یادِ رفتگان اور میرے احساسات!

یادِ رفتگان اور میرے احساسات!
یادِ رفتگان اور میرے احساسات!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


جب بھی کوئی یاد ستائے یا نسٹلجیا کا دورہ پڑے تو بے ساختہ تحریر میں بھی ذکر ہو جاتا ہے یا پھر زندگی کے مختلف ادوار اور پیشہ ئ  صحافت کے انسٹھ سالوں میں پیش آئے واقعات میں سے کوئی حوالہ دوں تو اکثر مہربان کہتے ہیں کہ میں اپنی یادداشتیں قلمبند کروں،حتیٰ کہ محترم مجیب الرحمن شامی نے بھی مجھے کہا کہ ایسا کرہی گذروں،لیکن نہ معلوم وجوہات کی بناء پر میں ابھی تک اس پر عمل نہ کر سکا کہ پورا سچ بولنا مشکل ہے اور پورا سچ نہ لکھوں تو پھر یہ انصاف نہیں ہو سکتا۔بہرحال اگر اللہ نے موقع دے دیا اور ترغیب ہوئی تو پھر شاید یہ کر ہی گزروں۔آج جو کچھ لکھنا چاہتا تھا اُسے ایک طرف کر دیا ہے کہ یہ تو روزمرہ کا کام ہے،میاں محمد شہباز شریف ہوں، آصف علی زرداری یا مولانا فضل الرحمن جیسے مہربان۔ یہ حضرات تو سیاسی عمل میں ہیں اور سیاسی موضوع پر تو لکھا ہی جاتا ہے،آج تو اس کی بجائے ایک سچ ہی لکھنے کو جی چاہتا ہے۔


گذشتہ روز دفتر میں کام کر رہا تھا تو  عامر بھٹی کی آواز نے چونکا دیا  سمجھ میں یہ آیا کہ عبدالرحمن صاحب کا انتقال ہو گیا،جو ”نئی بات“ والے ہیں۔یہ میرے کانوں کا قصور تھا کہ کہنے والے نے تو عطاء الرحمن کہا تھا، اسی روز اپنے ڈاکٹر مہدی حسن کی رہائش پر ان کے سوئم کی تقریب رکھی گئی تھی،میں بوجوہ ان کی نماز جنازہ میں شرکت نہ کر سکا تھا،اس لئے پختہ ارادہ تھا کہ اس میں شرکت لازم ہے،اپنے صاحبزادہ عاصم چودھری کی مصروفیات کے حوالے سے  اس کے ساتھ یہ طے کر کے آیا تھا کہ دفتر کا کام ختم کر کے جلد گھر آؤں گا اور اس عرصہ میں وہ بھی آ جائے گا۔سوئم کا ختم چونکہ بعد نمازِ عصر تھا اس لئے یقین تھا کہ ہم ایسے وقت پہنچ جائیں گے کہ دُعا میں شریک ہو جائیں،لیکن بھلا ہو پی ایس ایل کرکٹ کا کہ بس کا سفر معمول سے زیادہ وقت لے گیا کیونکہ فیروز پو روڈ پر معمول سے زیادہ ٹریفک سست،بلکہ سست ترین تھی۔یوں جب گھر پہنچے تو مغرب کی نماز کا وقت ہونے والا تھا،مرحوم مہدی حسن علامہ اقبال ٹاؤن سے سکھ چین ہاؤسنگ سکیم میں منتقل ہو گئے تھے،اس لئے ملتان روڈ کی طرف سے جانا تھا۔یہ بھی بھیڑ والا راستہ ہے اور سفر بھی زیادہ ہے، مجبوراً گھر پر ہی فاتحہ خوانی کر لی۔


اس عرصہ میں،میں ایک اور دُکھ سے دوچار ہوا کہ ٹی وی پر خبرنامے نے میری سٹی گم کر دی، معلوم ہوا کہ نئی بات کے گروپ ایڈیٹر عطاء الرحمن اللہ کو پیارے ہو گئے تھے اور ان کی نمازِ جنازہ اچھرہ میں ادا کرنے کے بعد تدفین بھی ہو گئی،سر پیٹ لیا کہ کسی جگہ بھی نہ جا سکا،اچھرہ تو یوں بھی دفتر سے قریب تر اور راستے میں تھا۔اگر بروقت اطلاع پر توجہ دی اور وضاحت کرا لی ہوتی تو اس جنت مکانی کی تدفین کے عمل میں شریک ہو جاتا، جس نے مجھ پر خاموشی سے ایک ایسا احسان کیا کہ نہ تو میں وہ کبھی بھول سکا اور نہ ہی کسی کو بتا سکا،حالانکہ پنجاب اسمبلی پریس گیلری میں کسی دوست کے یہ الفاظ بھی سن لئے”لو! دیکھ لو! بڑے پارسا بنتے ہیں“ان ریمارکس کی وجہ یہ تھی کہ وزیراعلیٰ کی طرف سے صوابدیدی فنڈ کی تقسیم کے سلسلے میں جو تفصیل آئی اس میں میرا نام بھی تھا اور وزیراعلیٰ کی طرف سے ایک لاکھ روپے کی ادائیگی کا ذکر تھا، میں اس وقت تو جواب نہ دے سکا اور نہ کبھی بعد میں ہی ذکر ہو سکا،لیکن آج جب محترم و مکرم عطاء الرحمن کی وفات کا ذکر آگیا ہے تو مجھے وضاحت کی ترغیب ہو گئی کہ یہ احسان مرحوم و مغفور عطاء الرحمن صاحب کا تھا۔


