لگژری آئٹمز!
خواتین و حضرات پاکستان میں ہر سال جون کے مہینے میں قومی بجٹ کا اعلان ہوتا ہے۔ بھلے وقتوں میں صرف جون کا مہینہ ہی ایک ایسا مہینہ ہوتا تھا جب اشیاء خورد و نوش، صنعتی اشیاء، مختلف خدمات اور پرتعیش یعنی لگژری آئمٹز کی قیمتوں میں اضافہ ہوا کرتا تھا۔ بقیہ تمام سال سکون رہتا تھا۔ لوگوں کو تسلی ہوتی تھی کہ اشیاء و خدمات میں جس قدر اضافہ ہونا تھا ہوگیا، اب باقی سال قیمتوں میں اضافے کی تلوار سروں پر نہیں لٹکے گی۔اب حالات یہ ہیں کہ قیمتوں میں اضافہ ایک سال کی بجائے ہر ہفتہ بلکہ ہر روز کے حساب سے ہو رہا ہے۔ سالانہ بجٹ کی بجائے اب منی بجٹ بھی وقفے وقفے سے آرہے ہیں۔
گزشتہ دنوں وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرتے ہوئے ایک ہی دن میں عوام پر 170 ارب کے نئے ٹیکس کا بوجھ ڈال دیا۔ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں بھی اضافہ کردیا۔ حکومت نے جنرل سیلز ٹیکس 17 سے 18 فیصد بڑھا دیا جبکہ لگژری آئمٹز پر ٹیکس 17 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد کردیا۔ یہ لگژری آئمٹز یعنی پرتعیش اشیاء آخر کونسی ہوتی ہیں؟ ہمارے آج کے کالم کا موضوع یہی لگژری آئمٹز ہیں۔
ایک زمانہ تھا جب پرتعیش یعنی عیش والی، لگژری اشیاء میں کار، ایئر کنڈیشنر، میک اپ کا سامان، سگریٹ، موبائل فون، کھلونے، ہوائی جہاز کے ٹکٹ اور دیگر ایسا سامان جو کسی حد تک انسانی اشد ضرورت میں نہیں آتا تھا۔ عوام ان لگژری اشیاء کی قیمتوں میں بڑھ جانے سے زیادہ پریشان نہیں ہوتے تھے۔ یعنی سگریٹ اور الکوحل شراب وغیرہ پینا کوئی ضروری نہیں۔ یہ حرام اشیاء میں آتے ہیں اور فضول خرچی گردانے جاتے ہیں اسی طرح پتنگ بازی اور مہنگے خوشبو، عطر وغیرہ بھی فضول خرچی تصور ہوتے تھے۔
خواتین و حضرات آج کل مہنگائی نے جو حال کردیا ہے اور زندہ رہنے کے لیے جن اشیاء کی ضرورت ہوتی ہے ان کی قیمتیں اس قدر بڑھ گئی ہیں کہ محسوس ہوتا ہے گویا اب یہ بھی لگژری آئمٹز ہیں۔ اس حوالے سے اب آٹا بھی ایک لگژری آئٹم ہوگیا ہے کیونکہ اس کی قیمت اس قدر بڑھ گئی ہے اور اس تیزی سے بڑھتی چلی جارہی ہے کہ یہ بھی اب پرتعیش اشیاء میں شامل ہوگیا ہے۔ اسی طرح تین سو چالیس روپے کلو چاول خرید کر کھانا یقینا اب ایک بڑی عیاشی والی بات ہے۔
موٹر سائیکل میں دو سو اسی روپے لیٹر پیٹرول ڈلوا کر سڑک پر چلانا بھی اب کسی لگژری سے کم نہیں۔ ایک وقت تھا جب چھوٹا گوشت یعنی بکرے دنبے کا گوشت ہر گھر کی ضرورت تھا۔ لوگ گائے کے گوشت کا استعمال معیوب اور باعث ندامت تصور کرتے تھے۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ بچپن میں اگر کبھی کبابوں کے لیے بڑا قیمہ خریدنا ہوتا تھا تو گائے کے گوشت کی دکان میں داخل ہونے سے پہلے ادھر ادھر دیکھتے تھے کہ کوئی واقف کار تو نہیں دیکھ رہا۔ پھر ایک دم سے، دکان کے اندر داخل ہوجاتے۔ آج یہی بڑا گوشت ایک ہزار روپے کلو تک پہنچ گیا ہے۔ گویا اب یہ بھی ایک لگژری آئٹم ہے۔ بکرے کا گوشت دو ہزار روپے کلو خرید کر کھانا یقینا کسی لگژری سے کم نہیں ……
تغیر آگیا کیسا تدبر میں تخیل میں
ہنسی سمجھی گئی گلشن میں پھولوں کی جگر چاکی
