پاکستان کے لئے متحد ہونے کا وقت
ہال نوجوانوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ پُرجوش نوجوان جو پاکستان کی پہچان ہیں، ان کے سامنے جب مَیں اظہارِ خیال کے لئے ڈائس پر آیا تو میرے ذہن میں بہت سی باتیں مچل رہی تھیں۔ رسمی آغاز کے بعد میرے ذہن میں ایک نکتہ کوندا، مَیں نے کہا نوجوانو! آج سے اپنا ایک نعرہ بنا لو۔۔۔ ’’پاکستان آگے بڑھ‘‘۔۔۔ چھوڑ دو اپنے ذاتی مفادات اور بنا لو اجتماعی مفاد کو اپنا راستہ، کیونکہ پاکستان آگے بڑھے گا تو ہم سب بھی آگے بڑھیں گے۔مَیں نے دیکھا کہ نوجوانوں نے اس نعرے کو فوراً ہی اپنا لیا۔ ہال میں کافی دیر تک یہ نعرہ لگتا رہا: ’’پاکستان، آگے بڑھ‘‘۔
تب مَیں نے سوچا کہ ان نوجوانوں میں پاکستان کے لئے درد موجود ہے۔یہ صرف ایسا نہیں چاہتے کہ خود خوشحال ہوں اور پاکستان بدحال رہے۔ان کے اندر تو ملک کے لئے تڑپ موجود ہے، پھر اس یوتھ کو ہم نے ٹکڑوں میں کیوں بانٹ رکھا ہے۔
یہ سیاسی جماعتیں ان کے ذریعے انقلاب کیوں برپا نہیں کرتیں۔اپنے اُس پرانے دقیانوسی راستے کو کیوں نہیں چھوڑتیں،جس نے پاکستان کو کچھ نہیں دیا،جس میں سوائے کرپشن کی کہانیوں کے اور کچھ بھی نہیں رکھا۔پاکستان ایک قدم آگے جاتا ہے تو دو قدم پیچھے دھکیل دیتے ہیں۔ یہ پسماندگی، غربت،ظلم و ستم، تمیز بندہ و آقا آخر مزید کب تک چلے گی۔۔۔ کیا اس شام کی سحر بھی ہوتی ہے یا نہیں؟
نیا پاکستان صرف کہنے سے تو نہیں بن سکتا، سب کچھ پرانا رکھ کر پاکستان کو نیا کیسے کہا جا سکتا ہے۔ یہ لولا لنگڑا احتساب پاکستان میں کیا تبدیلی لا سکتا ہے؟ بات دو چار لوگوں کو جیل میں ڈالنے سے نہیں بنے گی، اس کے لئے تو سوچ میں تبدیلی لانا ہو گی، لوگوں خصوصاً نوجوانوں میں یہ جذبہ اُبھارنا ہو گا کہ وہ پاکستان کو آگے لے جانے کی بات کریں،بات سنیں،وہ قوتیں جنہوں نے پاکستان کو تارعنکبوت کی طرح جکڑ رکھا ہے، جب تک شکست سے دو چار نہیں ہوتیں،اُس و قت تک پاکستان آگے نہیں بڑھ سکتا۔72سال کا عرصہ ہونے کو آیا ہے، پاکستان آج بھی کاسہ اُٹھائے پھر رہا ہے، ہم سے بعد میں آزاد ہونے والے ممالک ہمیں امداد دے رہے ہیں۔ہمارے اربوں کھربوں روپے بیرون ملک پڑے ہیں،مگر یہاں بھوک و ننگ کا راج ہے۔
کوئی یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ پاکستان کو اس حال تک اُس نے پہنچایا ہے، سب یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اس مملکتِ خداداد کے نجات دہندہ ہیں۔ تحریک انصاف نے پاکستان کو بدلنے کا نعرہ لگایا تھا۔ یہ نعرہ عملی جامہ کب پہنے گا،یہاں تو سب دیکھ رہے ہیں کہ کچھ بھی نہیں بدلا،حتیٰ کہ ہماری اشرافیہ اور ہمارے عوام کی سوچ تک نہیں بدلی۔
