اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 136
دیوار کے پتھروں میں صرف اتنی جگہ تھی کہ ایک انسان اس میں سے گزرسکتا تھا۔ اس دراڑ میں سے مشعل کی روشنی غار میں آرہی تھی۔ سیاہ فام عورت نے مجھے وہیں رکنے کو کہا اور خود اندر چلی گئی۔ میں دیوار کی اوٹ سے اسے تکنے لگا۔ یہ سیاہ فام عورت اگرچہ رگھودیو کے قبیلے سے تعلق نہیں رکھتی تھی مگر دیوی کے استھان کے پجاریوں کو اس نے کسی وجہ سے اپنے قبضے میں رکھا تھا۔ میں دیکھ رہا تھا کہ وہ مہاناگن کے بت کے پاس گئی۔ دیوی کے بت کے آگے جاکر ماتھا ٹیکا او روہاض کو دراوڑی بھتنے پہرہ دے رہے تھے، ان سے باتیں کرنے لگی۔ پھر وہ دونوں پہرے دار ایک طرف چلے گئے۔ سیاہ فام عورت چند لمحے وہیں دیوی کے بت کے آگے جھکی کھڑی رہی۔ پھر ادھر ادھر دیکھا اور لپک کر میری طرف آگئی۔
’’آجاؤ۔ کوئی بات مت کرنا۔‘‘
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 135 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میں اس کے پیچھے دیوی کے استھان میں داخل ہوگیا۔ یہاں عجیب قسم کی ناقابل برداشت بو پھیلی ہوئی تھی۔ میری رہنما سیاہ فام عورت تیز تیز چلتی دیوی کے بت کے پیچھے آگئی۔ یہاں ایک تنگ و تاریک راستہ نیچے جاتا تھا۔ آگے ایک کوٹھری تھی۔ جس کے دروازے پر تالا پڑا تھا۔ میں نے پتھر کی ضرب سے تالا توڑ دیا۔ کوٹھری میں چراغ جل رہا تھا۔ اس کی دھیمی روشنی میں مَیں نے سات برس کی لڑکی کو دیکھا کہ اسے رسی سے باندھا ہوا تھا۔ سیاہ فام عورت جاتے ہی اس سے لپٹ گئی اور اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی زبان میں کہا کہ وہ آواز نہ نکالے۔‘‘
ہم نے بچی کی رسی کھول دی اور اسے ساتھ لے کر کوٹھری سے نکل کر آگے کو دوڑ پڑے۔ یہ ایک تنگ راستہ تھا۔ لڑکی دوڑتے ہوئے کئی بار گرپڑی۔ سیاہ فام عورت ہمارے آگے آگے تھی۔ اس نے اپنی بچی کو اپنے کاندھے پر بٹھالیا۔ اس میں ایک حیرت انگیز طاقت آگئی تھی۔ یہ تنگ راستہ ختم ہونے میں ہی نہیں آتا تھا۔ آخر ہم ایک کھلی جگہ میں آگئے۔ سیاہ فام عورت نے وہاں رک کر کہا
’’یہاں سے بوڑھی دیوداسیوں کی سرنگ شروع ہوتی ہے مگر یہ عورتیں بڑھاپے اور بیماری کی وجہ سے نیم مردہ ہوچکی ہیں۔ وہ ہمیں کچھ نہیں کہیں گی۔‘‘
کھلی جگہ میں تھوڑی دور چلے ہوں گے کہ ہم ایک کشادہ سرنگ میں داخل ہوگئے۔ یہاں کہیں کہیں چراغ ٹمٹمارہے تھے۔ جن کی دھندلی روشنی میں مجھے دیوار کے ساتھ ہڈیوں کے ڈھانچے نظر آئے۔ کہیں کہیں سے کراہنے کی آوازیں بھی سنائی دیں۔ سیاہ فام عورت نے بتایا کہ یہ بوڑھی دیوداسیاں ہیں جنہیں مرنے کے لئے یہاں چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہاں اس قدر ناگوار بوتھی کہ سانس لینا دشوار ہورہا تھا۔ ہم جلدی جلدی اس سرنگ میں سے نکل گئے۔ آگے سرنگ بائیں طرف مڑ کر ڈھلان میں اتر گئی تھی۔ یہاں ایک جگہ درختوں کی سوکھی شاخوں کے ڈھیر نے سرنگ کے راستے کو بند کررکھا تھا۔
’’اس کے آگے وہ غار ہے جہاں نیلے زہریلے سانپ رہتے ہیں۔ ان سانپوں کو اس طرح سے پال کر یہاں چھوڑ دیا گیا ہے کہ یہ چربی کی بو کو نہیں پہچان سکتے۔ یہ ہمیں ڈس سکتے ہیں۔‘‘
