زیرِ آب ڈرون اور امریکی صدر کا دورۂ بھارت!

زیرِ آب ڈرون اور امریکی صدر کا دورۂ بھارت!
زیرِ آب ڈرون اور امریکی صدر کا دورۂ بھارت!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کل کے کالم میں عرض کیا تھا کہ اس ڈرون ٹیکنالوجی کے بارے میں لکھوں گا جس پر مودی۔اوباما ملاقات مورخہ 26جولائی 2015ء میں ایک سیر حاصل بحث ہو گی۔جب آپ یہ سطور پڑھیں گے تو یہ بحث ہو چکی ہوگی!
جس طرح امریکہ کو بیسویں صدی کے اوائل میں دریافت ہونے والی طیارہ ٹیکنالوجی کا موجد سمجھا جاتا ہے، اسی طرح اکیسویں صدی کے اوائل میں اسے ڈرون ٹیکنالوجی کا بھی موجد سمجھا جائے گا۔1903ء میں رائٹ برادران نے پہلا ہوائی جہاز امریکہ میں اڑایا اور اس کے دس برس بعد یورپ کے بڑے بڑے ممالک بھی اس فضائی قوت سے آشنا ہو گئے اور انہوں نے اپنی اپنی افواج میں طیاروں کو انڈکٹ کرنا شروع کر دیا۔اگست 1914ء میں جب پہلی عالمی جنگ شروع ہوئی تو طیاروں کا رول ایک اہم رول تھا۔
اس عالمی جنگ میں پہلی بار ٹینکوں کو بھی متعارف کروایا گیا۔ ٹینک کا موجد برطانیہ تھا۔ چرچل برطانیہ کا وزیراعظم نہیں تھا لیکن بحریہ کا فرسٹ لارڈ تھا۔ اس نے سب سے پہلے ٹینک کو یہ نام دیا۔ ریل گاڑی ایجاد ہو چکی تھی۔ مال گاڑیوں پر ٹینکوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جایا جاتا تھا کہ بھاری مشینوں کی ٹرانسپورٹیشن کا یہی ایک واحد ذریعہ تھیں۔ ان مشینوں کو کیموفلاج کے لئے بڑے بڑے خاکی رنگ کے سوتی پردوں میں ملبوس کرکے مال گاڑیوں کی اوپن ائر ویگنوں میں ٹرانسپورٹ کیا جاتا تھا۔ لوگ پوچھتے تھے کہ یہ بڑی بڑی چوکور اور مستطیل شکلوں کی مشنیں کیا ہیں جو آج کل اکثر مال گاڑیوں پر دیکھی جا رہی ہیں۔ لیکن ریلوے حکام کو سختی سے منع کر دیا گیا تھا کہ ان مکتوم (پوشیدہ) مشینوں کے بارے میں لوگوں کو کچھ بھی نہیں بتایا جائے گا۔ جب پبلک کا اصرار اور تجسّس بڑھا تو چرچل سے رابطہ کیا گیا کہ پبلک کو کیا جواب دیا جائے کہ ان ویگنوں پر کیا لدا ہوا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ونسٹن چرچل نے ارتجالاً کہہ دیا تھا کہ لوگوں کو یہ بتایا جائے کہ یہ فوج کو فیلڈ ایکسرسائزوں میں پانی مہیا کرنے کے بڑے بڑے ’’واٹرٹینک‘‘ ہیں جن کو پوشیدہ کرکے اس لئے لے جایا جا رہا ہے کہ دشمن (جرمنی) کے جاسوس ان کی تصویریں اتار کر انہیں جرمن فوج میں متعارف نہ کروالیں!۔۔۔ تب سے واٹر ٹینک وہ ٹینک بن گیا جس نے پہلی عالمی جنگ میں خندقی جنگ و جدل (Trench Warfare) کے تعطل کو توڑا اور میدانِ جنگ کو وہ حرکیت عطا کی جس کا نقطہ ء عروج دوسری عالمی جنگ میں اس بلز کریگ کی صورت میں ظاہر ہوا جو ہٹلر کے دماغ کی پیداوار تھی۔ ہٹلر نے ٹینکوں، طیاروں اور توپوں کا بیک وقت استعمال کرکے ساری دنیا کو حیران کر دیا اور مئی 1940ء میں فرانس پر حملہ کرکے وہ انقلابی اقدام کیا جس نے جنگوں کی تاریخ اور قوموں کی تقدیر بدل دی۔
جنگوں کی تاریخ بدلنے کی پشت پرجو تاریخی رول ٹینک نے ادا کیا، ویسا ہی بلکہ اس سے بھی بڑا رول ہوائی جہاز نے بھی ادا کیا۔جب 1945ء میں دوسری عالمی جنگ ختم ہوئی تو فضائیہ، دنیابھر کے لشکروں کی ایک اہم ’’سروس‘‘ بن چکی تھی۔ امریکہ نے بھانپ لیا تھا کہ جنگ کا مستقبل ’’طیارے‘‘ کے گردا گرد استوار ہوگا، اس لئے اس نے اس فیلڈ میں ڈویلپمنٹ کے سارے ریکارڈ توڑ ڈالے۔۔۔ آج امریکہ کو دنیا کی واحد سپرپاور بنانے میں ’’طیارے‘‘ کا جو ہاتھ ہے، اس پر اس مختصر سے کالم میں سرسری سا تبصرہ کرنا بھی محال ہے۔ قارئین سے درخواست کروں گا کہ اگر وہ اس موضوع کی مزید تفصیل میں جانا چاہتے ہیں تو فضائیہ کی تاریخ کا عہد وار جائزہ لینے کے لئے متعلقہ کتابوں اور انٹرنیٹ کا رخ کریں۔ ان کو معلوم ہوگا کہ امریکہ کی حالیہ ’’عالمی عظمت‘‘ کے راز کا 50فیصد حصہ اس کی فضائیہ کا مرہونِ احسان ہے!
ہم ڈرونوں کی بات کررہے تھے اور قارئین کو بتانا چاہتے تھے کہ باراک اوباما کا حالیہ دورۂ بھارت اس نئی فضائی مشین کی ترویج میں بھارت سے کیا امید رکھتا ہے اور بھارت، امریکہ کی اس دفاعی ٹیکنالوجی سے کس حد تک مستفید ہو سکتا ہے۔
جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا ، ڈرون ٹیکنالوجی، ہوائی جہاز ٹیکنالوجی کا تسلسل ہے۔ طیارے اور ڈرون میں اگر کوئی فرق ہے تو اس کے اندر انسان کے ہونے یا نہ ہونے کا ہے۔ یعنی ہوائی جہاز میں پائلٹ ہوتا ہے اور ڈرون میں کوئی پائلٹ نہیں ہوتا۔۔۔ امریکہ نے ان ’’بغیرپائلٹ گاڑیوں‘‘ (UAVs) کے جوتجربات 2001ء سے لے کر 2013ء تک کئے ہیں، ان کی تجربہ گاہیں افغانستان، عراق اور یمن تھیں۔ پاکستان بھی اپنے ’’فاٹا‘‘ میں ان تجربات سے ’’مستفید‘‘ ہوتارہا ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ افغانستان اور بالخصوص پاکستان نے امریکی ڈرون ٹیکنالوجی کو فائن ٹیون کرنے میں ہزاروں پاکستانی جانوں کا جو ’’نذرانہ‘‘ پیش کیا، وہ تاریخِ جنگ میں ان مشینوں کی ترویج میں 13سالہ افغانستان جنگ کا اہم ترین پہلو شمار کیا جائے گا۔

