جمہوریت میں فیصلے پارٹی کرتی ہے؟

جمہوریت میں فیصلے پارٹی کرتی ہے؟
جمہوریت میں فیصلے پارٹی کرتی ہے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


جمہوریت ایک طرز فکر و عمل کا نام ہے۔ پارلیمانی جمہوریت ہو یا صدارتی نظام حکومت، یا کوئی اور نظم حکمرانی اگر اس میں حق ِ حکمرانی عوام کے پا س ہو، جہاں فیصلے مل جل کر، باہم مشاورت اور عددی اکثریت کے ساتھ کئے جاتے ہوں اسے جمہوریت ہی کہتے ہیں۔ کسی بھی نظام حکومت یا نظم ریاست کا مقصد اپنے شہریوں کے جان و مال کا تحفظ، ضروریا ت کی فراہمی، امن و امان کا قیام اور عمومی خوشحالی کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہوتا ہے،ہم نہ صرف ماضی بعید کی تاریخ میں بلکہ دورحاضر میں بھی  بادشاہی نظام کے تحت چلنے والی کئی ریاستوں کے عوام کو مطمئن اور مسرور پاتے ہیں اور لوگ موروثی حکمرانوں کے لئے دیدہ و دِل و فرشِ راہ کئے نظر آتے ہیں کچھ عرصہ قبل عمان کے سلطان قابوس کا انتقال ہو اتو ہم نے ان کے اور ان کے عوام کے درمیان پائے جانے والے محبت کے تعلق کے متعلق پڑھا وہ ایک مطلق العنان حکمران تھے طویل عرصہ تک حکمران رہے انہوں نے عمان کو ایک فلاحی و ترقی کرتی ہوئی ریاست کی شکل دی عمانی عوام ان کے لئے کلمہ خیر ہی نہیں کلمہ حق و عشق کہتے ہوئے پائے گئے

یورپ میں بھی چند ایک ایسی موروثی ریاستیں پائی جاتی ہیں، جہاں جمہوریت نہیں ہے، لیکن وہاں کے عوام اپنے بادشاہ اور ملکہ کو اپنا ہی تصور کرتے ہیں اور مانتے بھی ہیں، لیکن انسان نے صدیوں کے تجربات کے بعد جو ایک نظام،  بہتر اور  متوازن نظام تحقیق کیا ہے وہ جمہوریت ہی ہے۔ دورِ حاضر میں اقوام کی اکثریت نے جمہوریت کو ہی ایک متوازن و مستحکم نظام حکمرانی قرار دیا ہے۔ ہم طویل بحث میں نہیں جاتے کہ جمہوریت کا کون سا   برانڈ  یا شیڈ بہتر ہے، بلکہ براہِ راست چیف جسٹس پاکستان کے اس بیان پر آتے ہیں، جس میں انہوں نے آبزرویشن دیتے ہوئے کہاکہ ”جمہوریت میں فیصلے پارٹی کرتی ہے“ انہوں نے بجا کہا درست کہا اور سچ کہا، لیکن یہ سچ سارا ہی سچ نہیں ہے نظری اعتبار سے تو یہ سچ ہو سکتا ہے کہ ”پارٹی کو فیصلے کرنے چاہئیں“ لیکن عملاً ایسا نہیں ہو تا ہے۔


