رات آئی ہے بے ٹھکا نوں پر ۔۔۔ "ہنزہ کے رات دن"۔۔۔(قسط نمبر 3)

رات آئی ہے بے ٹھکا نوں پر ۔۔۔ "ہنزہ کے رات دن"۔۔۔(قسط نمبر 3)
رات آئی ہے بے ٹھکا نوں پر ۔۔۔

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تھا کو ٹ کے پاس آ نکھ کھلی تو باہر تیز بارش تھی۔ میں نے سمیع اور فرحان کو بتا یا کہ اب دریائے سندھ مستقل ہما رے ساتھ رہے گا۔ انہوں نے کھڑکیو ں کے شیشوں سے ناک چپکا کر تھا کو ٹ کا پل دیکھنے کی کو شش کی لیکن مو سلا دھار بارش اور رات کی گہری سیا ہی نے کچھ دیکھنے نہیں دیا۔ پل عبور کر کے بس دائیں ہا تھ مڑی اور دریا ئے سندھ کو دائیں ہاتھ رکھ کر اس کے مخالف دوڑنے لگی۔ سڑک کے ساتھ بارش کے تھپیڑوں سے جھو لتے پیڑوں کی قطاریں تھیں۔ میں بس کے اندر بائیں جا نب بیٹھا تھا۔ اس لیے مجھے دریا دکھا ئی نہیں دے رہا تھا۔ کچھ دور آ کر سڑک کنارے ٹرکو ں کی ایک قطار دکھا ئی دی۔ ہماری بس ان کے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔ یہ قطار کافی لمبی تھی۔ تھوڑا سا آ گے آ کر سڑک کی دوسری جانب بھی ٹر کوں کی ایسی ہی ایک اور قطار دکھائی دینے لگی جس کی وجہ سے سڑک مزید تنگ ہو گئی اور ان کے درمیان بس آہستہ ہو کر رینگنے لگی۔ 
”شاید کو ئی سٹاپ ہے۔“سمیع نے جیسے خود سے کہا۔
” پہلے تو یہاں کوئی سٹاپ نہیں تھا۔“ ندیم نے اس کی معلومات میں اضافہ کیا۔

"ہنزہ کے رات دن"۔۔۔قسط نمبر 2 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
ہماری بس دو رویہ لاتعداد ٹرکو ں کے بیچ یو ں سنبھل کر چل رہی تھی جیسے کو ئی شریف لڑ کی بازار کی بھیڑ میں مردوں سے بچ بچ کر چلتی ہے۔ چند قدم رینگ کر بس بیچ را ستے میں رک گئی کیو ں کہ سڑک کے وسط میں بھی کئی ٹرک بے ہو دگی سے پارک تھے۔انجن بند کر کے ڈرا ئی ور اورکنڈ کٹر باہر گئے اور ٹر کوں کے ہجوم میں گم ہو گئے۔ نیم بیدارمسا فر خا موشی سے ان کی واپسی کا انتظار کر نے لگے۔ تھوڑی دیر بعد وہ لوٹے تو ڈرا ئی ور نے گردن بس کے اندر کر کے اعلان کیا، ”آ گے سڑک بہ گیا ہے۔ رات ایدر ہی رکنا پڑے گا۔“
”اِ در آ گے ایک ہو ٹل ہے اس میں چائے مائے پیو۔“ کنڈکٹر نے نوید ِمسرت دی۔ گویا یہ کو ئی پکنک سپاٹ تھا ۔ سب نے سوالیہ نظرو ں سے ایک دو سرے کی طرف دیکھا، کچھ دبی دبی سی آوازیں ابھریں ” وہ سڑک پار والی دوسری بس کہاں ہے ؟“ لیکن اس سوال کا جواب نہیں ملا اور سب خاموشی سے تھکے تھکے قدموں کے ساتھ آ گے پیچھے بس سے اترنے لگے۔ میں بھی کندھے کا تھیلا سنبھال کر باہر آ گیا۔ بارش کی بو چھا ڑ چہرے اور ہاتھوں پر پڑی تو نیند کا فور ہو گئی۔ زمین پر جا بجا پا نی کے چھوٹے چھو ٹے تا لاب بنے ہو ئے تھے۔ٹیلی فون ٹارچ کی رو شنی میں بے تر تیب کھڑے ٹرکوں کی بھول بھلیو ں میں را ستہ کھو جتے ایک ٹرک ہو ٹل میں پہنچے جس کے بر امدے میں ایک سبز ٹیوب روشن تھی جس کی روشنی میں ہر چیز مصنو عی لگ رہی تھی۔ زمیں سے ذرا اونچے اور گندے برامدے میںپلا سٹک کی چند پرا نی میز کرسیاں او رلکڑی کے بنچ پڑے تھے۔ یہ ایک معمول سے زیادہ گندہ ٹرک ہوٹل تھا۔ برا مدے کے پیچھے دو تین کمرے تھے۔ جن میں بڑے بڑے تخت بچھے ہوئے تھے جن پر گندے بستر اور رضا ئیا ں پڑی نظر آرہی تھیں۔ کئی بستروں میں لوگ، غالبا ً ڈرائی ور، کنڈ کٹر وغیرہ، سوئے ہوئے تھے۔ مسافر بہت زیادہ تھے اور سب کے لیٹنے کے لیے الگ الگ چار پا ئیا ں میسر نہیں تھیں۔ میں پہلی خالی کر سی پر گر گیا۔ زمین پر کیچڑ پھیلا ہوا تھا۔ برامدے کے سڑک والے سرے پر ایک دو کریانے کی دکا نیں تھیں جن پر مسا فروں کی بھیڑ جمع تھی۔ ندیم اور سمیع کھا نے کے لیے بسکٹ، نمکو وغیرہ لے آئے لیکن ہر چیز دو نمبر اور بد ذائقہ تھی۔ ہم سب قریب قریب کر سیو ں اور بنچوں پر بیٹھ کر نمکو ٹھو نگنے لگے جس سے بے خوابی کے باعث ہو نے والا مو نھ کا کسیلا پن ذرا کم ہو گیا۔ اعظم نے چائے منگوا لی۔ فضا ءمیں ایک شور تھا جو بارش کے شور کے علا وہ تھا جیسے قریب ہی کو ئی طو فانی آ بشار گر رہا ہو۔ کچھ مسافروں نے تحقیق کے بعد بتا یا کہ ہو ٹل کے پیچھے ایک بے حد تند و تیز چشمہ سڑک کے آ ر پار بہ رہا ہے۔ سڑک اب لکڑ ہضم، پتھر ہضم مزاج شیر دریا کے پیٹ میں تھی۔ رات کا دوسرا پہر تھا۔ بارش میں کو ئی وقفہ بھی نہیں آ رہا تھا۔ ٹیوب لائٹوں کی روشنی میںبرامدے سے باہر بوندیں گرتی نظر آتی تھیں۔میں کرسی سے تھکتا تو بس میں آ کر سو نے کی کو شش کر تا لیکن بس کی کھڑ کیو ں اور چھت سے پا نی مسلسل اندر آ رہا تھا۔ نشستیں اس طرح پا نی میں تر تھیں کہ بو جھ پڑنے پر فوم کی سطح پر پانی ابھر آ تا تھا۔سیٹ پر بیٹھنے سے میری پنٹ پیچھے سے اس طرح گیلی اور بوجھل ہوگئی تھی جیسے کسی بچے کی بغیر پیمپر کی پنٹ سُو سُو نکلنے کے بعد ہوجاتی ہے۔ ذرا آ نکھ لگتی تو چھت سے ٹپکنے والی بو ندیں پتھرکی طرح سر پر لگتیں۔ میں دوبارہ بس سے نکل کر ہوٹل کے برا مدے میں ٹو ٹی ہوئی ٹانگ والی کر سی پر آ بیٹھتا اور جھپکی لینے کی کو شش کرتا۔ سب کے چہرے بے خوابی اور پریشانی سے سُتے ہو ئے تھے۔ وقت کھنچ کر لمبا ہو گیا تھا۔ منٹ گھنٹوں میں گز ر رہے تھے۔ یہ ایک طویل رات تھی۔ جس میں یہ مسافر کر سی اور بس کی گیلی نشست پر کئی بار سویا اور کئی بار جاگا۔ 
صبح کا مطلب یہ تھا کہ رات کی سیا ہی کم ہو کر گہرے سرمئی جھُٹ پٹے میں بدل گئی لیکن پھر بھی اس میں ایک امید تھی۔ میںملگجے اجالے میںغسل خانہ ڈھو نڈنے برامدے سے باہر نکلا۔ غسل خا نہ ہو ٹل کے پچھوا ڑے تھا لیکن اس کے او پر چھت تھی نہ اندر استعمال کے لیے پانی ،چناں چہ قوت ارادی سے کام لےتے ہوئے معاملات پھر پر ڈال دیے۔غسل خانے کی دیوار کے ساتھ ہی ایک بہت بڑا، بہت تیز اور گرجتا دھاڑتا چشمہ بہ رہا تھا۔ اسی نے ہمارا راستہ روک رکھا تھا۔ اس کی وسعت اور بہاو¿ ایسا مونھ زور تھا کہ کسی بھی انسان تو کیا ٹرک یا بس کو بہا کر دریا میں دھکیل سکتا تھا۔ ہو ٹل کے باورچی خا نے میں جا کر پرا ٹھے، فرا ئی انڈے اور چا ئے حا صل کر کے ناشتا کیا۔ مسافر زیا دہ تھے اور سامان کم تھا اس لیے تھو ڑی دیر بعد نا شتا کم پڑ گیا۔ ہم برامدے میں بیٹھے کبھی آ سمان کو کبھی ایک دوسرے کو دیکھتے تھے۔ ارد گرد اونچے سبز پہاڑ تھے، بارش میں بھیگتے درخت تھے اور اوپر بر ستے بادل ۔ سڑک کے پار دریا ئے سندھ تھا۔ میں نے دن کے اجالے میں اسے دیکھا تو آ نکھو ں پر یقین نہیں آ یا۔ اس علاقے میں با لعموم دریا بہت نیچا بہتا ہے اور رات کے سفر میں مسا فر اس کی گہرائی دیکھ کر ڈر جا تا ہے لیکن اس وقت اس کی لہریں سڑک پر آ رہی تھیں۔ بارش کم ہو نے کا نام نہیں لے رہی تھی اور نہ چشمے کی روانی مدھم پڑ رہی تھی۔۔۔ اور اس کے پار کو ئی بس بھی نہیں تھی جو مسافروں کو گلگت لے کر جا تی۔
”استاد آ گے جا نا تو مشکل ہے۔“ میں نے ڈرا ئی ور کے پاس بیٹھتے ہو ئے کہا۔
”ہاں ابھی تو مشکل لگتا ہے۔“ اس نے چائے کا سڑوکا ما ر تے ہو ئے لا پروائی سے کہا۔ 
”تم ہمیں واپس روال پنڈی کیو ں نہیں چھو ڑ دیتے؟“ میں نے ہچکچا تے ہو ئے تجویز دی۔ مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو چکا تھا۔ ابھی سفر بہت باقی تھا اور ان حا لات میں ہم کہیں بھی زیادہ بڑی مشکل میں پھنس سکتے تھے۔ 
”اگر سارا پیسنجر بو لے گا تو چھو ڑ دے گا۔‘ ‘ اس نے برا مدے سے باہر آسمان کو دیکھتے ہوئے جواب دیا۔ گویا اسے بھی اندازہ تھا کہ آگے جانا ممکن نہیں ہے۔ 
 میں نے فورا دوستوں کو اکٹھا کیا اور انہیں دوسرے مسافروں سے رابطہ مہم پرروا نہ کیا کہ وہ بھی آکر ڈرائی ور سے واپسی کے لیے ’بولیں‘۔تھو ڑی دیر میں اکثر مسا فر تیا ر ہو گئے، سوائے گلگت کے چند طلبا ءکے ،جو مو سم بہتر ہو نے تک وہیں رک کر انتظار کرنا چاہتے تھے۔ وہ واپس جا کر بھی کیا کرتے؟اور باقی مسافر یہاں کب تک رکتے؟دو تین ٹرک واپس تھا کو ٹ کی طرف مڑے تو ہماری بس کا رخ تبدیل کر نا ممکن ہو سکا۔ جیسے تیسے واپس چلے تو تھو ڑی دور آکر بس پھر رک گئی۔ تنگ سڑک پر ٹریفک بہت بری طرح جیم تھا۔لا تعداد ویگنیں، ٹرک اور ڈالے ایک دوسرے کے بمپرسے بمپر جو ڑے اور سینگ میں سینگ پھنسائے کھڑے تھے۔ ارد گرد سڑک کنارے جا بجا لکڑیو ں کے بے ترتیب ڈھیر لگے ہو ئے تھے، جن کی وجہ سے پیدل چلنے کی گنجائش بھی ختم ہو گئی تھی۔ صورت ِ حال کی گمبھیر تا کا اندازہ ہو نے پر ڈرائی ور نے بیچ سڑک میں بس کاانجن دو بارہ بند کر دیا اور مسا فر لا چاری کے ساتھ ایک بار پھر بس سے اترنے لگے۔ میں بھی سب کے ساتھ باہر آ گیا۔ بارش جاری تھی اور سڑک پر کیچڑ سے پھسلن تھی۔ دریا کنارے ایک جم ِ غفیر مو جود تھا۔ یہ سب مقا می لوگ تھے جو مو سلا دھار بارش کے باوجود دریا کے ٹھنڈے یخ پانی میں کمر کمر اتر کر، سیلاب میں بہ کر آ نے والی لا وارث لکڑی اور ٹِمبر جمع کر رہے تھے ۔ ان میں مرد، عورتیں، بچے، بو ڑھے اور جوان سب ہی شامل تھے۔ ان کے پاس لمبی لا ٹھیا ں تھیں جن کے سروں پر آ نکڑے اور کُنڈے لگے ہوئے تھے۔پھو لے ہوئے دریا کی گدلی اور مضطرب سطح پر اوپر پہاڑوں سے بہ کر آ تے بڑے بڑے درخت، شہ تیر، اور تباہ ہو نے والے مکانوں کی کھڑ کیا ں، دروازے اور تختے لہروں پر ڈو بتے ابھرتے بہ رہے تھے۔ ان میں سے جو کناروں کے قریب آ تا اسے یہ مقا می لوگ کنڈوں اور آ نکڑوں میں پھنسا کر پکڑنے کی کوشش کرتے۔ اس کام میں پورا پورا گھرا نا شامل تھا۔ سڑک کنارے لگے ہو ئے ڈھیر اسی مفتو حہ و مقبوضہ لکڑی کے تھے۔ ڈھیر بڑا ہو جاتا تو لوگ اسے اپنے ڈالے یا ویگن میں لاد کر روا نہ کر دیتے اور مزید لکڑیا ں جمع کرنے میں جُٹ جاتے۔
”پرسوں ادھر سے لکڑی پکڑتے ہو ئے ایک عورت پا نی میں بہ گیا تھا۔“ ایک مقامی بوڑھے نے مجھے بتا یا جو اپنے دو جوان بیٹوں کے ساتھ لکڑیاں پکڑ رہا تھا۔ 
”اتنی لکڑی کا کیا کر ے گا؟“ میں نے اس سے پو چھا۔ 
 ”جو چھو ٹا لکڑی ہے اسے گھر میں جلا ئے گا۔“ اس نے بیٹوں کی مدد سے ایک بڑا شہ تیر پہلے سے بھرے ہو ئے ڈا لے پر لدواتے ہو ئے بتا یا۔ ”بڑا لکڑی ٹھیکے دار کو بیچے گا اور پیسا بنائے گا، ٹھیکے دار سستا خرید کر آ گے مہنگا بیچے گا،وہ بھی پیسا بنائے گا۔“ 
اس کے بیٹے مزید لکڑیا ں شکار کر نے دو بارہ دریا کے گدلے پا نی میں اتر گئے۔ ایک طوفان دریا کے اندر برپا تھا ، دوسراغربت، ضرورت اورہوس کا طو فان ِ نوحؑ دریا ئے سندھ کے چھلکتے کناروں پر بر پا تھا۔ کسی کے چہرے پر تباہ ہو نے والے گھروں اور زمین کے سینے سے مٹ جا نے والی آبادیوں کے غم کا سا یہ تک نہیں تھا۔ ہر شخص دوسروں کی بر بادی اور تباہی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا نا، اور پیسا بنانا چاہتا تھا۔ 
 لیکن سوال یہ تھا کہ کیا ہم بارش میں بھیگنے اور یہ بہتی لکڑیا ں جمع اورپھر غا ئب کیے جانے کا منظر دیکھنے آ ئے تھے؟۔۔۔ لیکن راستہ ایک ایسی گرہ تھا جو آ سانی سے کھلنے والی نہیں تھی۔ اچانک مجھے بھیڑ میں ایک دو ٹریفک پو لیس کے اہل کار دکھا ئی دیے جو حسب ِ روایت سڑک کنارے لا تعلقی سے ایک طرف کھڑے اپنا سرکاری فرض ادا کر رہے تھے یعنی تماشا دیکھ رہے تھے۔ میں نے ایک سے جا کر راستہ کھلوانے کے لیے کہا تو وہ اِدھر اُدھر کی کہا نیا ں سنانے لگا۔ میں نے ذرا سختی سے کہا تو وہ ذرا متحرک ہوا، گا ڑیا ں آ گے پیچھے کر وائیں اور کچھ ہی دیر میں راستہ کھل گیا۔ بس ایک بار پھر وا پسی کے را ستے پر دوڑنے لگی۔دن کا پہلا پہر ختم ہو نے کو تھا۔  (جاری ہے)

"ہنزہ کے رات دن"۔۔۔قسط نمبر 4 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

(پبلشر: بک ہوم لاہور)