دنیا کی ایک بڑی آبادی اب تک یہی سمجھتی رہی ہے کہ ڈرون، بغیر پائلٹ کے ایک ’’ہوائی جہاز‘‘ ہے جو ریکی اور بمبارڈمنٹ وغیرہ کے مشنوں کے کام آتا ہے۔ لیکن دنیا کی ایک بڑی آبادی کو یہ معلوم نہیں کہ ڈرون بغیر کپتان کے ایک ’’آبدوز‘‘ بھی ہے جس کا رول ابھی تک پردۂ اخفا میں ہے۔تاہم کوئی ہی دن جاتا ہے جب ہم سب یہ نظارا کریں گے کہ ’’ڈرون آبدوزیں‘‘ دنیا کے تمام سمندروں میں اسی طرح آپریٹ کریں گی جس طرح عام بحری جہاز سینہ ء آب پر رواں دواں رہتے ہیں۔
کرۂ ارض کے 65فیصد حصے پر پانی ہے اور باقی 35فیصد حصہ خشکی پر مشتمل ہے۔ زمین کے اوپر جس طرح فضا اور خلاء کی کوئی انتہا نہیں اسی طرح زیر زمین اور زیر آب سمندر میں جو کچھ موجود ہے، اس کا بہت کم علم دنیاکو حاصل ہے۔ امریکہ ایک عرصے سے زیر آب ڈرونوں پر تجربات کررہا ہے۔ اس کے اپنے مشرقی اور مغربی سواحل (بحراوقیانوس اور بحرالکاہل) ان تجربات کے لئے کافی و شافی ہیں۔ سرد جنگ کے ایام میں امریکہ نے ان مشرقی اور مغربی ساحلوں کی حفاظت کے لئے زیر آب ایک ایسا دفاعی حصار قائم کیا ہوا تھا جس کو کوئی دہشت گرد آبدوز توڑ نہیں سکتی تھی۔ممکن ہے بعض قارئین کو اس کی خبر نہ ہو لیکن واقفانِ حال کو معلوم ہے کہ یو ایس ایس آر، سرد جنگ کے زمانے میں امریکہ پر زیرِ آب حملوں کا پلان رکھتا تھا۔ اس کی آبدوزوں کا ایک بڑا بیڑا جوہری آبدوزوں پر مشتمل تھا اور امریکہ کو ایک بڑا خطرہ ان آبدوزوں سے بھی تھا کہ جو ناگہاں نیویارک کے مشرقی اورلاس اینجلز کے مغربی ساحل پر کہیں نمودار ہوکر امریکہ کو فضائی جوہری حملے کے ساتھ ساتھ بیک وقت بحری جوہری حملے کا نشانہ بھی بنائیں گی۔۔۔ بہرکیف یہ ایک دوسرا موضوع ہے، فی الحال ہم اس کو ایک اور تناظر میں دیکھتے ہیں۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران زمینی لڑائیوں کے علاوہ سمندری لڑائیوں کا بھی ایک وسیع سلسلہ ہے۔ مئی 1945ء میں جب ہٹلر کی خودکشی کے بعد جرمنی نے ہتھیار ڈال دیئے تھے تو جاپان اڑ گیا تھا۔ وہ اگست 1945ء تک اتحادیوں کے خلاف برسر پیکار رہا اور اگر امریکہ جوہری بم نہ بنا لیتا اور ہیروشیما اور ناگاساکی پر جوہری حملہ نہ کرتا تو جاپان مزید ایک ڈیڑھ سال تک امریکہ اور دوسرے اتحادیوں کو ناکوں چنے چبوا سکتا تھا۔ بحرالکاہل کا خطہ ء جنگ جہاں دوسری جنگ عظیم میں بحری لڑائیوں کی آما جگاہ بنا رہا وہاں اس جنگ کے ابتدائی برسوں میں شمالی بحراوقیانوس بھی جرمن اور امریکی / برطانوی آبدوزوں کی جنگ و جدل کا مرکز بنا رہا۔۔۔ لیکن بحرہند جو دنیاکا تیسرا بڑا سمندر ہے، وہ بحری جنگ و جدل سے نسبتاً ناآشنا رہا۔ اس کی وجوہات پر کسی اور وقت قارئین کی خدمت میں عرض کروں گا ۔۔۔ فی الحال ایک بار پھر باراک اوباما کی بھارت یاترا کی طرف لوٹتے ہیں۔
امریکہ کو معلوم ہے (اور ہم بھی جانتے ہیں) کہ مستقبل میں اگر کوئی ملک امریکہ کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑا ہو گا تو وہ چین ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ چین کے گرد ایک ’’ہلالی حصار‘‘ کھینچنا چاہتا ہے جو تائیوان سے شروع ہو کر بھارت تک جائے گا۔ اور اس حصار کا زیادہ زور زمین پر نہیں سمندر پر ہوگا۔یہ حصار ویسا ہی ہے جو گزشتہ صدی میں 1950ء کے عشرے میں امریکہ نے سیٹو (SEATO) اور سینٹو (CENTO) کی صورت میں تشکیل دیا تھا۔
چین کی 90فیصد بحری تجارت کا راستہ آبنائے ملا کا سے ہو کر گزرتاہے۔ نقشے پر ملاحظہ کریں تو اس آبنائے کے دہانے پر بھارت کے جزائر انڈیمان واقع ہیں جو برٹش دور میں کالاپانی کہلاتے تھے۔ امریکہ، چین کی اس بحری تجارت کی مانیٹرنگ کرنے کے لئے انڈیمان تک آبی اور زیر آبی رسائی چاہتا ہے۔ امریکہ کو معلوم ہے کہ گزشتہ برس ایک چینی جوہری آبدوز آبنائے ملا کا سے گزر کر سری لنکا کی بندرگاہ کولمبو میں لنگر انداز ہوئی تھی۔ چین کی یہ ’’حرکت‘‘ امریکہ اور بھارت کے لئے خطرے کی ایک بڑی گھنٹی تھی!
امریکہ (اور بھارت بھی) اب یہ چاہتا ہے کہ آبنائے ملاکا اور جنوبی بحرہند میں زیر آب ڈرونوں کا ایک ’’بیڑا‘‘ بنا کر تعینات کیا جائے جس کو انڈیمان اور جنوبی بھارت کی بندرگاہوں سے کنٹرول کیا جائے۔ ان زیرآب ڈرونوں کا مقصد یہ ہوگا کہ چینی بحری ٹریفک کے حجم کی نگرانی (سروے لینس) کی جائے۔ گوادر تک تو چین آ ہی چکا ہے۔ مستقبل قریب میں چین کو گوادر کی گہرے پانی کی بندرگاہ کو وسعت دینے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ امریکہ اس حقیقت سے آشنا ہے اور اس کا توڑ چاہتا ہے۔ اس لئے وہ ایران کی جوہری پیشرفت کو بھی بھاری دل کے ساتھ تسلیم کرنے کو تیار ہو رہا ہے۔ امریکی دفاعی دانشور آج کل ایرانی جوہری خطرے اور چین کی گوادر آمد کا جائزہ لے رہے ہیں۔ بھارت کے وزیراعظم کو بھی چین سے وہی خطرہ ہے جو امریکہ کو ہے۔ اسی لئے وہ آبنائے ملاکا کے دہانے پر زیرآب ڈرونوں کے آپریشن کے لئے اپنی بانہیں امریکہ کے سامنے دراز کررہا ہے۔ (مودی جی کی اوباما کے ساتھ حالیہ ’’جپھی‘‘ یاد کیجئے) 26جنوری کو یومِ جمہوریہ پر اوباما کی آمد تو ایک سامنائی پردہ (Facade) ہے، اس کے عقب میں جو مقاصد کارفرما ہیں، وہ اور ہیں۔ فی الحال تو بین الاقوامی میڈیا اس سلسلے میں خاموش ہے۔ لیکن جب گوادر میں چین کی آمدورفت کے سلسلے دراز ہوئے، جب بحرہند میں چینی جوہری آبدوزیں بھی دندنانے لگیں اور جب چین کو آبنائے ملا کا کے چوک (Choke) ہونے کے خطرات سے پالا پڑا تو زیر آب ڈرونوں کا مستقبل سطحِ آب پر آکر قارئین کے سامنے روشن ہو جائے گا!

مزید :

کالم -