بھارت کا جارحانہ رویہ،جنرل قمر جاوید باجوہ بہت متحرک،جارحیت کا جواب دینے کی تیاریاں مکمل!
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پلوامہ واقعہ پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی دھمکیوں کے تناظر میں خاطے متحرک نظر آ رہے ہیں۔اگرچہ مقبوضہ کشمیر میں پلوامہ کے مقام پر ہونے والے خود کش حملہ آور کا تعلق وادی سے بتایا جاتا ہے اور اب تک سامنے آنے والے سارے شواہد ظاہر کر رہے ہیں کہ واقعہ میں استعمال ہونے والی گاڑی اور مواد بھی بھارتی ساخت کا ہے،لیکن مودی سرکار بھارت میں جاری الیکشن عمل میں سیاسی فائدہ اُٹھانے کی خاطر مقبوضہ کشمیر میں جاری آزادی کی شدید لہر کو پلوامہ واقعہ سے جوڑتے ہوئے تمام ملبہ پاکستان پر ڈالنے کے لئے کوشاں ہے،حتیٰ کہ وزیراعظم عمران خان نے مودی سرکار کے الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے بھارت کو کھلے دِل سے تفتیش میں تعاون کی بھی پیش کش کی ہے، لیکن بھارت کا جنگی جنون تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ وزیراعظم عمران خان نے بھارتی وزیراعظم مودی کو باور کرایا ہے کہ اگر پاکستان پر جنگ مسلط کی گئی تو بھرپور جوابی کارروائی کی جائے گی۔آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل آصف غفور نے بھی بھارت کو دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ بھارت کی کسی کارروائی کے نتیجے میں پاکستان حیران کن ردعمل دے گا۔ معاملہ صرف بیانات تک محدود نہیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ آپریشنل انتظامات کے حوالے سے سیالکوٹ ورکنگ باؤنڈری کے دورے سے لے کر مسلح افواج کے تمام شعبوں کی اعلیٰ کمان کے ساتھ اشتراک کار کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں پاکستان اس صورتِ حال کے تناظر میں سفارتی لحاظ سے مکمل فعال ہے۔ وزارت خارجہ موجودہ صورتِ حال سے سفارتی انداز میں نپٹنے کے لئے ایک کرائسز مینجمنٹ سیل بھی قائم کر دیا گیا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ اعلیٰ سفارتی رابطوں کے ذریعے دُنیا کو پاکستانی موقف سے آگاہ کر رہے ہیں۔ دارالحکومت میں ملنے والے بعض اشاروں سے لگ رہا ہے کہ بھارت کوئی مس ایڈوانچر کرنا چاہ رہا ہے،کیونکہ ایک طرف وزیراعظم عمران خان نے ایک بار پھر مودی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ امن کو ایک موقع دیں، جبکہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنا طے شدہ دورہ جاپان منسوخ کر دیا ہے۔ علاہ ازیں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پاکستان کے خطے میں اہم ترین دوست ملک چین کے وزیر خارجہ سے تفصیلی بات چیت کر کے انہیں ساری پیش رفت سے آگاہ کیا ہے، کیونکہ خدانخواستہ کسی ممکنہ بھارتی مہم جوئی کی شکل میں چین کے ون بیلٹ ون روڈ کا پائلٹ پراجیکٹ سی پیک بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے گا۔ دوسری طرف سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا پاکستان اور بھارت کا دورہ بہت سے ثمرات سے محروم ہو سکتا ہے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ پاک بھارت حالیہ تناؤ کے تناظر میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے کیس کی اہم ترین سماعت بھی عالمی عدالت انصاف ہیگ میں جاری رہی جس میں وکلاء کے دلائل سے لگتا ہے کہ بظاہر پاکستان کا پلہ بھاری رہا اور بھارت جاسوس کلبھوشن یادیو کے بارے میں پاکستانی وکیل کے سوالات کا تسلی بخش جواب نہیں دے پایا۔ تاہم عالمی عدالت انصاف نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی قسمت کا فیصلہ سنانے کی بجائے محفوظ کر لیا ہے۔ یہ قرین قیاس ہے کہ یہ فیصلہ پاکستان اور بھارت کی منشا سے کسی وقت سنایا جائے گا۔عالمی عدالت انصاف میں جاسوس کلبھوشن یادیو نے کیس کی سماعت میں اُٹھنے والے سوالات سے عالمی سطح پر یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ بھارت پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے بھی اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان صورت حال خطرناک ہے اور وہ جنوبی ایشیا میں کشیدگی میں کمی کے لئے کوشاں ہیں،کیونکہ افغانستان میں قیام امن کے لئے افغان طالبان اور امریکہ کے مابین15سال میں پہلی بار بامعنی اور سنجیدہ مذاکرات کا آغاز پاکستان کے تعاون سے ممکن ہوا ہے۔امریکہ نہیں چاہے گا کہ خطے میں کشیدگی کے باعث افغان امن عمل پٹڑی سے نیچے اُتر جائے۔ امریکہ اور افغان طالبان ے مابین مذاکرات کا نیا دور قطر میں شروع ہو گیا ہے۔ یکم مارچ سے دبئی میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا اہم ترین اجلاس ہو رہا ہے۔ اس اجلاس میں پہلی بار بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج او آئی سی کے پلیٹ فارم پر آئیں گی۔ بھارت مسلمان اقلیت کی اپنے ہاں بھاری تعداد کی بدولت او آئی سی کا ممبر بننے کا خواہاں ہے اور متحدہ عرب امارات نے بھارت کو اس اجلاس میں شرکت کی دعوت دی ہے۔اس موقع پر جہاں پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی عرب دُنیا سمیت اسلامی ممالک کو بھارت کے جارحانہ رویہ اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی جانب توجہ مبذول کرائیں گے وہاں اس اِمر کا بھی امکان ہے کہ او آئی سی کے حاشیہ پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا بھارتی ہم منصب سشما سوراج سے کوئی رابط ہو جائے۔ دوست عرب ممالک اس حوالے سے کوئی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔اب دیکھنا ہے کہ اس اہم موقع پر کوئی برف پگھلتی ہے کہ نہیں! وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سارک کے اس وقت کے سربراہ نیپال کے وزیر خارجہ سے ٹیلیفونک رابطہ کر کے انہیں جنوبی ایشیا میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے حوالے سے اعتماد میں لیا، جبکہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور انسانی حقوق کمیشن کے سربراہ کو تفصیلی خطہ لکھے گئے ہیں۔ پاکستان بھارت کے رویہ کے تناظر میں خارجہ سطح پر حالتِ جنگ میں نظر آ رہا ہے۔دوسری طرف ملک میں داخلی طور پر بھی سیاسی محاذ گرم سے گرم تر ہوتا جا رہا ہے۔اپوزیشن کے خلاف حکومت کے عمومی رویہ اور احتساب کی کارروائیوں کے باعث پارلیمینٹ قانون سازی کے حوالے سے مفلوج نظر آ رہی ہے،حتیٰ کہ منی بجٹ کا بل بھی تاحال منظور نہیں ہو سکا۔نیب کی جانب سے سپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کی اسلام آباد میں اچانک گرفتاری سے پاکستان پیپلز پارٹی کا شدید ردعمل سامنے آ رہا ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی سمیت اپوزیشن کے شدید ردعمل کے نتیجے میں وزیراعظم عمران خان کو قومی اسمبلی میں خطاب کو منسوخ کرنا پڑا۔ اپوزیشن کی ممکنہ ہنگامہ آرائی کے پیش نظر قومی اسمبلی کے اجلاس کے پہلے روز وزیراعظم عمران خان اجلاس میں شرکت کے بغیر ہی پارلیمینٹ سے چلے گئے۔ اگرچہ انہوں نے قومی اسمبلی کے اجلاس کے آغاز سے قبل ایک طویل پارلیمانی اجلاس سے خطاب کیا اور سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی جانب سے طویل کاوش کے باوجود اپوزیشن نہیں مانی،جبکہ دو روز کے وقفہ کے بعد سوموار کی شام بھی قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ہنگامہ خیز اجلاس ہوئے۔قومی اسمبلی میں سابق سپیکر فہمیدہ مرزا اور منور تالپور کے مابین خوب جھڑپ دیکھنے میں آئی تو سینیٹ میں بھی تندو تیزتقاریر سننے میں آئیں، بالخصوص سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کی جارحانہ تقریر نے خوب داد سمیٹی۔ سینیٹر رضا ربانی کے مطابق سپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کی گرفتاری کا طرزِ عمل درحقیقت پارلیمینٹ اور سپیکر کے عہدہ کی بے توقیری ہے۔ اپوزیشن تو اپوزیشن خود سپیکرقومی اسمبلی کا یہ کہنا لمحہ فکریہ ہے کہ ’’سیاسی افراتفری کا ماحول ہے۔ خواہش ہے کہ اسمبلیاں چلیں‘‘۔ ایسا لگتا ہے کہ جمہوریت اور پارلیمینٹ آسیب زدہ ہو گئی ہے۔ حکومت اپوزیشن کے ساتھ سیاسی محاذ آرائی کا کوئی موقع گنوانے کے لئے آمادہ نظر نہیں آتی،بالخصوص ایک ایسے مشکل دور میں جب ملکی معیشت گرداب میں گھری ہے۔وزیراعظم عمران خان نے ایک خصوصی تقریب میں ٹاپ ٹیکس دہندگان میں سرٹیفکیٹ تقسیم کئے،لیکن رواں سہ ماہی میں پچھلے سال کی نسبت بھی کم ٹیکس اکٹھا ہوا ہے۔وزیراعظم عمران خان کا زور ٹیکس اصلاحات کی بجائے پکڑ دھکڑ پر ہے،جس سے تاجروں اور صنعتکاروں میں خوف کی فضا کے سائے نظر آ رہے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کے مابین سیاسی تفریق تو ایک طرف خود حکومتی صفوں میں مختلف دھڑوں کی شکل میں ناانصافی نظر آ رہی ہے۔وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری وزیراعظم ہاؤس میں مقیم بعض شخصیات کی جانب سے شدید دباؤ کا شکار نظر آ رہے ہیں۔وزرا ایک دوسرے سے نالاں نظر آتے ہیں یا نجی محفلوں میں اپنے رفقا کار کی برائیاں کرتے نظر آ رہے ہیں۔ سیاسی افراتفری اور ابتری کے ماحول میں ایک اپوزیشن رہنما شہباز شریف کی نیب کیسوں میں ضمانت منظور ہوئی ہے تو دوسری طرف اسیر میاں نوازشریف کی خراب�ئ صحت کی نا پر ضمانت کے لئے دائر کی جانے والی درخواست مسترد ہو گئی ہے۔شریف خاندان کی آزمائش جاری ہے۔ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی ضمانت مسترد ہونے سے کسی ڈیل یا این آر او کے تاثر کی تو فی الحال نفی ہو گئی ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ حکومت داخلی اور خارجی سطح پر چیلنجز سے کس طرح عہدہ برآں ہوتی ہے۔