بابا جی کا وعدہ پورا ہوگیا
جب بھی شیخ الحدیث ولی کامل بابا جی مولانا محمد یوسف کی زیارت کے لئے حاضری دیتاتو بابا جی وعدہ لیتے کہ جنازے میں آﺅ گے تو پھر فرماتے میرا نام لے کر دعا کرنا کہ یا اللہ(یوسف کو معاف کردینا).... اگر کبھی حاضری میں تاخیر ہوتی تو برادر محترم عبیدالرحمٰن محسن سے فون کرواتے دونوں ہاتھ اور داڑھی چومتے رہتے اور فرماتے یہ شرک نہیں ہے۔ بسکٹ منہ میں ڈالتے۔ ایک مرتبہ دو سو روپے بھی عنایت فرمائے جو مَیں نے لفافے میں بند کرکے تاریخ وقت لکھ کر بطور تبرک رکھے ہوئے ہیں۔ ایک مرتبہ ظہر کی نماز پڑھانے کے لئے عبید الرحمن محسن مصلٰے پر کھڑے ہوگئے تو بابا جی نے ان کو حکماً پیچھے کردیا اور حکماً نماز پڑھانے کے لئے کہا، حالانکہ بندہ اس لائق نہیں تھا ،مگر بابا جی کی والہانہ عقیدت ومحبت تھی، بابا جی محی الدین لکھوی نے جو سی حرفی ( نیکیاں کمالے جنہاں نال جاوناں لکھی اور میرے برادر محترم مولانا محمد امین گہلنوی نے شائع کروائی تھی۔ مجھ سے سپیشل منگوائی اور سنانے کو کہا۔اس دوران زاروقطار روتے رہے اور یہ بھی دعا فرمایا کرتے تھے کہ میری موت کی وجہ سے کسی کو پریشانی نہ ہو ۔یہ بھی قبول ہوگئی۔
12 ربیع الاوّل 2014ءکی رات کو سخت بادل چھائے ہوئے تھے، لیکن دن کے وقت موسم خوشگوار ہوگیا۔ پھر پورے ملک میں تعطیل بھی تھی جس پر ہزاروں لوگ چلے آئے۔ وصیت کے مطابق ان کے صاحبزادے حافظ مولانا عبدالرحمٰن یوسف نے رقت آمیز انداز میں نماز جنازہ پڑھائی۔ دوسری مرتبہ شیخ الحدیث مولانا عبداللہ امجد چھتوی نے پڑھائی، ہزاروں علماءکرام، شیوخ، حفاظ کرام (طلبائ) اور دیگر نے شرکت کی ۔بابا جی نے94 سالہ زندگی بسر کی، وہ 1919ءمیں مشرقی پنجاب کے ضلع فیر وز پورکے گاﺅں چک سومیاں اعوان میں پیدا ہوئے ،والد محترم کا اسم گرامی کمال دین اور دادا فضل حق تھے۔ یہ نیک سیرت گھرانہ تھا۔ انہوں نے پاک باز اساتذہ مولانا عطاءاللہ لکھوی، مولانا نیک محمد ،مولانا محمد حسین ہزاروی، مولانا عبدالرشید بھوجیانوی اور دیگر سے تعلیم حاصل کی، تحقیقی مسائل سے بھی انہوں نے ہمیشہ شغف رکھا۔ 1944ءمیں فارغ التحصیل ہوئے۔1952ءمیں والد محترم کے نام پر جامعہ کمالیہ دارالحدیث کا اجراءکیا۔ شیخ الحدیث مولانا حافظ عبداللہ محدث روپڑی، شیخ الحدیث حافظ محمد گوندلوی نے سنگ بنیاد رکھا۔ یہ خواب کی تعبیر تھی، جس کی تکمیل ہوئی۔
بابا جی نے ساری زندگی عوام میں گھل مل کر گزاری، راجوال اور دیگر علاقوں میں کلمہ توحید بلند کیا لوگوں کو بدعات اور منکرات سے روکا،متعدد کتابیں بھی تصنیف کیں،جرائم اور خرافات،فلمی اشتہارات اور ایکٹرسوں کی تصاویر کی وجہ سے پوری زندگی اخبار گھرلے کر نہیں گئے۔ جمعیت اہلِ حدیث اوکاڑہ کے امیر بھی رہے ۔1953ءکی تحریکِ ختم نبوت کے دوران ساہیوال جیل میں قید رہے۔ وہاں درس قرآن بھی دیتے رہے۔ مہمان نوازی میں اپنی مثال آپ تھے، جس کے انتظامات گھر پر کرتے، مدرسےپر اخراجات نہ ڈالتے، ایک حیرت انگیز واقعہ مولانا کی شادی سگی خالہ کی بیٹی سے ہوئی، نکاح خواں ولی کامل شاہ عبدالرحمٰن نے جوہزاروں احادیث کے حافظ تھے، حق مہر میں سورة¿ نور باندھی کہ اپنی بیوی کو سورة¿ نور کا ترجمہ اور تفسیر پڑھانا، جس پر عمل کیا گیا ۔
معمولات میں روزانہ تقریباً تین پاروں کی تلاوت فرماتے، جمعہ کو باقاعدہ سورة¿ کہف پڑھتے سورة¿ نوح کی آخری آیت کریمہ (رب الغفرلی والوالدیّ) صبح صادق کے بعد طلوع آفتاب تک لازماً پڑھتے، متعدد مقامات پر مساجد بھی تعمیر کروائیں وہ سال ہا سال تدریس میں مشغول رہے، بیسیوں بار بخاری شریف پڑھائی، ان کے شاگردوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ خوبصورت لائبریری میں ہزاروں کتابیں موجود ہیں۔ جس کا افتتاح بھی خود انہوں نے کیا تھا مولانا مرحوم کے چار بیٹے، مولانا عبداللہ سلیم مرحوم، مولانا عبدالرحمٰن یوسف، فاضل مدینہ یونیورسٹی، پروفیسر عبیدالرحمن محسن جو اس وقت مدرسے کے ناظم ہیں۔ حافظ عبید اللہ احسن اور ماشاءاللہ چھ بیٹیاں تھیں، جواپنے اپنے گھروں میں آباد ہیں۔
بابا جی اکثر طلباءکی مالی امداد اور کتب خریدنے کے لئے بھی معاونت کرتے۔ عمدہ تقاریر پر انعامات سے بھی نوازتے۔ جامعہ کمالیہ اور ریاض الحدیث للبنات بابا جی کے لگائے ہوئے پودے ہیں، جن کی آبیاری میں مولانا عبدالرحمٰن یوسف، پروفیسرعبیدالرحمٰن محسن، حافظ عبید اللہ احسن، مولانا محمد رفیق زاہد فاضل ریاض یونیورسٹی، مولانا عنایت اللہ امین و دیگر اساتذہ کررہے ہیں۔ اللہ کریم بابا جی کی کاوشیں قبول فرمائیں۔مذکورہ دینی اداروں کو شاد آباد رکھے۔ راقم نے بھی جنازے میںشرکت کرکے ان کو دیا ہوا وعدہ پورا کردیا ہے اللہ کریم انہیں جنت میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے (آمین)
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے