی نہیں، آبی جارحیت کے ذریعے بھی، سازش اور دہشت گردی کے ذریعے بھی۔

ثقافتی یلغار کے ذریعے بھی۔ ہندو کے دل میں، دماغ میں، اس کے خمیر میں مسلم دشمنی رچی بسی ہوئی ہے۔ ہندوستان کی ہزاروں سالہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ یہاں اس خطے میں جو قوم بھی آئی، یہاں ضم ہو گئی۔

گم ہو گئی، یہاں جو بھی مذہب آیا، یہاں آکر اپنا وجود گم کر بیٹھا۔ ہندوؤں نے یہاں کسی کو اپنا آپ دکھانے اور برقرار رکھنے کی اجازت نہیں دی، لیکن یہ عرب ہی تھے جو یہاں تاجروں کے روپ میں آئے اور تہذیبی، تمدنی، ثقافتی طور پر ہی نہیں، بلکہ مذہبی طور پر بھی غالب ہو گئے۔

مسلمانوں نے ہندو معاشرت اور تہذیب و تمدن کو متاثر کیا۔ اپنا سکہ جمایا۔ یہی بات ہندو ہضم نہیں کر پایا۔ 1947ء میں جب تخلیقِ پاکستان ہوئی تو ہندوؤں نے اسے گاؤ ماتا کی تقسیم قرار دیا۔ پھر کشمیر میں فوجیں داخل کرکے مسئلہ کشمیر کھڑا کر دیا گیا۔

آج جو کشمیر، آزاد کشمیر کے نام سے ہمارے پاس ہے، یہ کسی مذاکرات کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ ہمارے مجاہدین کی جرات رندانہ کا نتیجہ ہے۔ اب بھی اگر مسئلہ کشمیر کو حل کرنا ہے تو مذاکرات کے ذریعے ہی حل ہو گا، لیکن اس سے پہلے جنگ ہو گی، اگر ہم فاتح ہوئے تو مذاکرات میں مسئلہ کشمیر حل ہو گا۔ ایسے ہی مذاکرات ہوں گے ،جیسے آج کل امریکہ طالبان کے درمیان ہو رہے ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -