فرانسیسی صدر کا دورہ، مودی سرکار کا پاکستان کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا

فرانسیسی صدر کا دورہ، مودی سرکار کا پاکستان کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ: آفتاب احمد خان

غربت کے شکار بھارت نے ایک مرتبہ پھر جنگی جنون کا مظاہرہ کیا ہے اور دورے پر آئے ہوئے فرانسیسی صدرفرانسسی اولاند کے ساتھ چھتیس رافیل جنگی طیاروں کی خریداری کا سودا کرلیا ہے۔ بھارتی فضائیہ زیادہ تر روسی ساخت کے طیارے استعمال کرتی رہی ہے مگر اب اس نے روس کے جدید ترین سخوئی 50 قسم کے طیاروں پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے جس کے باعث یہ ڈیل ابھی تک نہیں ہوسکی، اب حکومت اُسے فرانسیسی طیارے مہیا کرنا چاہتی ہے۔
فرانس جنگی طیاروں اور ایٹمی توانائی کی تیاری کے حوالے سے خاصی شہرت رکھتا ہے اور یہ اس کی مضبوط معیشت کیلئے بھی اہمیت کا حامل ہے، اسے دنیا بھر میں خریدار چاہئیں۔ اپنا دفاع مضبوط بنانا ہر ملک کا حق ہے لیکن جب اسرائیل اور بھارت جیسے جارحیت پسند ممالک جنگی سازوسامان کی خریداری کی بات کرتے ہیں تو اس سے ایک منفی جنون کی بو آتی ہے، جس کا شکار مستقبل میں پڑوسی ملکوں کو بنانا ہوتا ہے۔ بھارت نے پاکستان میں دہشت گردی کرانے کیلئے دو فوجی یونٹ بنائے تھے۔
غیر ملکی سربراہوں کو اس طرح کے حقائق پیش نظر رکھ کر بات سننے اور بات کرنے سے اپنے ملکوں کی ساکھ برقرار رکھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ بھارت نے وطیرہ بنا رکھا ہے کہ ہر آنے والے معزز غیر ملکی مہمان کے سامنے ممبئی میں ہونے والی مبینہ دہشت گردی کا قصہ کھول کر رکھ دیتا ہے اور اب اس نے پٹھان کوٹ کے واقعہ کو بھی اس میں شامل کرنا شروع کردیا ہے، اس کے برعکس پاکستان میں دہشت گردی کے ایسے درجنوں واقعات ہوئے ہیں۔ پٹھانکوٹ میں دہشت گردی کی تحقیقات ابھی مکمل نہیں ہوئیں جبکہ ممبئی کے واقعات کی انکوائری میں کہیں بھی پاکستان کا ملوث ہونا ثابت نہیں ہوا۔
بھارت پارلیمنٹ پر حملے میں بھی پاکستان کو ملوث کرتا رہا ہے، حالانکہ سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن کی خصوصی تفتیشی ٹیم کے رکن اور وزارت داخلہ کے ایک سابق افسر سپریم کورٹ میں داخل کردہ مبینہ بیان میں تفتیشی ٹیم کے ایک سابق رکن کے حوالے سے کہہ چکے ہیں کہ ممبئی میں اور پارلیمنٹ پر حملے بھارتی اداروں نے کرائے تھے جن کا مقصد انسداد دہشت گردی سے متعلق قوانین کو مزید سخت بنانا تھا۔ غیر ملکی طاقتیں دہشت گردی کے خلاف بھارتی حکومت کے موقف کو سنتے ہوئے ریکارڈ پر موجود ان باضابطہ بیانات کا بھی جائزہ لیں تو انہیں حقائق سمجھنے میں مدد ملے گی بصورت دیگر بھارت کی ہاں میں ہاں ملانا خود ان کے مفادات کے منافی ہوگا۔

مزید :

تجزیہ -