آج بھی انفرادی مفادات کی دوڑ میں ملک کے مفادات کو شکست ہو رہی ہے۔اگر وزیراعظم عمران خان سمجھتے ہیں کہ انہوں نے چند بڑے سیاست دانوں کو رعایت نہ دے کر پاکستان کو تبدیل کر دیا ہے، تو یہ بہت بڑی خوش فہمی ہے۔ نواز شریف کے جیل میں جانے اور آصف علی زرداری کے گرد گھیرا تنگ ہونے سے عام آدمی کو کیا ملا ہے۔
کیا پاکستان کے تبدیل ہونے کا صرف یہی ایک پیمانہ ہے۔ کیا ماضی میں نواز شریف کے خلاف کارروائیاں نہیں ہوتی رہیں،کیا نواز شریف نے آصف علی زرداری کو جیل میں نہیں رکھا، جیسے نام نہاد کھلی کچہریاں عوام کو کوئی ریلیف نہیں دے سکتیں، تاوقتیکہ عام عدالتوں اور دفاتر میں عوام کو معمول کے مطابق ریلیف ملے، اُسی طرح ایک دو سیاست دانوں کی پکڑ دھکڑ سے کچھ نہیں ہونے والا۔ابھی تک اس ساری کوشش کے باوجود ایک پیسہ بھی قومی خزانے میں واپس نہیں آیا، نہ ہی نیچے تک کوئی احتساب ہو رہا ہے۔وہی ظلم کا بازار گرم ہے اور وہی کرپشن عوام کے بدن پر موجود کپڑے تک نوچ رہی ہے۔
صاحبو! پاکستان ایسے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ یہ تو ترقیئ معکوس کی بدترین شکل ہے۔
پاکستان کب اور کیسے آگے بڑھے گا؟ یہ کوئی ایسا مشکل سوال نہیں،جس کا جواب نہ مل سکے، جس طرح دوسرے ممالک آگے بڑھے ہیں،پاکستان بھی صرف اُسی راستے پر چل کر آگے بڑھ سکتا ہے۔ جن ممالک نے ترقی کی ہے، وہاں دو باتیں بنیاد کی حیثیت رکھتی ہیں۔میرٹ اور عدل و انصاف، یہ دونوں باتیں پاکستان میں آج بھی مفقود ہیں۔
عدل پیسے کے ترازو میں تُلتا ہے اور میرٹ پر اقربا پروری اور سیاسی وابستگی کی تلوار لٹکی رہتی ہے۔عدل و انصاف کی موجودہ صورتِ حال کو دیکھ کر تو کہا جا سکتا ہے کہ شاید اگلے سو سال میں بھی ہمارے معاشرے میں عدل و انصاف قائم نہ ہو سکے۔ انصاف کے اس پیچیدہ نظام سے،جس میں قدم قدم پر پیسہ چاہئے ہو، ملک کی80فیصد غریب آبادی جس کے پاس دو وقت کی روٹی کھانے کے وسائل بھی بہت مشکل سے اکٹھے ہوتے ہوں، انصاف کیسے حاصل کر سکتی ہے۔کون ہے جو اِس بارے میں سوچے، موجودہ حکومت کو اقتدار میں آئے چھ ماہ سے زائد ہو گئے ہیں، کیا اُس نے اِس بارے میں کوئی قانون سازی کی ہے۔
زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ ہوا ہے تو بتایا جائے۔یہ بیٹھے بٹھائے تو پاکستان نہیں بدلے گا۔کیا اِس پارلیمینٹ میں ایسی کوئی رمق نظر آتی ہے،جس سے تبدیلی کی امید پیدا ہو سکے،کیا چھ ماہ میں اِس پارلیمینٹ نے کوئی تعمیری کام کیا ہے۔ کروڑوں روپے اس کے اجلاسوں پر خرچ ہو چکے ہیں،سوائے دشنام طرازی،ہنگامہ آرائی اور بائیکاٹ کے اس میں کیا ہوا ہے۔
