خیبر پختونخوا میں صنعتی ترقی ،مگر کیسے؟
صنعتی اورتجارتی ترقی کے لحاظ سے پنجاب پہلے ، سندھ دوسرے، کے پی کے تیسرے اور بلوچستان سب سے آخر میں چوتھے نمبر پر آتا ہے۔پی ٹی آئی کی حکومت کے پی کے میں صنعتی ترقی کاایک نیا باب شروع کرنے کا دعویٰ کر رہی ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ پٹھان ،جو ایک جفاکش اور محنتی قوم کے طور پر ایک پہچان رکھتی ہے ، وہ صنعت ، تجارت میں پیچھے کیوں ہے؟ ہمارے نزدیک ایک خاص اندازِ فکر، ایک مخصوص قسم کا ذہنی جمود، نوجوانوں میں تن آسانی اور محنت سے گریز کا رجحان، تعلیم یافتہ نوجوانوں کا سرکاری ملازمت اور وائٹ کالر ملازمتوں کی تلاش میں سرگرداں رہنا اور اس کے حصول کو اپنی زندگی کا اول و آخر مقصد بنا نا بھی انسانی رویوں پر مبنی وہ رکاوٹیں ہیں، جن کی وجہ سے پختون معاشرہ جمود اور پسماندگی کا شکار ہے اور پٹھان صنعت اور تجارت کے شعبوں میں انتہائی پیچھے ہیں۔پٹھان معاشرے کی ایک مثبت خصوصیت یہ ہے کہ یہاں جاگیردارانہ کلچر نہیں ہے اور سرمایہ دارانہ رجحانات قابومیں ہیں۔ یہاں مڈل کلاس حاوی ہے، انتہائی غربت کہیں کہیں موجود ہے، لیکن سندھ بلوچستان کی انتہائی غربت کے مقابلے میں بہر حال کم ہے ۔ یہاں کی اپرمڈل کلاس اوراپر کلاس کے ہاں کافی سرمایہ بینکوں میں اور پراپرٹی کی صورت میں موجود ہے، لیکن یہاں لوگ بوجوہ اپنا سرمایہ صنعت و تجارت میں لگانے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔ نفسیاتی طور پر ہمارے لوگ رسک لینے کی قائل نہیں ہیں۔ صنعت و تجارت میں کامیابی کے لئے وقت، محنت، برداشت، حوصلے اور خسارے کا خطرہ مول لینے کے جو لازمی کار فرما عوامل وجود رکھتے ہیں ، ہمارے لوگ اتنا بڑا دل گردہ نہیں رکھتے۔خیبرپختونخوا میں جو پہلا بڑا صنعتی زون قیوم خان کی وزارت اور ایوب خان کی صدارت کے دور سے قائم ہے، وہ نوشہرہ کے قریب امان گڑھ کی صنعتی بستی ہے۔یہاں ایوب خان کے دور میں کافی بڑی صنعتیں قائم ہوئیں۔کالونی سرحد ٹیکسٹائل مل،آدم جی پیپر مل، شمع گھی انڈسٹریز، فیروز سنز لیبارٹریز ان میں نمایاں تھیں۔اب یہ زون صنعتی قبرستان بن چکا ہے، اگر چہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان صنعتوں کے مالکان کا تعلق پہلے بھی زیادہ تر کراچی سے تھا، اب بھی ہے۔لیکن شمع گھی اور فیروز سنز دونوں میں منیجرز ، ٹیکنکل آفیسرز سے لے کر کلاس فور تک کے ملازمین مقامی ہیں۔ حیات آباد ، حطار، مردان، ڈی آئی خان اور ایبٹ آباد کے صنعتی زون بھٹو اور ضیاء الحق کے دور میں قائم ہوئے، لیکن کوئی بنیادی پیش رفت نہ کرسکے۔ فی الحال ان تمام زونز میں ماربل کی صنعت بہر حال کسی حد تک کامیاب جارہی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ پشاور ، نوشہرہ اور حطار میں فارماسیوٹیکلز کی صنعت کافی پھیل گئی ہے اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کاذریعہ ہے۔
پختونوں کے مخصوص انداز فکر کے علاوہ بدامنی، دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، اغوا برئے تاوان،نیز بجلی و گیس کی لوڈ شیڈنگ بھی وہ بنیادی رکاوٹیں ہیں، جس کی وجہ سے کے پی کے میں موجود 1848 یونٹس میں سے 1145 بند پڑے ہیں، لہٰذا مزید زونز بنانے سے پہلے مندجہ بالا عوامل کو دور کرنے کی ضرورت ترجیحی طور پر مد نظر رہنی چاہئے۔ موجودہ حکومت (پی ٹی آئی )کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں سی پیک روٹ کی وجہ سے سستی لیبر سے فائدہ اٹھانے کی خاطر کئی چینی سرمایہ کار مانسہرہ انڈسٹریل اسٹیٹ اور بنوں انڈسٹریل اسٹیٹ میں کافی دلچسپی لے رہے ہیں۔واضح رہے کہ بنیادی انفرا سٹرکچر کی دستیابی صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن توانائی کی ضروریات مہیاکرنا وفاق کا کام ہے۔ اس لئے دونوں حکومتوں کے لئے لازم ہے کہ سرمایہ کاروں کے لئے ون ونڈو کی سہولتیں فراہم کریں۔ انہیں بیوروکریسی کے گورکھ دھندوں اور تاخیری حربوں سے بچائیں، ایسا مکینزم ترتیب دیں کہ خصوصاََ بیرونی سرمایہ کار سرخ فیتے کے گھن چکر کا شکار ہو کر دل برداشتہ نہ ہوں۔
