نگارخانوں کواپ گریڈ کرناوقت کی ضرورت
لاہور(فلم رپورٹر)پاکستانی فلمی صنعت کے عرو ج کے وقت نگارخانوں کے بغیرفلمسازی کوناممکن سمجھاجاتاتھااورفلمی سٹوڈیوزکی چاردیواری کو ایک الگ دنیا تصورکیا جاتا تھا۔ ملک بھرکے مختلف شہروں سے لاہور آنیوالے لوگ اپنے محبوب فنکاروں کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے شدیدگرمی اورسخت سردی کی پرواہ کئے بغیر کئی گھنٹے نگارخانوں کے گیٹ کے باہر گزار دیتے تھے۔اس زمانے میں لاہورمیں دس نگارخانے موجود تھے جن میں سینکڑوں کی تعدادمیں سالانہ فلمیں تخلیق کی جاتی تھیں۔ان میں شاہ نورسٹوڈیو،باری سٹوڈیو ، ایورنیو سٹوڈیو ،شباب سٹوڈیو،اے ایم سٹوڈیو،سکرین اینڈ ساؤنڈ سٹوڈیو،ڈبلیوزیڈاحمد سٹوڈیو اوردیگرشامل ہیں۔ جہاں گیتوں کی ریکارڈنگ سے لیکرشوٹنگ اورفلموں کے پرنٹ تک تیارکئے جاتے تھے۔زیادہ ترفلمیں نگار خانوں کے اندرہی بنائی جاتی تھیں ،زمانہ بدلنے کے ساتھ نگار خانوں کو اپ گریڈنہیں کیاگیا،تکنیکی آلات اور لیبارٹرز میں جدت نہ لائی گئی جسکے با عث فلمسازی کاعمل نگار خانوں سے نکل گیا۔ فلمی صنعت کی تنزلی کے بعد بہت سے ہنرمندٹی وی کی طرف چلے گئے تاہم جنہیں ٹی وی نے بھی قبول نہ کیاوہ آج بے روزگاری کی چکی میں پس رہے ہیں اورنگارخانوں کے آبادہونے کی امیدیں لیے باقاعدگی سے سٹوڈیوزجاتے ہیں تاہم نگارخانے دن بدن ختم ہورہے ہیں اوروہ برائے نام ہی رہ گئے ہیں اس وقت شاہ نور،باری ، ایورنیو اور شباب سٹوڈیو اپنا وجود تو رکھتے ہیں لیکن ایورنیو اور باری سٹوڈیو میں چھوٹے بجٹ کی پنجابی اورپشتوفلموں کے دفاترہیں جہاں کبھی کبھار شوٹنگ بھی ہوجاتی ہے لیکن نغمات کی ریکارڈنگزکاسلسلہ ایک عرصے سے ختم ہو چکا ہے۔شاہ نورسٹوڈیوکانام تقسیم ہندسے قبل شوری سٹوڈیو تھا جسے ہنگاموں کے دوران جلادیاگیا۔قیام پاکستان کے بعداسے سیدشوکت حسین رضوی نے کلیم پرالاٹ کرایا اوراسکی ازسرنوتعمیرکرکے اسکانام شاہ نور سٹوڈیو رکھا گیایہاں 55فلمی دفاتر،پانچ فلور،لیبارٹری ،دو ریکارڈنگ ہالزاورایک ڈبنگ ہال تھے۔شاہ نورمیں ایشیا کاسب سے بڑافلوربھی بنایا گیاتھا اس سٹوڈیومیں مولا جٹ ،ملنگی،آئینہ اور ظلم دابدلہ جیسی لاتعدادفلمیں بنائی گئیں لیکن آج اسکانقشہ تبدیل ہوچکاہے۔ سٹوڈیو میں رہائشی کالونی ،پرائیویٹ کالج اورمحکمہ کسٹمزکاگودام بن چکاہے سٹوڈیومیں صرف تین دفاترہیں وہ بھی غیرفلمی افرادنے کرائے پرحاصل کئے ہیں جبکہ صرف ایک فلورمیں ریکارڈنگ کی جاتی ہے جونجی ٹی وی نے کرائے پر حاصل کیاہے سٹوڈیوکے پاس صرف جدیدلائٹس اور کیمرے موجود ہیں جنہیں کرائے پردیاجاتاہے۔آغاجی اے گل نے 1956 میں ایورنیوسٹوڈیو قائم کیا جس میں 65دفاتر،چھ فلور،لیبارٹری ،دو ریکارڈنگ ہالز اور ایک ڈبنگ ہال تھا اس میں 60کے قریب دفاترفلمی اورغیرفلمی افرادنے کرائے پرلے رکھے ہیں ایک فلور میں سٹوربن چکاہے دونوں ریکارڈنگ ہالز بند ہوچکے جبکہ صرف ڈبنگ ہال باقی ہے۔ایورنیوسٹوڈیو میں کبھی کبھارکسی فلم کی شوٹنگ ،ٹی وی ڈرامے یاکمرشل کی ریکارڈنگ ہوتی ہے۔وہاں شہید ،فرنگی،شمع پروانہ ،یہ امن،بابل ،زرقااور عشق میراناں جیسی بے شمارفلمیں بنائی گئیں۔تقسیم کاراورفلمسازباری ملک نے باری سٹوڈیو 1962 میں قائم کیاجس میں 120فلمی دفاتر،دس فلور،لیبارٹری اوردوریکارڈنگ ہالزبنائے گئے ان میں 70کے قریب دفاترخالی پڑے ہیں یہاں صرف چندفلموں کے دفاترقائم ہیں دیگرکمرے لوگوں نے میوزیکل اکیڈمیوں اوررہائش کیلئے کرائے پرحاصل کررکھے ہیں۔ایک فلورمیں تھیٹر،ایک میں شادی ہال ،دو میں گودام اورایک فلور ٹی وی چینل نے کرائے پرلے رکھاہے۔لیبارٹری اوریکارڈنگ ہالزختم ہوچکے ہیں اوراسے فروخت کیاجارہاہے۔شباب سٹوڈیو کا صرف نام ہی باقی ہے لیکن اس کی تمام زمین فروخت ہوچکی ہے وہاں سید نورکی ملکی آرٹ اکیڈمی موجودہے۔