قاضی حسین احمد کی ہمہ جہت شخصیت اور زندگی کے چند دل نواز اور تابناک پہلو(5)
منصورہ میں ہونے والے ان اجلاسوں میں پاکستان جماعت کی نمائندگی سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان میاں طفیل محمد، قاضی حسین احمدجو اس وقت جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل تھے اور نائب امیر جماعت اسلامی پروفیسر خورشید احمد صاحب فرماتے تھے، جبکہ مقبوضہ کشمیر جماعت کی نمائندگی ڈاکٹر ایوب ٹھوکر مرحوم اور ڈاکٹر غلام نبی فائی اور آزاد کشمیر جماعت کی نمائندگی کرنل محمد رشید عباسی مرحوم سابق امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر اور موجودہ امیر جماعت اسلامی عبدالرشید ترابی، جو اس وقت جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے سیکرٹری جنرل تھے اور راقم الحروف بحیثیت نائب امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر شریک ہوا کرتے تھے۔ جہاد کشمیر کے لئے منصوبہ بندی کے حوالے سے جماعت اسلامی پاکستان، جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر اور جماعت اسلامی آزادکشمیر کے قائدین کا مشترکہ اجلاس: جنوری 1990ءکا دوسرا ہفتہ تحریک آزادی کشمیر کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتاہے ۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکاہے کہ جماعت اسلامی کے قائدین کی پہلے دن سے یہ رائے تھی کہ مقبوضہ کشمیرکی آزادی اور حق خود ارادیت کی تحریک میں جماعت اسلامی کے موثر رول کے لئے ناگزیر ہے کہ اس سلسلے میں جماعت آزاد کشمیر ، جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر اور جماعت اسلامی پاکستان کوئی متفقہ لائحہ عمل اختیار کریں اور ان تینوں جماعتوں کے قائدین کے درمیان ملاقاتوں کا جوسلسلہ گزشتہ کئی سال سے جماعت اسلامی پاکستان کے مرکز منصورہ میں جاری تھا، اس کی روح یہی تھی، لیکن اس سلسلے میں مشکل یہ تھی کہ جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کی قیادت منصورہ میں ہونے والے اجلاسوں میں براہ راست شرکت نہیں کر سکتی تھی۔ چنانچہ ان اجلاسوں میں جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کی نمائندگی بالعموم بیرون ملک ڈاکٹر ایوب ٹھاکر مرحوم اور ڈاکٹر غلام نبی فائی کیا کرتے تھے ، لیکن اب تحریک جہاد کے باقاعدہ آغاز کے لئے ناگزیر تھا کہ ایک ایسے اجلاس کا انعقاد کیا جائے جس میں مقبوضہ کشمیر کی جماعت اسلامی کی قیادت براہ راست شریک ہو سکے ، چنانچہ اس کے لئے تینوں جماعتوں کی صف اول کی قیادت کا ایک تیسرے ملک میں مل بیٹھنے اور باہم مشاورت کرنے کا فیصلہ ہوا ۔ قاضی حسین احمد نے فیصلہ کیا کہ اس اجلاس میں ان کی نمائندگی نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان پروفیسر خورشید احمد کریں گے ۔ اس لئے کہ خود ان کا وجہ بتائے بغیر زیادہ عرصے تک ملک سے باہر رہنا طرح طرح کے شکوک و شبہات کو جنم دے سکتا ہے ۔ اس تاریخی اجلاس میں جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کی نمائندگی اس وقت کے امیر جماعت اسلامی جناب مولانا غلام نبی قاسمی مرحوم نے کی، جبکہ جماعت اسلامی آزاد کشمیر کی نمائندگی امیر جماعت عبدالرشید ترابی اور راقم الحروف نے کی ۔ اس طرح اس اجلاس میں بیرون ملک سے ممتاز کشمیر ی رہنما اور ورلڈ کشمیر موومنٹ کے صدر ڈاکٹر ایوب ٹھاکر مرحوم ،کشمیر امریکن کونسل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر غلام نبی فائی اور تحریک کشمیر کے صدر سید منور حسین مشہدی نے شرکت کی ۔ علاوہ ازیں اس موقع پر قائد تحریک حریت سید علی گیلانی بطور خاص مشاورت کے لئے تشریف لائے تھے ۔ یہ اجلاس ایک ہفتے تک جاری رہا جس میں تینوں جماعتوں کے قائدین نے تحریک جہاد کشمیر کے باقاعدہ آغاز کا فیصلہ کیا اور ساتھ ہی اس تحریک کے مختلف محاذوں کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی ۔ ان میں خصوصیت کے ساتھ عسکری محاذ ،سیاسی محاذ ، سفارتی محاذ ، میڈیا کا محاذ اور ریلیف کا محاذ قابل ذکر ہیں۔ اس اجلاس میں یہ بھی طے پایا کہ اس تحریک جہاد میں جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر ، جماعت اسلامی آزاد کشمیر اورجماعت اسلامی پاکستان اپنا اپنا رول کس طرح ادا کریں گی؟ اس اعتبار سے اس اجلاس کو تحریک جہاد کشمیر کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔
مرکزی جہاد کشمیر کمیٹی کا قیام: اس اجلاس کے فیصلوں کے مطابق عمل درآمد کے لئے قاضی حسین احمد کی سربراہی میں ایک مرکزی جہاد کشمیر کمیٹی تشکیل پائی ۔ اس کمیٹی میں قاضی حسین احمد کے علاوہ جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر پروفیسر خورشید احمد بھی شامل تھے، جبکہ جماعت اسلامی آزادکشمیر کی نمائندگی عبدالرشید ترابی امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر اور راقم الحروف کرتے تھے۔ مقبوضہ کشمیر جماعت کی نمائندگی جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے نمائندے غلام محمد صفی، جو اس اجلاس کے فیصلے کے مطابق مقبوضہ کشمیرسے آزاد کشمیر میں آگئے تھے اور حزب المجاہدین کے امیر محترم سید صلاح الدین کررہے تھے ، جبکہ جماعت کے بیرون ملک قائدین میں سے ڈاکٹر ایوب ٹھاکر مرحوم صدر ورلڈ کشمیر موومنٹ اور ڈاکٹر غلام نبی فائی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کشمیری امریکن کونسل بھی اس مرکزی جہاد کشمیر کمیٹی میں شامل تھے۔مجاہدین کی ضروریات کی فراہمی کا اہتمام : قاضی حسین احمد کی ہدایات کے مطابق جہاد کشمیر کے حوالے سے منصوبہ بندی اور پلاننگ کے سلسلے میں جماعت اسلامی پاکستان ، جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر اور جماعت اسلامی آزادکشمیر کے قائدین کا جو مشترکہ اجلاس ایک تیسرے ملک میں ہوا ، اس میں جہاد کشمیر کے لئے منصوبہ بندی اور پلاننگ کے سلسلے میں جو فیصلے کئے گئے، ان میں سب سے اہم فیصلہ عسکری محاذ پر جہاد شروع کرنے کے لئے حزب المجاہدین کے نام سے ایک باقاعدہ عسکری تنظیم کے قیام کا تھا۔ طے پایا کہ حزب المجاہدین کے زیر اہتمام کشمیری نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد برف پوش پہاڑوں کے اوپر سے کنٹرول لائن کی خونی لکیر عبور کر کے آزاد کشمیر آئے گی، جہاں ان کے قیام و طعام اور عسکری تربیت کا اہتمام کیا جائے گا، چنانچہ اس فیصلے کے مطابق مقبوضہ کشمیر سے حزب المجاہدین اور دوسری تنظیموں کے ہزاروں کی تعداد میں نوجوان برف پوش پہاڑوں کے اوپر سے کنٹرول لائن کی خونی لکیر کوعبور کرتے ہوئے آزاد کشمیر