اصل حاکموں کی توجہ درکار ہے

مسائل وسائل کو کھا جاتے ہیں ، نتیجتاً پہلے پہل معیشت کی رفتار کم ہوتی ہے اور پھر سب کچھ سست روی کا شکار ہو جاتا ہے۔ پاکستان کی معیشت کے ساتھ ایسا ہی کچھ ہوا ہے ۔ لیکن اگر معیشت کے ساتھ ایسا کچھ ہو رہا تھاتو ابھی کیوں ہوا؟ گزشتہ پانچ برسوں میں کیا ہو رہا تھا کیونکہ اس سے پہلے کے پیپلز پارٹی کے پانچ برسوں میں اگر ملک میں بجلی کا بحران تھا تو سب کو نظر آتا تھا ، اگر انڈسٹری بجلی کی عدم دستیابی کی وجہ سے بند ہو رہی تھی تو سب کے علم میں تھا مگر اس بار تو معلوم ہی نہیں ہو پارہا کہ معیشت کے ساتھ مسئلہ کیا ہوا ہے؟
جس سیکٹر میں چلے جائیے ، جہاں جائیے مسائل ہیں ۔ ڈالر کے مقابلے میں روپیہ ڈی ویلیو کیا ہواکہ ہر طرف اس کے اثرات نمایاں ہونے لگے ۔ ایسے میں اخراجات میں کمی لائی جا رہی ہے ، باہر سے سرمایہ کاروں کو راغب کیا جا رہا ہے کہ آئیے پیسہ لگائیے ، خود کمائیے اور ہمیں کھلائیے لیکن وہ بھی اس طرح ابھی راغب نظر نہیں آتے ہیں جس طرح سے ہم نے توقعات باندھی ہوئی ہیں۔
حکومت کو چاہئے کہ معیشت کو بہتر بنانے کے مشورے عوام سے مانگے کیونکہ حکومت کے وزراء اور وزیر اعظم کے مشیران تو کوئی حل دینے سے قاصر رہے ہیں بلکہ اب تو وہ ایک بعد ایک کرکے مستعفی بھی ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ عوام میں سے کوئی ایسا شخص ہو جو معیشت کو بہتر بنانے کا کوئی حل دے سکے۔
حیرت یہ ہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کو صرف ڈیڑھ ارب ڈالر تحفے میں سعودی عرب سے ملے تھے اور انہوں نے نہ صرف ڈالر کی قیمت کو 108روپے سے کھینچ کر 98روپے پر لاکھڑ اکیا تھا بلکہ سی پیک کے تحت چین نے بھی پاکستان کے اندر بجلی کی کمی کو پورا کرنے کے لئے 36ارب ڈالر مختص کردیئے اور پھر نہ صرف بجلی کی کمی پوری ہوئی بلکہ ملک میں انفراسٹرکچر کا بھی جال بچھ گیا۔ لوگ عام کہتے تھے کہ نواز شریف اور آصف زرداری کا فرق یہ ہے کہ آصف زرداری صرف کھاتا ہے جبکہ نواز شریف اگر کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے اور عمران خان کے بارے میں اس کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے کہ وہ نہ کھاتا ہے اور نہ لگاتا ہے اور اس پر ستم یہ کہ عوام سے یہ بھی کہتا ہے کہ گھبرانا نہیں ، سب ٹھیک ہو جائے گا۔
جنرل مشرف کے دور میں پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہراول دستے کا کردار ادا کرنے کی حامی بھری تو پاکستان پر امریکی ڈالروں کی بارش کردی گئی اور اس زمانے میں ایزی منی کی اصطلاح عام ہو گئی تھی ۔ نواز شریف کے دور میں چین کے ساتھ سی پیک کا منصوبے نے حتمی شکل اختیار کرلی تو ملک میں انفراسٹرکچر کی بحالی کا کام شروع ہوگیا وگرنہ جنرل ضیاء الحق کے افغان جنگ میں شریک ہونے اور جنرل مشرف کے افغان جنگ سے نکلنے کے فیصلے دہشت گردی کو پاکستان میں کھینچ لائے تھے اور ترقیاتی فنڈز کا بڑا حصہ اس جنگ میں جھونک دیا گیا تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ ملک میں انفراسٹرکچر کلی طور پر ناکارہ ہو کر رہ گیا تھا ۔
یہ بات کھلے بندوں کی جاتی تھی کہ اگر پاکستان اپنی ضرورت کے مطابق بجلی پیدا کربھی لے تو کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اس بجلی کو عوام تک پہنچانے کے لئے جس ٹرانسمیشن سسٹم کی ضرورت ہے وہ انفراسٹرکچر ہی موجود نہیں ہے ۔ ہمارے ہاں ڈاکٹروں اور دیگر پروفیشن کے لوگوں نے دیہی علاقوں میں جانے سے کلی طور پر انکار کرنا شروع کردیا تھا کیونکہ ان دیہاتوں کو جانے والی سڑکیں ہی ناپید ہو گئی تھیں اور ایک سفر سے مسافر کا انجر پنجر ہل جاتا تھا۔ اس قسم کے تمام انفراسٹرکچر پر نون لیگ کی سابقہ حکومت میں بے حد کام ہوا اور ملک کے اندر انفراسٹرکچر کی کوئی شکل نکلی۔ تب بھی وزیر اعظم عمران خان تنقید کیا کرتے تھے کہ حکومت سارا پیسہ سڑکوں پر لگارہی ہے جس کا جواب ایک مرتبہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے یہ کہہ کر دیا تھا کہ اگر کسی پسماندہ علاقے میں سڑک نہیں جائے گی تو وہاں تک ترقیاتی کاموں کو کس طرح لے کر جایا جا سکے گا ؟
کیا وہاں تک کوئی پل بنایا جائے یا کسی جہاز میں ڈال کر ترقیاتی کاموں کے لے جایا جائے ؟ تاہم ہمارے پی ٹی آئی کے دوست اپنی تنقید سے باز نہ آئے اور سیف سٹی کے تحت کیمروں کی تنصیب کو بھی یہ کہہ کر تضحیک کا سامان ڈھونڈتی رہی کہ پورے شہر میں سیف سٹی کے ٹوئے ڈال دیئے گئے ہیں۔
تاہم آج جب بڑھ بڑھ کر باتیں کرنے والی پی ٹی آئی کی حکومت آگئی ہے تو ہر کوئی اس تبدیلی سے توبہ تائب ہوتا نظر آرہا ہے جس کا انتخابات کی گہما گہمی میں خواب دیکھا اور دکھایاجاتا تھا۔ آج ہر کسی کو اپنی اپنی پڑگئی ہے ، سیٹھ اپنا سرمایہ بچانے کے چکر میں ہے اور ورکر اپنی نوکری لیکن سیٹھ کا سرمایہ بچ رہا ہے نہ ورکر کی نوکری بچ رہی ہے ۔ ہمیں ہمارے اصل حاکموں کی توجہ درکار ہے!