مسلم لیگ(ق) کو بونس پوائنٹ مل گئے، کامل آغا سینیٹر!
پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے جاتی امرا جا کر مسلم لیگ(ن) کی نائب صدر مریم نواز سے ملاقات کے بعد میڈیا سے بھی بات کی،اس سے ایک روز قبل وہ لاہور پہنچے تو انہوں نے یہاں پارٹی رہنماؤں سے بات چیت کے بعد پریس کانفرنس بھی کی تھی،وہ اس بار ذرا تاخیر سے آئے۔ جاتی امرا میں ملاقات کے دوران بلاول بھٹو زرداری نے مریم نواز اور مسلم لیگ(ن) کا پیپلزپارٹی کے سینیٹ کے لئے امیدوار مخدوم یوسف رضا گیلانی کی حمایت پر شکریہ ادا کیا۔ بلاول، مریم ملاقات میں بنیادی طور پر تو سینیٹ انتخابات ہی زیر بحث تھے تاہم ساتھ ہی ساتھ حکومت مخالف تحریک پر بھی بات ہوئی، دونوں رہنما پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے لانگ مارچ اور سربراہی فیصلے پر متفق پائے گئے، اور ان کی طرف سے یہ بتایا گیا کہ جو بھی فیصلہ ہوا متفقہ اور حتمی ہو گا، موجودہ حکومت کو بہرحال جانا ہو گا،
بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز نے ڈسکہ انتخابات پر بھی بات کی وہ دونوں الیکشن کمیشن کے فیصلے پر خوش تھے اور یہ بھی طے ہوا کہ انتخاب نو بھی مل کر لڑا جائے گا۔ بلاول بھٹو زرداری آج کل اپنوں اور بیگانوں سے تعریف کرا رہے ہیں، خود ان کا کہنا ہے کہ ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کے نتائج مثبت برآمد ہوئے اور نتائج نے ثابت کر دیا کہ پیپلزپارٹی(بلاول) کا فیصلہ درست تھا کہ کسی بھی میدان کو خالی نہ چھوڑا جائے،اس بار انہوں نے ایک سوال کا دلچسپ جواب بھی دیا اور کہا کہ پی ڈی ایم کی توجہ اس وقت سینیٹ انتخابات کی طرف ہے اور عدم اعتماد کی تحریک تو اس کے بعد کا مسئلہ ہے۔اگرچہ سینیٹ کے انتخابات میں مخدوم یوسف رضا گیلانی کی کامیابی اس کا موثر جواب ہو گی۔ یہ فیصلہ اب 3مارچ کو ہو جائے گا۔
سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ان کے ساتھ تھے کہ یہ مہم خود بلاول عملی طور پر اور آصف علی زرداری غائبانہ چلا رہے ہیں، آصف علی زرداری نے سابق وزیراعظم محمد نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن سے فون پر بھی بات کی، وہ کراچی میں زیر علاج ہوتے ہوئے بھی مصروف ہیں، اور اب تک متعدد حضرات سے بات بھی کر چکے۔ یوسف رضا گیلانی کے حوالے سے ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ اور مخدوم احمد محمود خالہ زاد بھائی ہیں، تاہم سیاسی اعتبار سے ان دونوں کے درمیان کچھ کھچاؤ پایا جاتا ہے،تاہم اس الیکشن نے یہ ختم کرا دیا، بلاول کی یہ بھی بڑی کامیابی ہے کہ ان دونوں کے درمیان ایسی مفاہمت ہو گئی کہ مخدوم احمد محمود بھی مہم میں شامل ہو گئے۔
ان کی جہانگیر ترین سے براہِ راست رشتہ داری ہے اور ان کا رحیم یار خان کے حلقوں میں اپنا اثر ہے، اسی حوالے سے پیپلزپارٹی والے مطمئن بھی ہیں،ویسے یوسف رضا گیلانی اور ان کے صاحبزادگان بھی متحرک ہیں، خود یوسف رضا گیلانی نے محمد شہباز شریف سے ملاقات بھی کی اور حمایت حاصل کر لی، اب حمزہ شہباز کی درخواست ضمانت منظور اور مچلکے درست پائے گئے وہ بھی باہر ہوں گے اور اپنا حصہ ڈالیں گے۔یوں بھی اب وہ پنجاب کی حد تک مطمئن اور فارغ ہیں کہ ان کی جماعت کو یہاں سے اپنا پورا حصہ مل گیا اور تگ و دو، جوڑ توڑ کی ضرورت پیش نہیں آئی۔