یورپ، ایشیا، افریقہ، لاطینی امریکہ، امریکہ اور دیگر ممالک میں جمہوریت کے مختلف ورژن نافذ العمل ہیں۔ چین میں دُھرا نظام حکمرانی ہے چین میں کمیونسٹ پارٹی آف چائنا، جبکہ ہانگ کانگ میں مغربی طرزِ حکمرانی چل رہا ہے چین کا نظم معیشت بھی مخلوط ہے اس میں سرکاری شعبے کا غلبہ ہے پہلے نجی ملکیت کا تصور ہی نہیں تھا، لیکن اب بڑی بڑی کارپوریشنیں اور نجی ادارے پیداواری عمل کے ذریعے نفع اندوزی کر رہے ہیں، جیک ما کی علی با با اس کی بڑی مثال ہے اب چین میں کئی ارب پتی افراد بھی پائے جاتے ہیں ذاتی ملکیت بھی ہے، لیکن بحیثیت مجموعی ریاست ہی غالب ہے۔ کمیونسٹ پارٹی آف چائنا ہی فیصلہ سازی کر تی ہے، جس کا سربراہ چینی صدر ہے۔ روس ھنوز اشتراکی ہے، جہاں کمیونسٹ پارٹی کا غلبہ ہے بظاہر فیصلے پارٹی کے ہی چلتے ہیں لیکن روسی صدر ہی مقتدر اعلیٰ ہے۔ 
امریکہ میں دو پارٹیاں ہیں جو صدر کے لئے کسی فرد کو نامزد کر تی ہیں اس کا ایک طے شدہ طریق کار ہے، جس کے ذریعے  صدارتی امید وار نامزد ہوتا ہے، لیکن الیکشن کے بعد منتخب صدر ایک مطلق العنان لیڈر کے طورپر قوم کی رہنمائی کرتا ہے۔فیصلے پارٹی نہیں، بلکہ فرد کرتا ہے۔


بھارت میں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے، ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد کرنے والی کانگریس پارٹی طویل عرصہ تک بھارت میں حکمران رہی ہے، جس پر نہرو خاندان کا غلبہ رہا، آج بھی نہرو خاندان کانگریس پر غالب ہے اور بھارت کی سب سے بڑی اپوزیشن کی رہنمائی کر رہا ہے۔
 اب ہم بات کرتے ہیں پاکستان کی۔مسلم لیگ پاکستان کی خالق جماعت ہے اسی کے پرچم تلے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے جدوجہد آزادی کی اور بالآخر پاکستان تشکیل پذیر ہوا،لیکن مسلم لیگ نہ تو قیام پاکستان سے قبل اور نہ ہی بعد میں ایک منظم اور مربوط سیاسی پارٹی کی حیثیت اختیار کر سکی۔ مسلم لیگ قائداعظم کی شخصیت اور علامہ اقبالؒ کے تخیل کے باعث تشکیل پاکستان  کا کارنامہ سر انجام دے سکی اگر یہ دونوں شخصیات نہ ہوتیں تو شاید نہ پاکستان ہوتا اور نہ ہی مسلم لیگ کو جاننے پہچاننے والے ہوتے۔ اقبالؒ کی فکر اور جناح ؒکی قیادت نے ہی پاکستان کے قیام کو ممکن  کر دکھایا۔ اور پھر تخلیق پاکستان کے بعد بھی مسلم لیگ اقتدار کے کھیل میں طالع آزماؤں کے لئے  استعمال ہوتی رہی۔ پاکستان کی زیادہ تر سیاسی جماعتیں اور سیاستدانوں کی اکثریت مسلم لیگ کا ہی ورثہ ملیں گی۔ ایوب خان ہوں یا ضیا الحق اور جنرل مشرف سب نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے مسلم لیگیں ہی تشکیل دیں مسلم لیگ کونسل ہو یا کنونشن، مسلم لیگ جونیجو ہو یا چٹھہ،

مسلم لیگ نواز ہو یا ق سب کچھ مسلم لیگ ہی کا ورثہ کہلاتی ہیں اور یہ سب پارٹیاں شخصی اور خاندانی ہیں حد تو یہ ہے کہ تبدیلی کے نظریے پر قائم ہونے والی تحریک انصاف بھی عمران خان کی پارٹی ہے عمران خان کو اگر اس جماعت سے مائنس کر دیا جائے تو تحریک انصاف صفر ہو گی ن لیگ سے نواز شریف، پیپلز پارٹی سے زرداری، جے یو آئی ایف سے فضل الرحمان علیٰ ہذالقیاس کسی بھی پارٹی سے اس کے سربراہ کو مائنس کر دیا جائے تو جواب صفر ہو گا۔اس لئے ”مائنس“ کی کوششیں ہوتی رہتی ہیں صرف ایک پارٹی،چیف جسٹس کے بیان کے مطابق، پارٹی کہلانے کے معیار پر پوری اترتی ہے اور چیف جسٹس کا بیان اس پر فٹ بیٹھتا ہے اور وہ ہے جماعت اسلامی۔

مزید :

رائے -کالم -