پاکستان آگے کیسے بڑھ سکتا ہے،جب ملک کا سب سے بڑا جمہوری ادارہ ہی جمود کا شکار ہے۔ حالت تو یہ ہے کہ ایسے حالات میں بھی جب بھارت جنگ کا ماحول پیدا کئے ہوئے ہے۔کل تو اُس نے اپنے طیاروں کے ذریعے پاکستان پر حملے کی کوشش بھی کی،پارلیمینٹ لایعنی بحثوں میں اُلجھی ہوئی ہے۔ سراج درانی کی گرفتاری ملک سے بھی بڑا مسئلہ بن گیا ہے، حالانکہ وہ سندھ اسمبلی کے اجلاس کی صدارت بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کیا یہ ضروری نہیں تھا کہ پارلیمینٹ سب کارروائیوں کو موخر کر کے پاکستان کی بات کرتی۔
بھارت کو اُس کی جنگی جارحیت پر منہ توڑ جواب دیتی۔ یہ گرفتاریاں، یہ نیب کی کارروائیاں،یہ سیاسی انتقام کی باتیں یہ حکومت کو گھر بھیجنے کے دعوے تو پھر بھی ہو سکتے ہیں،اِس وقت کا بیانیہ تو یہ نہیں ہونا چاہئے۔ اِس وقت تو صرف پاکستان کی بات ہونی چاہئے، بھارت کو دندان شکن جواب دینا چاہئے۔
کیا یہ افسوسناک امر نہیں کہ اتنے نازک موقع پر بھی پارلیمینٹ بائیکاٹ کے نعروں سے گونجتی ہے۔ایک دوسرے پر سنگین الزامات کا اکھاڑہ بنتی ہے۔کیا یہ سب کچھ اگلے وقتوں کے لئے نہیں چھوڑا جا سکتا۔ یہی وہ ترجیحات ہیں، جن کی وجہ سے یہ خیال راسخ ہو جاتا ہے کہ ہماری قیادت پاکستان کے بارے میں کم اور اپنے ذاتی مسائل کے بارے میں زیادہ سوچتی ہے۔
یہ تیسری جمہوری حکومت تسلسل سے قائم ہوئی ہے۔اس لحاظ سے جمہوریت تو مستحکم ہونی چاہئے تھی، معیشت میں بھی بہتری کے آثار پیدا ہونے چاہئے تھے، مگر آصف علی زرداری کے بعد نواز شریف برسر اقتدار آئے تو انہوں نے معیشت کی زبوں حالی کا رونا رویا، مسلم لیگ(ن) کی حکومت گئی تو عمران خان نے عنانِ اقتدار سنبھالی اور آتے ہی دہائی مچ گئی کہ خزانے میں تو کچھ بھی نہیں،بالکل خالی ہے۔ پھر ایسے اقدامات اُٹھائے، جنہوں نے عوام کا جینا مزید مشکل بنا دیا۔
سوال یہ ہے کہ جمہوریت کا تسلسل آخر معیشت کی بربادی کا باعث کیوں بنا ہے؟اس میں تو بہتری آنی چاہئے تھی، پاکستان کو آگے بڑھنا چاہئے تھا، پہلے تو یہ عذر پیش کیا جاتا تھا کہ ابھی جمہوریت پاؤں پاؤں چلنا سیکھتی ہے کہ کوئی آمر شب خون مارتاہے،اب تو جمہوریت پرکوئی شب خون نہیں مار رہا، پھرحالات پہلے سے بدتر کیوں ہو رہے ہیں۔
اپوزیشن یہ چاہتی ہے کہ حکومت بُری کارکردگی دکھائے،بُرے فیصلے کرے تاکہ اُسے ناکام کہا جا سکے،حالانکہ اپوزیشن کا کام تو یہ ہونا چاہئے کہ حکومت کو اچھی کارکردگی دکھانے پر مجبور کرے،کیونکہ حکومت کی کارکردگی اچھی ہو گی تو ملک بھی آگے بڑھے گا،مگر یہاں حکومت دشمنی میں ملک دشمنی پر اُتر آنا معمول کی بات ہے۔
کیا پاکستان اِسی طرح کو لہو کے بیل کی طرح ایک ہی دائرے میں گھومتا رہے گا۔کیا اُسے کبھی آگے بڑھنا نصیب نہیں ہو گا، جس طرح قرضے اور خسارہ ہماری جان نہیں چھوڑ رہا،کیا اُسی طرح یہ خود غرضانہ رویہ بھی ہماری جان نہیں چھوڑے گا،کیا ہم آگے بڑھ کر پاکستان کے خواب کو کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں دیکھیں گے۔ سوالات ہی سوالات ہیں،جواب کوئی نہیں۔