آگئے، جن کے قیام و طعام کے لئے لاکھوں روپے ماہانہ کی ضرورت تھی اور یہ بات کسی بھی طرح جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے امکان میں نہیں تھی کہ ان نوجوانوں کے قیام و طعام کا اپنے طور پر کوئی اہتمام کرتی، چنانچہ اس موقع پر قاضی حسین احمد کی طرف رجوع کیا گیا، جنہوں نے فوری طور پر اس مقصد کے لئے جہاد کشمیر فنڈ کے نام سے ایک مستقل فنڈ کے قیام کا اعلان کیا جس کے مطابق پاکستان بھر سے اس فنڈ میں لاکھوں بلکہ کروڑوں روپیہ چندہ کی مد میں جمع ہوا، چنانچہ اس رقم سے مقبوضہ کشمیر سے آنے والے نوجوانوں کے لئے باقاعدہ رہائشی کیمپ قائم کئے گئے، جن میں انہیں قیام و طعام کے ساتھ ساتھ ضرورت کی تمام سہولتیں حاصل تھیں۔(جاری ہے)
یہاں یہ بھی ملحوظ رہے کہ قاضی حسین احمد کی ہدایات کے مطابق یہ فیصلہ کیا گیا کہ مقبوضہ کشمیر سے تربیت کی غرض سے بیس کیمپ میں آنے والے ان نوجوانوں کے لئے قیام و طعام کی سہولتوں کی فراہمی کا دائرہ صرف حزب المجاہدین تک محدود نہیں رہے گا ،بلکہ حزب المجاہدین کی طرح دوسری تنظیموں سے وابستہ نوجوانوں کے لئے بھی قیام و طعام کی سہولتوں کا بھی یکساں طور پر اہتمام کیا جائے گا۔ مجاہدین کی عسکری تربیت کا اہتمام : مقبوضہ کشمیر سے آنے والے نوجوانوں کے قیام و طعام کے بعد دوسرا بڑا مسئلہ ان نوجوانوں کی عسکری تربیت کا تھا، جسے اپنے طور پر حل کرنا کسی بھی طرح جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے بس میں نہیں تھا، چنانچہ اس مقصد کے لئے دوبارہ قاضی حسین احمد کی طرف رجوع کیا گیا۔ قاضی حسین احمد چونکہ جہاد افغانستان کے حوالے سے اپنے تاریخی کردار کی وجہ سے افغان مجاہدین کی تمام تنظیموں حزب اسلامی (گلبدین حکمت یار)، جمعیت اسلامی (برہان الدین ربانی)، حزب اسلامی (یونس خالص) اور اتحاد اسلامی (عبدالرب رسول سیاف) میں یکساں طور پر اثر و رسوخ رکھتے تھے، جس کی وجہ سے انہوں نے ان قائدین کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ کشمیری مجاہدین کی تنظیموں کے زیر اہتمام کشمیری مسلمانوں کی عسکری تربیت کے معاملے میں تعاون کریں، چنانچہ قاضی حسین احمد کی کوششوں سے ان افغان مجاہدین تنظیموں کے زیر اہتمام کشمیری مجاہدین کی عسکری تربیت کا بہترین انتظام کیا گیا۔ کشمیری مجاہدین کی دینی اور اخلاقی تربیت کا اہتمام : قاضی حسین احمد اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتے تھے کہ بھارتی فوجوں کے مقابلے میں برتری کے لئے کشمیری مجاہدین کی عسکری تربیت کے ساتھ ساتھ ان کی دینی اور اخلاقی تربیت بھی انتہائی ضروری ہے، جس کے لئے انہوں نے جماعت اسلامی آزاد کشمیر اور حزب المجاہدین کے ذمہ داروں کو مجاہدین کی دینی اور اخلاقی تربیت کے سلسلے میں خصوصی ہدایات دیں، جس کے لئے ایک مستقل نظام وضع کیا گیا۔ مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی فوجوں کے مظالم سے متاثرہ خاندانوں خصوصاً بیوگان اور یتامیٰ کے لئے ریلیف کا اہتمام: جہاد کشمیر کا ایک انتہائی اہم محاذ ریلیف کا محاذ ہے ، اس لئے کہ مقبوضہ کشمیر میں ایسے خاندانوں کی تعداد لاکھوں میں ہے، جن کی کفالت کرنے والے یا تو شہید ہو چکے ہیں یابھارتی ٹارچر سیلوں اور عقوبت خانوں میں ڈھائے جانے والے مظالم کے نتیجے میں اپاہج اور ناکارہ ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ لاکھوں کی تعداد میں بیوگان اور یتیم بچے ہیں جن کی کفالت کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ اس لئے تحریک جہاد کشمیرکی منصوبہ بندی کے لئے یہ بات انتہائی ضروری تھی کہ اس محاذ پر بھی بھرپور توجہ دی جاتی، چنانچہ جماعت اسلامی پاکستان، جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر اور جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے اجلاس میں یہ بھی طے پایا تھا کہ اس محاذ پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔ اس مقصد کے لئے قاضی حسین احمد کی ہدایات کے مطابق ریلیف آرگنائزیشن فار کشمیری مسلمز کے نام سے ایک ریلیف آرگنائزیشن کا قیام عمل میں لایا گیا اور قاضی حسین احمد رحمہ اللہ کی طرف سے اس فنڈ میں عطیات دینے کی خصوصی اپیل کی گئی ۔ ان عطیات سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قابض فوجوں کے تشدد کا نشانہ بننے والے خاندانوں کے لئے ریلیف کی فراہمی کا بڑے پیمانے پر اہتمام کیا گیا۔ یہاں یہ ملحوظ رہے کہ قاضی حسین احمد کی ہدایات کے مطابق ملک کے اندر جماعت کے کارکنوں کے ساتھ ساتھ بیرون ملک قائم جماعت کے حلقوں کی طرف سے بھی جہاد کشمیر فنڈ اور کشمیر ریلیف فنڈ میں انتہائی فراخدلی سے عطیات دیئے گئے۔ پاکستان کی رائے عامہ کو ہموار کرنا: 5 جنوری کو تحریک آزادیءکشمیر کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے، اس لئے کہ یہی تاریخی دن ہے، جب 1949ءمیں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ریاست میں آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شمار ی کے انعقاد کی تاریخی قرارداد منظور کی تھی ، اس لئے 5 جنوری کو کشمیری یوم حق خودارادیت کے نام سے مناتے ہیں ، لہٰذا اس تاریخی دن کی مناسبت سے 5 جنوری 1990ءکو قاضی حسین احمد نے ایک تاریخی پریس کانفرنس میں یہ اعلان کیا کہ پاکستانی عوام آزاد ی اور حق خودارادیت کی جدوجہد میں اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ ہیں اور اس سلسلے میں جان ومال کی بھر پور تائید وحمایت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے۔ اس موقع پر قاضی حسین احمد نے اپنے اعلان میں یہ بات بھی کہی کہ اس سال 5 فروری کو کشمیری عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر منایا جائے گا ۔ اس وقت پنجاب کے وزیر اعلیٰ اسلامی جمہوری اتحاد کے اس وقت کے سربراہ میاں محمد نواز شریف تھے ، انہوں نے قاضی حسین احمد کی تائید وحمایت کرتے ہوئے اعلان کیا کہ پنجاب کی سطح پر 5 فروری کو سرکاری طور پر یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منایا جائے گا ....جبکہ اس وقت پاکستان کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو تھیں، چنانچہ حکومتِ پنجاب کے اعلان کے بعد انہیں بھی یہ اعلان کرنا پڑا کہ5 فروری کو پورے پاکستان میں کشمیری عوام کے ساتھ یوم یکجہتی کے طور پر منایا جائے گا ۔ اس کے بعد سے 5 فروری کو ہرسال کشمیری عوام کے ساتھ یوم یکجہتی کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ بلاشبہ اس میں اوّلیت اور کریڈٹ قاضی حسین احمد ہی کو جاتا ہے ۔(جاری ہے)