یہ ایک خطرناک مرحلہ تھا۔ میرے ذہن میں ان سانپوں سے بچنے کے لئے ایک ترکیب آگئی۔ میں نے سوکھی شاخوں کو ٹوڑ کر ایک مشعل بنائی۔ اسے آگ لگا کر اپنے ہاتھ میں تھام لیا اور ہم راستہ بنا کر سانپوں کے غار میں داخل ہوگئے۔ شاخوں کا گٹھا جل رہا تھا۔ اس میں سے شعلے نکل رہے تھے۔ میں آگ کو چاروں طرف گھمارہا تھا۔ میں نے نیلے رنگ کے سانپوں کو بھاگ کر بلوں میں گھستے دیکھا۔ کئی سانپ آگ کی زد میں آکر جل گئے۔ اسی طرح راستے بناتے اور سانپوں کو مارتے ہم نے وہ خطرناک ترین موت کی سرنگ عبور کرلی۔
مجھے پانی بہنے کی آواز سنائی دی۔ سیاہ فام عورت نے بتایا کہ آگے ایک ندی ہے جو پہاڑے کے پیچھے گہرائی میں بہتی دریا کے دوسرے کنارے پر نکل جاتی ہے۔ یہی وہ ندی تھی جس کی آواز پہلی بار میں نے اپنی کال کوٹھری کے سیلابچے میں سنی تھی۔ عورت نے مجھے بتایا کہ ہم دریا کے نیچے سے گزر آئے ہیں۔ یہاں زمین پر کیچڑ ہی کیچڑ تھا اور دیواروں اور چھت میں سے پانی کے قطرے بارش کی موٹی موٹی بوندوں کی طرح ٹپک رہے تھے۔ بچی سہمی ہوئی ہونے کی وجہ سے کوئی آواز نہیں نکال رہی تھی۔ شاخوں کی مشعل کا شعلہ چھت سے ٹپکتے پانی کی وجہ سے بجھ چکا تھا۔
ہم اندھیرے میں ہی دلدلی سرنگ میں سے گزرتے ہوئے زمین کے نیچے ہی نیچے بہنے والی ایک ندی پر آگئے۔ اندھیرا ہونے کی وجہ سے اس کا پانی ہمیں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ میں نے ہاتھ لگا کر دیکھا۔ پانی کی رفتار تیز تھی۔ میں خدا کا نام لے کر کنارے کو تھام کر ندی میں اتر گیا۔ مجھے خدشہ تھا کہ کہیں پانی زیدہ گہرا نہ ہو۔ ندی کا پانی میری کمر تک پہنچ رہا تھا مگر پانی کے تیز بہاؤ کی وجہ سے وہاں کھڑا رہنا مشکل محسوس ہورہا تھا۔ میں نے سیاہ فام عورت کی سہمی ہوئی بچی کو اپنے کاندھے پر بٹھالیا اور سہارا دے کر اس کی ماں کو بھی ندی میں اتارلیا۔ ندی کا بہاؤ ہمیں لے کر چل پڑا۔ ہمارے سرندی کے اوپر بنی ہوئی پہاڑی کی چھت سے لگ رہے تھے۔ ہم نے اپنے سر جھکالئے تھے۔ بچیم یری گردن کے ساتھ لپٹی ہوئی تھی۔
اچانک ہمیں اپنے پیچھے شور سنائی دیا۔ سیاہ فام عورت نے گھبرا کر کہا
’’وہ لوگ آگئے ہیں۔‘‘
میں نے اس سے پوچھا کہ اس کے خیال کے مطابق ندی کتنی لمی ہوگی؟ سیاہ فام عورت اپنے پیچھے سے آنے والی آوازوں کی وجہ سے بہت پریشان ہوگئی تھی۔ اس نے کہا
’’وہ ۔۔۔ وہ میری بچی کو مار ڈالیں گے۔‘‘
میں نے اپنے بازوؤں کو چپوؤں کی طرح پانی میں چلانا شروع کردیا۔ اس سے میری رفتار کچھ تیز ہوگئی۔ سیاہ فام عورت نے بھی ایسا ہی کیا۔ ندی گھوم گئی۔ پھر پانی کا شور زیادہ ہوگیا۔ اس کے ساتھ ہی غار میں تازہ ہوا کا احساس ہوا۔ عورت بری طرح پانی میں ہاتھ چلا رہی تھی۔ میں نے اسے بتایا کہ آگے کوئی آبشار ہے۔ وہ احتیاط سے کام لے۔ ہمارے پیچھے آنے والی انسانی آوازیں کچھ مدہم ہورہی تھیں۔ اس کا مطلب تھا کہ ہمارا تعاقب کرنے والے پیچھے رہ گئے تھے۔ ندی کے پانی کا بہاؤ بے حد تیز ہوگیا تھا اور ہم اس میں طوفانی رفتار سے بہے جارہے تھے۔