اس حوالے سے ان کو سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی کا شکر گذار ہونا چاہئے کہ ان کی بھرپور کوشش اور اچھے دلائل سے ایک غیر مرئی مفاہمت ہو گئی،جس کے نتیجے میں پنجاب کی سطح پر اب مقابلہ نہیں ہو گا۔یوں اب ان کو ان کا حصہ مل گیا اور مسلم لیگ(ق) بونس پوائنٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی کہ ہمارے دوست کامل علی آغا مبارکباد کے مستحق ہیں کہ وہ دوسری بار سینیٹ کے رکن بنیں گے۔ 2018ء میں تو وہ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور سے مات کھا گئے تھے۔ ہارس ٹریڈنگ کا بار بار ذکر کیا جاتا تھا،لیکن یہاں بڑی دلچسپ ہارس ٹریڈنگ ہوئی کہ سب کے سب بلامقابلہ منتخب ہو گئے۔ٹیکنو کریٹک اور خواتین کی چار نشستیں تو پہلے ہی مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف میں مساوی تقسیم ہو چکیں،اب جنرل کا بھی فیصلہ ہو گیا، ذرا نم ہو تو مٹی بڑی زرخیز ہے کے مطابق چودھری پرویز الٰہی کامیاب رہے کہ پیپلز پارٹی نے بھی اپنا امیدوار واپس لے لیا۔
یوں یہ ثابت ہوا کہ بات ظرف کی ہے اگر چودھری پرویزالٰہی سپیکر کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرکے ”دشمنوں“ کے درمیان اتنی بڑی مفاہمت کرا سکتے ہیں تو باقی صوبوں اور وفاق میں یہ کیوں نہیں ہو سکتا،وہاں تو یہ خود تحریک انصاف کے ہاتھ میں ہے اور وہ چاہے تو سب کچھ ممکن ہے، پھر خرید و فروخت بھی اسی طرح رُک سکتی ہے۔ سندھ میں صورتِ حال واضح ہے، وہاں پیپلزپارٹی کو دِل کھلا رکھنا ہو گا اور جو نشستیں حزبِ اختلاف کے حصہ میں آتی ہیں،، ان پر بات کرنا ہو گی اور پھر وہاں بھی نسبت تناسب سے تقسیم ہو جانا چاہئے کہ خریداری اور دباؤ کا معاملہ نہ ہو،اسی طرح خیبرپختونخوا میں پی ڈی ایم ایسا کر سکتی ہے کہ تحریک انصاف اور اپوزیشن کی پوزیشن واضح ہے، اِس لئے یہاں فراخدلی کا مظاہرہ اپوزیشن کرے تو تحریک انصاف خوش ہو گی،لیکن یہ اِس لئے مشکل ہے کہ وفاق میں سمجھوتہ ناممکن ہے،وہاں مقابلہ سخت ہے، جبکہ بلوچستان میں پوزیشن قدرے الجھی ہوئی ہے،اِس لئے باپ کو ہوش مندی سے کام لینا ہو گا۔بہرحال جیتنے والوں کو مبارکباد کہ ہینگ پھٹکری کے بغیر چوکھا رنگ آ گیا، اب وہ ”لالچ“ کے بغیر ”خدمت“ کر سکیں گے۔
بات ہمیں کرنا تھی کہ سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کو ایک کلچر اور بھی تبدیل کرنا ہو گا وہ یہ کہ کسی صوبے کی یوں حق تلفی نہ کی جائے کہ کسی دوسرے صوبے سے امیدوار لا کر کامیاب کرایا جائے، ماضی قریب میں مصطفےٰ نواز کھوکھر، عبدالرحمن ملک اور اسد عمر اس کی مثال ہیں،اِس بار یوسف رضا گیلانی،پلوشہ رحمن ہیں، جبکہ ایک بڑی بات یہ ہے کہ خود کپتان نے اپنے ”بڑے کھلاڑی“ جو ان کے خیال میں مڈل آرڈر میں ”میچ ونر“ ہے، کی وکٹ بچانے کی مکمل تیاری کر لی ہے کہ اگر وہ آؤٹ ہو تو نو بال قرار دیا جائے۔یہ فیصل واوڈا ہیں جو وفاقی وزیر قومی اسمبلی کے حصے سے ہیں، مگر ان کی وکٹ اڑنے کا پورا خدشہ الیکشن کمیشن کے پاس زیر سماعت نااہلی کی درخواست سے ہے کہ جب قومی اسمبلی کے انتخابات کے لئے ان کے کاغذات نامزدگی منظور ہوئے تووہ اس وقت دہری شہریت (مبینہ) کے حامل تھے۔ اب اگر وہ سینیٹر منتخب ہو جائیں تو ان کی عزت بچ جائے گی، تاہم آئینی اور قانونی نکات ضرور پیدا ہوں گے کہ انہوں نے قومی اسمبلی کے لئے نامزدگی کی درخواست کے ساتھ بیان حلفی جمع کرایا تھا کہ وہ برطانوی شہریت چھوڑ چکے، اگر اس کے برعکس ثابت ہوتا ہے تو ان پر62-63 بھی لگ سکتی ہے۔ ایسی صورت میں وہ اس روز سے نااہل ہوں گے، جب قومی اسمبلی کے لئے کاغذات داخل کئے گئے، اللہ خیر کرے۔