وہ وقت دور نہیں جب زندہ رہنا بھی ازخود ایک لگژری کے زمرے میں آئے گا۔ زندہ وہی رہیں جو آٹا، دال، گھی، سبزی اور گوشت جیسی پرتعیش اور لگژری آئٹمز افوڈ کرسکیں گے۔باقی تمام آبادی دیمک زدہ ہوجائے گی۔ بقول نوجوان شاعر احمد عبداللہ……
یعنی جسے دیمک لگی جاتی تھی وہ میں تھا
اب آکے میرا میری طرف دھیان گیا ہے
ہمیں یہ گمان بھی گزرتا ہے کہ اگر کوئی شخص ضروریات زندگی کی اشیاء یعنی لگژری آئٹمز خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا ہوگا اور خودکشی پر مجبور ہوجائے گا (جیسا کہ آج کل ایسا ہو رہا ہے) تو زہر بھی ایک لگژری آئٹم بن جائے گا۔ گویا مرنا بھی مشکل ہوجائے گا۔ واضح ہو کہ حکومت نے بڑی قبروں پر بھی ٹیکس عائد کردیا ہے۔ آج کے اس دور میں استاد دامن کی یہ نظم کتنی درست ثابت ہورہی ہے:
اج زمین تے ٹیکس مکان تے ٹیکس
لگا تھڑے تے ٹیکس دکان تے ٹیکس
ایتھے ڈیوڑھی تے ٹیکس دلان تے ٹیکس
لگا ہویا اے ہر انسان تے ٹیکس
روٹی بھکیاں نوں کدے دین ناہیں
لا دیوندے نیں رج کھان تے ٹیکس
لگ گئی بھرمار اے ٹیکساں دی
آن والے مسافر مہمان تے ٹیکس
ایس واسطے دامن میں بولدا نئیں
کتھے لگ نہ جائے زبان تے ٹیکس
آج کے اس دور میں مختلف چیزوں کی تعریف اور مفہوم بدلتا جارہا ہے۔ پہلے پانچ سات ہزار روپے کمانے والا مستحق یعنی deserving کہلاتا تھا اور زکوٰۃ کا مستحق بھی تھا۔ اب تیس ہزار روپے ماہانہ کمانے والا، اگر کرائے کے مکان میں رہتا ہے اور اس کے دو تین بچے سکول میں پڑھتے ہیں تو وہ بھی اب مستحقین میں آتا ہے۔ کبھی جو اشیاء ضرورت کی تھیں اور جو خدمات جیسے بجلی، گیس اور پانی بنیادی ضرورت تھے…… اب ان کا استعمال کسی عیاشی سے کم نہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ زندہ رہنے کے لیے استعمال میں آنے والی خوراک اور کھانے پینے کی اشیاء کو لگژری آئمٹز قرار دے کر انہیں پرتعیش اشیاء کی فہرست میں ڈال دے، اور اپنے ٹیکس کا ہنٹر ان پر بھی برسانا شروع کر دے۔
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے۔ ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مرچلے، اک وقت تھا جب غریب دال روٹی پر گزارا کرلیتا تھا۔ اب دالوں کے ریٹ اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ دال بھی ایک لگژری آئٹم ہوگئی ہے اور روٹی کھانا بھی ایک عیاشی بن گئی ہے۔
کبھی اے سی چلانا لگژری تھا اب پنکھا چلانا بھی عیاشی ہے کہ بجلی کی قیمت اس قدر بڑھا دی گئی ہے کہ جو اب چھت کا پنکھا یا پیڈسٹل فین استعمال کریں گے گویا وہ فضول خرچ اور اصراف کریں گے۔پیاز کسی بھی سالن کی بنیادی ضرورت ہے۔ اب اس کا استعمال ایک رئیسانہ انداز ہوگا۔ کبھی پیاز ہوٹلوں میں سلاد کی جگہ مفت ملتا تھا، اب یہ ہمارے کھانوں اور سلادوں سے یوں اٹھ گیا ہے…… جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے۔
ایک وقت تھا جب لگژری آئٹمز غریبوں کی پہنچ سے دور تھیں اور اب ضروریات زندگی انسانی دسترس سے باہر ہیں ایک دور تھا جب ریڈیو ٹیلی ویژن پر یہ پیغام دیا جاتا تھا کہ ”تمام دوائیں بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں“۔ اب وہ بڑوں کی پہنچ سے بھی دور ہوگئی ہیں۔ سفید پوش غریب ہوگئے ہیں، غریب، فقیر ہوگئے ہیں …… ایک مرتبہ پھر احمد عبداللہ کا شعر معمولی سی ترمیم کے ساتھ پیش خدمت ہے……
اب تیری ”کن“ پہ ہے کچھ کر میرے مولا
ہر شخص تیرے در پہ پریشان کھڑا ہے