پھر غار کے آگے ایک گول سوراخ میں سے رات کی دھندلی نیلی روشنی کا مینار دکھائی دیا۔ میں نے سیاہ فام عورت کو ہاتھ پکڑلیا اور اس سے کہا کہ آگے کوئی دریا ہے۔ خبردار رہنا۔ اس نے میرا ہاتھ مضبوطی سے پکڑلیا اور اپنی بچی کو بھی ایک ہاتھ سے تھام لیا۔ اب میں ان دونوں کی گرفت میں تھا اور پانی کی تیز لہروں میں گیلی لکڑی کی طرح تیزی سے بہا جارہا تھا۔
پوری رفتار سے ہم تینوں قلا بازی کھاتے ہوئے آبشار سے نیچے گر پڑے۔ آبشار کوئی بیس فٹ کی بلندی سے ایک جھیل نما ندی میں گرتی تھی۔ جھیل نما ندی میں گرتے ہی ہم ایک دوسرے سے علیحدہ ہوگئے۔
میں نے سیاہ فام عورت کو سنبھالا۔ اس نے چلا کر کہا۔ میری بچی کو پکڑو۔ میں نے دیکھا کہ بچی دو چار گز آگے غوطے کھارہی تھی۔ میں تیر کر اس کے پاس گیا اور اس کا منہ پانی سے باہر نکل لیا۔ بچی پر غشی کی حالت طاری تھی۔ ہم بڑی مشکل سے تیر کر اس جھیل نما ندی سے باہر نکل آئے۔ ہم نے بچی کو کنارے کی گھاس پر لٹادیا۔ سیاہ فام عورت بھی بے دم سی ہوکر اوندھے منہ گرپڑی۔ وہ لمبے لمبے سانس لے رہی تھی۔ پھر اس نے ہانپتی ہوئی آواز میں اپنی بچی کے بارے میں پوچھا۔ اس کی بچی زندہ تھی۔
ستاروں کی پھیکی دھندلی روشنی میں اوپر پہاڑی کی ڈحلان پر ایک جگہ سے ندی کا پانی آبشار کی طرح جھیل میں گرتا نظر آرہا تھا۔ مجھے خطرہ تھا کہ کہیں ہمارے دشمن آسیبی بھتنے ہمارا تعاقب کرتے یہاں بھی نہ آجائیں۔ بچی کی حالت سنبھل گئی تھی۔ سیاہ فام عورت اسے اپنے ساتھ لپٹا کر چومنے لگی۔ میں نے کہا
’’یہاں سے جتنی جلدی ممکن ہوسکے نکل چلو۔‘‘
باقی ساری رات ہم دشوار گزار گھنے پہاڑی جنگلوں میں سے گزرتے رہے۔ جب دن کی روشنی ہوئی تو ہم ایک پہاڑی عبور کرکے ایک پرفضا وادی میں پہنچ چکے تھے۔ سامنے نشیب میں مجھے کیلے کے درختوں کے جھنڈوں میں کتنے ہی جھونپڑے دکھائی دئیے۔ سیاہ فام عورت نے خوش ہوکر اپنی بچی کا منہ چوم لیا اور ان جھونپڑوں کی طرف اشارہ کرکے بولی۔
’’یہ ۔۔۔ یہ ہمارا قبیلہ ہے۔‘‘
سیاہ فام عورت اور اس کی بچی کے واپس پہنچنے پر اس قبیلے کے لوگوں نے بڑی خوشی منائی۔ دو دن میں نے وہاں آرام کیا۔ ان لوگوں سے مجھے صرف اتنی معلومات ہی حاصل ہوسکی کہ یہ بدھیل کھنڈ کا جنوبی علاقہ ہے اور یہاں چند نام کا ایک راٹھور راجہ حکمرانی کرتا ہے اور ہمارے پیچھے نربدا کا دریا واقع ہے۔ کچھ روز اس قبیلے میں رہنے کے بعد میں تازہ دم ہوچکا تھا۔ میں نے اب ان سے اجازت طلب کی۔ سیاہ فام عورت اور اس کی بچی ہاتھ باندھ کر میرے آگے جھک گئیں۔ میں نے بھی ان کا شکریہ ادا کیا اور اجازت لے کر دریائے نربدا کی طرف روانہ ہوگیا۔ میں ان پہاڑیوں کے مخالف سمت شمال مغرب کی طرف چل رہا جہاں منحوس رگھودیو کی حکمرانی تھی جو میرے خون کا پیاسا تھا۔ دریائے نربدا کے کنارے تک چھوڑنے، قبیلے کا ایک جنگلی آدمی میرے ساتھ آیا۔ یہاں ایک پرانی وضع کا گھاٹ تھا جہاں ایک کشتی جس میں بانس، نارل اور کیلے لدے ہوئے تھے۔ دریا کے دوسرے کنارے پر جانے کے لئے تیار تھی۔ میں نے اپنے محافظ کو رخصت کردیا اور کشتیم یں بیٹھ کر دریا پار کرکے دوسرے کنارے پر پہنچ گیا۔(جاری ہے)