شنید ہے کہ وفاق نے ٹیکس اور کسٹم میں تین سال کی چھوٹ، جبکہ پلاٹ کی قیمت میں 25فی صد چھوٹ ، بجلی اور گیس میں 25فی صد رعایت اور بینک مارک اپ میں 5فی صد کی رعایتیں دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ہمارا مشاہدہ ہے کہ صنعتی اور پیداوری سرمایہ کار ی میں مسابقت اور پاکستان کے مخصوص حالات میں یہ ترغیبات ٹیکسوں میں کم از کم 33فی صد، توانائی نرخوں میں 40فی صد اور بینک قرضے کم از کم 8فی صد ہونے چاہئیں اور اس کا باقاعدہ نوٹیفیکشن جاری ہونا چاہئے،تا کہ سرمایہ کاروں کو یقین ہو سکے اور ان کے اعتماد میں اضافہ ہو۔ایک احتیاط لازم ہے کہ حکومت کو پیشہ ور سرمایہ کاروں اور عادی دیوالیہ صنعت کاروں کو اس میدان سے دور رکھنا ہو گا۔ہمارے ہاں آج کل ایک عام رسم ہے کہ صنعتی پلاٹ مراعات کے ساتھ خریدو، مراعات سے فائدہ اٹھا کر 5سال بعد دگنا یا تین گنا قیمت پر بیچ دو ۔ بینک سے قرضہ لے کر مشینری نصب کر دو اور تین سال بعد صنعت کو بیمار ڈیکلیئر کر کے قرضہ ہڑپ کر لو۔اس کام میں بعض سیاست دانوں کے ٹاؤٹ ، بعض سیاست دان اور با اثر لوگ خود اور بعض پیشہ ور صنعت کار ید طولیٰ رکھتے ہیں۔ان سے چوکنا رہنا حکومت کی ذمہ داری ہو گی۔ کے پی کے میں پہلے سے ماربل اور فارماسیوٹیکل کی صنعت کامیابی کی منزلیں طے کر چکی ہیں۔بہتر ہو گا کہ ماربل اور فارما سیوٹیکل کے صنعت کاروں کو ان کی ضرورتوں کے مطابق دیگر الائیڈ انڈسٹریز کی طرف متوجہ کر کے ان کی حوصلہ افزائی کی جائے۔اس میں رسک کا خطرہ کم ہو جائے گا، مثلاََفارما سیوٹیکلز کے لئے گریڈڈ پیکجنگ کی ضرورت ہے،لہٰذا وہ لوگ اس شعبے میں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں، ماربل سے متعلقہ صنعت کار ماربل کی صنعتی مشینری اور ماربل پالیشنگ کے انتہائی جدید اٹالین پلانٹ لگا سکتے ہیں۔
جنوبی پختونخوا اس لحاظ سے زیادہ پسماندہ ہے، اس لئے یہاں کوہاٹ ، کرک اور شکردرہ کے گیس اور آئل فیلڈز کو مدِنظر رکھتے ہوئے پیٹرولیم اور گیس پراڈکٹ کی صنعتوں پر توجہ ممکن ہے۔شمالی پختونخوا سیاحت کے لحاظ سے بڑی کشش کی حامل جگہ ہے، لیکن کسی حکومت نے آج تک کمراٹ، بن شاہی، مہابن کی حسین وادیوں کو سیاحوں کے لئے پُر کشش بنانے کی خاطر کوئی کام نہیں کیا۔ کے پی کے کی حکومت آج تک بحرین، کالام روڈ کو از سرِ نو تعمیر نہیں کر سکی، زمینی ساخت کو مدِنظر رکھتے ہوئے برساتی نالوں کے پانی کو کنٹرول کرنا اور اس سے سڑک کو بچانا انتہائی لازم ہے۔ہمارے ہاں سی اینڈ ڈبلیو والے سڑک بنا کر پانی کے لئے ڈرین یا نکاسی کا کوئی انتظام نہیں کرتے۔ جنوبی پختونخوا کی زرعی پیداوار، خصوصاََ ہلدی اور کھجور میں، برآمد کے حوالے سے کافی پوٹینشل پایا جاتا ہے۔ یہاں اس کے پراسیسنگ پلانٹس کی واضح اور نتیجہ خیز فزیبلٹی بن سکتی ہے، پختون لوگ ٹرانسپورٹ کی صنعت سے بھی لگاؤ رکھتے ہیں، لہٰذا ٹرانسپورٹیشن کیرج انڈسٹری کی ضروریات، امکانات اور لوازمات کا جائزہ لے کر سی پیک روٹس پر پلانٹ لگائے جا سکتے ہیں۔ شنید ہے کینیڈین حکومت نے کے پی کی حکومت کو 20 پاور ہاؤس دینے کا وعدہ کیا ہے۔کے پی حکومت کا منصوبہ ہے کہ ان پاورہاؤسز کو کوہاٹ ، کرک ، رشکئی اور حطار میں نصب کیا جائے گا،جبکہ انہی پاور ہاؤسز کو جنوبی اضلاع میں گیس سے چلا کر بجلی پیدا کی جائے گی۔وفاقی حکومت کے پی کے کو پچھلے 15سال سے دہشت گردی سے متاثرہ علاقہ قرار دے کر ایک ایس آر او کے ذریعے ایف بی آر کی طرف سے یہ نوٹیفکیشن جاری کرادے کہ کے پی کے میں پیداواری اور صنعتی شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو پانچ سال کا استثنا دیا جائے گا اور ان سے سرمائے کا سورس (Source) نہیں پوچھا جائے گا ۔نیز بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو راغب کرنے کے لئے بھی تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اپنے ذاتی تعلقات اور اثر رسوخ استعمال میں لا سکتے ہیں،اس سے ان کو سیاسی فوائد بھی حاصل ہوں گے اور صوبے کو بھی ترقی مل سکے گی۔