کیا کھویا، کیا پقیصر محمود وِرکایا؟

کیا کھویا، کیا پقیصر محمود وِرکایا؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان اللہ اور اس کے رسولﷺ کے نام پر برصغےر مےں معرض وجود مےں آےا، دُنےا مےں کوئی اےسا ملک نہےں،جس کی تخلےق کا اتنا عظےم مقصد ہو، لےکن بد قسمتی کی بات ہے کہ اس ملک کے رہنے والوں نے نہ صرف اس مقصد کو بھلا دےا، بلکہ اسے دھندلانے کی بھی کوشش کی گئی،کےونکہ اس خطے کے باسی اپنے ہی طور طرےقے سے زندہ رہنا چاہتے ہےں اور اپنے ہی بنا ئے ہوئے اصولوں کے مطابق اپنی زندگی گزارنا چاہتے ہےںجس کا جوجی چاہتا ہے وہ اس کو ٹھےک سمجھتا ہے اور دوسرے کے لئے وہی برائی تصور کرتا ہے۔اپنی زندگی کو اپنے بنا ئے ہوئے اصولوں کے مطابق گزارنے کے لئے اسلامی رواےات کے ساتھ ٹکرانے کوبھی تےار ہوجاتا ہے تاکہ اس کی ٹھا ٹھ کی زندگی گزرسکے۔آج اگر کوئی 90سالہ بزرگ سڑکوں پر نظر آئے تو اس کے ساتھ چند منٹ کی گفتگو ضرور کرےں تاکہ آپ کا ضمےر جاگے اور آپ کو ملامت کرے کہ کےا اُن کی جوانےاں، اُن کے آباﺅ اجداد کی قربانےاں رائےگاں نہےں چلی گئیں؟آج دُنےا مےں پاکستانی قوم کو قوم نہےں سمجھاجاتا،بلکہ اےک ہجوم قرار دےا جاتا ہے۔یہاں لوگوں کا قومی تشخص بری طرح مسخ ہوچکا ہے کوئی اپنا رَتی برابر کردار بھی ادا کرنے کو تےار نہےں تاکہ آنے والی نسلےں اپنی شناخت برقرار رکھےں۔ (دوسری طرف اپنے دنےاوی مقاصد کے حصول کے لئے اس ہجوم کے افراد اپنی جان کی قربانی دےتے ہےں اُن کو کوئی سروکارنہےں ہوتا کہ اُن کے اس فعل سے کتنے گھروں مےں ماتم ہوگا۔) ےقےن جانےں اگر یہی افراد اس مقصد کو زندہ رکھنے کی خاطر جس کے لئے یہ ملک تخلےق ہوا قربانی دےں تو یہ ملک آج بھی دُنےا کی عظےم اسلامی مملکت بن سکتا ہے، لےکن کےا ہم سب اپنی سوچ کو اور اپنے بنائے ہوئے اصولوں کو دوسروں پر مسلط کرنا نہےں چاہتے، کےااس سوچ کے ساتھ قومی تشخص پےدا ہو سکتا ہے؟ ستم کی بات ہے کہ یہ ہجوم کئی طبقات مےں تقسےم ہوتا جارہا ہے کچھ لوگ اےسے بھی ہےں جن کے لئے نہ تو اسلامی اور نہ ہی قو می رواےات اہمےت رکھتے ہےں۔ اُن کی زندگی کااگر بغور جائزہ لےا جائے تو وہ کسی طور بھی پاکستانی نہےں لگتے ، جبکہ دوسری طرف اےک اےسا گروہ ہے جو اپنے قانون خود بناتا ہے اور اُن کے اچھے اور بُرے ے ہونے کا خود ہی فےصلہ کرتا ہے جس کو چاہتے ہےں مسلمان کہتے ہےں جس کو چاہتے ہےں کافر کہتے ہےں ۔وہ ہر لحاظ سے اپنے آپ کو تمام انسانوں سے بہتر سمجھتے ہےںاُن کے نزدےک معاشرہ کوئی اہمےت نہےں رکھتا ،جبکہ اکثرےت اےسے لوگوں کی ہے جو دونوں گروپوں کے ساتھ نہےں چل سکتے البتہ دونوں اپنے اپنے مفادات کےلئے ان بےچاروں کو استعمال کرتے ہےں۔ ان سے قربانےاں لےتے ہےں اور ان کی اولادوں کو محکوم بناتے ہےں۔ یہ کیسا معاشرہ ہے جہاں روزانہ کی بنےاد پر تا رےخ بنتی اور تارےخ ختم ہوتی ہے۔ قومےں اپنی تارےخ سے پہچانی جاتی ہےں۔اگر ہم پچھلے دس سال کی تارےخ کو لےں تو اتنے اتنے بڑے واقعات اور سانحات رونما ہوئے ہےں کہ اگر کسی زندہ قوم مےں ہوتے تو شاےد اُن کی آنے والی کئی نسلےں ان واقعات کو سامنے رکھ کر اپنی زندگی کے طور طرےقے استوار کرتیں ،مگر یہاں معاملہ ہی اُلٹا ہے آج کا اےشوکل ختم ہوتا ہے چاہے وہ کتنا بڑااےشو ہو مثال کے طور پر انہی دس سال مےں خدا کی طرف سے اےک آفت آئی جس نے پور ی دُنےا کو ہلا کر رکھ دےا ،80ہزار جانےں چلی گئےں کئی شہر ملےا مےٹ ہو گئے ،لےکن افسوس آج ہم اُس ناگہانی آفت کو بھول چکے ہےں۔ہماری ےادداشت بہت کمزور ہے۔جب اےشوہمارے سامنے ہوتا ہے تو ہم اتنے جذباتی ہوتے ہےںکہ یہ تصور کرنا شروع کر دےتے ہےں کہ اس اےشو سے پوری تارےخ ہی بدل جائے گی جبکہ یہ سوچنے کی بھی زحمت نہےں کرتے کہ کےا یہ اےشو مفاد پرست لوگوں نے تو پےدا نہےں کےا ، کہےں ان کے خفےہ مقاصد تو نہےں ہےں۔ جےسے ہی بعض وجوہات کی بنےاد پر یہ اےشو ماند پڑ تا ہے تو ہم اس کواےسے بھولتے ہےں کہ جےسے کبھی یہ رونما ہی نہےں ہوا۔ اسی طرح کچھ لےڈرروزانہ کی بنےاد پر شہرت حاصل کرتے ہےںاور پھر گمنامی کے اندھےروں مےں اتر جاتے ہےں ۔کچھ عرصہ پہلے اےک جماعت نے لاہور کی فضاءمےں اس ہجوم کو اکٹھا کےا تو لوگوں نے یہ سوچنا شروع کر دےا کہ اب تمام سسٹم کی بساط لپےٹ دی جائے گی اب تو کوئی دُنےا کی طاقت اس تبدےلی کو نہےں روک سکتی اور اِسی موسمی تبدےلی کو دےکھ کر ہزاروں موسمی پرندوں نے فضامےں اُڑنا شروع کر دےا،جس گھر کی چھت پر خوراک کا ذخےرہ زےادہ نظر آےاوہےںاپنا بسےرا کر لےا۔پھر جلد ہی ہماری ےادداشت اس کو بھی بھول گئی اور اسی مےں اےک اور تحرےک نے جنم لےا، جس کو دےکھ کر بلا شبہ یہ گمان ہوا کہ اب تو ہر حال مےں نئی تارےخ لکھی جائے گی اور آنے والے وقت میں شاید اس ہجوم کی بیداری کا دن تصور ہو، لیکن پھر وہی ہوا جو پچھلے60سال سے ہمارے ساتھ تاریخ مذاق کر رہی ہے۔ شاید ہم نے تاریخ نہ لکھنے کا فیصلہ کر لیا ہے، بلکہ اس کو ختم کرنے کاتہیہ کیا ہوا ہے۔ بحیثیت انسان جہاں یہ اُس کا فرض ہے کہ وہ روزانہ رات کو سونے سے پہلے اپنے اعمال کا احتساب کرے تاکہ اُس کو اس چیز کا احساس ہو کہ اُس نے24گھنٹے کیسے گزارے، کس کس کی دل آزاری کی، کس سے کتنا لوٹا کس کو کتنا دھوکا دیا، اسی طرح اگر ہم ان دس سال کو اپنے ذہن میں رکھ کر یہ سوچیں کہ ہم نے اس عشرے میں کتنے اتفاقیہ لیڈر ، ناگہانی، آفتیں، تحریکیں،بم دھماکہ، ڈرون حملے اور ایشو پیدا ہوتے دیکھے اور ہم نے ان سے کیا کھویا کیا پایا؟

مزید :

کالم -