میری اہلیہ شگفتہ چودھری کا انتقال کینسر کے مرض کے باعث 22اپریل2009ء کو ہوا،اس وقت میں اور میرے بچے اس کی مرض سے لڑتے ہوئے تین سال سے زیادہ گذار چکے تھے، میں اپنی ہمت ہی کے مطابق علاج کراتا چلا جا رہا تھا اور اس میں رعایت کے لئے دوستوں کا بھی شکر گزار  رہا،گھر کی ہسپتال میں اہلیہ کے دو آپریشن ہوئے،مرحوم خالد گھرکی نے اس میں تعاون کیا اور ہسپتال کے قواعد کے مطابق ممکن رعایت دِلا دی۔میں محترم ڈاکٹر شبیر صاحب کا بھی شکرگزار رہتا ہوں جن کے زیر علاج ہوتے ہوئے یہ آپریشن ہوئے تھے اور پھر میں میو ہسپتال اونکالوجی شعبہ کے انچارج پروفیسر ڈاکٹر شہریار خان تو کبھی بھول بھی نہیں سکتا،جن کی توجہ کے باعث اس قابل ہوا کہ اس خطرناک اور موذی مرض کے علاج کے اخراجات کو برداشت کر سکوں۔ڈاکٹر شہربار صاحب نے ریٹائرمنٹ کے بعد رفاہی ہسپتال بنا لیا ہے۔اس میں کینسر کے مستحق مریضوں کا علاج اور دیکھ بھال بالکل مفت ہوتی ہے،عرض کر رہا تھا کہ اہلیہ کا علاج اپنی بساط کے مطابق ہی کر رہا تھا نوبت یہاں تک بھی آئی  کہ شاد باغ کا بڑا گھر بیچ کر مصطفےٰ ٹاؤن کے موجودہ چھوٹے گھر میں آنا پڑا کہ مرحومہ کا علاج ممکن ہو سکے۔اس دوران عطاء الرحمن روزنامہ ”پاکستان“ سے وابستہ تھے اور ان سے سلام دعا ہوتی تھی۔ یوں بھی وہ بہت نفیس اور ملاپ والی شخصیت تھے اس لئے حال احوال بھی پوچھ لیتے تھے۔ ایسے ہی ایک بار اہلیہ کی علالت کا ذکر آیا اور میں نے بتایا کہ علاج کے اخراجات کی وجہ سے مکان بھی بیچنا پڑا تو انہوں نے کمال ہمدردی سے کہا کہ حکومت سے مدد کیوں نہیں لیتے،میری عرض تھی کہ میرا ٹریڈ یونین کا کردار ہے اور یہ دھبہ محسوس کرتا ہوں،ان کا استدلال تھا کہ یہ حق ہے کہ حکومت بھی ہمارے ہی ٹیکسوں سے چلتی ہے۔بہرحال اصل حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے ازخود روزنامہ”پاکستان“ کی طرف سے چٹھی لکھوا کر بھجوائی اور پھر خود پیروی بھی کی،جس کی بدولت یہ ایک لاکھ روپے صوابدیدی فنڈ سے مل گئے اور یہ بھی علاج والے اخراجات میں شامل ہو گئے مجھے ان(عطاء الرحمن) کی وفات کے باعث یہ سب یاد آیا تو آج لکھ کر وضاحت بھی کر دی،توقع ہے کہ وہ معترض حضرات جنہوں نے میری پارسائی کا طعنہ دیا تھا،اب عطاء الرحمن صاحب کے لئے دُعا ضرور کریں گے۔


اب کیا عرض کروں کہ دِل کے تار ہی چھڑ گئے ہیں،حالیہ دِنوں میں اتنے عزیز اور اہم لوگ دنیا سے رخصت ہوئے کہ یوں محسوس ہوتا ہے یہ دنیا خالی ہو رہی ہے۔ڈاکٹر اجمل نیازی کے بعد قدرت اللہ چودھری گئے۔ پرویز ملک کا صدمہ ہوا تو سی آر شمسی، عبدالحمید چھاپرا، سلیم عاصمی، آئی اے رحمن، مسعود اشعر، ضیاء شاہد، عارف نظامی، ایم ضیاء الدین، تنویر  زیدی، جناب عبدالقادر حسن اور استادِ محترم سید اکمل علیمی بھی رخصت ہو گئے، اور پھر منو بھائی کو کیسے بھولوں کہ ان کی رفاقت بھی بہت میسر رہی۔ حال ہی میں رفیق ڈوگر کے چلے جانے کا صدمہ ہوا تو پھر ڈاکٹر مہدی حسن اور اب عطاء الرحمن بھی چلے گئے۔رفیق ڈوگر سے ایسا بے تکلفی کا رشتہ تھا کہ ہم  ملتے تو قہقہے بھی لگ جاتے تھے،جبکہ ڈاکٹر مہدی حسن سے تعلق تو اس وقت سے تھا،جب میں نے1963ء میں روزنامہ ”امروز“ سے صحافت شروع کی۔ یہ سب ایسی شخصیات ہیں کہ ان کو میں بھلا نہیں پاتا،جبکہ بچپن کے دوستوں صابر جاوید، محمد اشرف چاچا، محمد اشرف(اچھرہ والا) اشرف عرف اچھا اور دیگر لنگوٹیوں کی جدائی بھی برداشت کی ہے۔ اللہ ان سب کی مغفرت فرمائے اور مجھے صبر کی توفیق دے۔

مزید :

رائے -کالم -