خواب کی حقیقت۔۔۔

خواب کی حقیقت۔۔۔

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


مولانا محمد ابراہیم
خواب ایک حقیقت ہے، جس طرح انسان حالت بیداری میں اللہ کی مخلوق اور اس کی حسین کائنات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر متاثر ہوتا ہے ٹھیک اسی طرح وہ حالت خواب میں بہت ساری چیزوں کو دیکھ کر متاثرہوتا ہے۔ خواب انسان کی زندگی کا ایک اہم حصہ ہے جس سے زندگی میں بعض اوقات تبدیلی بھی ممکن ہے۔
خواب کو رسول اللہﷺ نے نبوت کا ایک حصہ شمار کیا ہے جیسا کہ حدیث ابوہریرہ میں آپ نے فرمایا:
’’خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔‘‘ (بخاری و مسلم)
اسی لئے انبیاء کے خواب وحی کا درجہ رکھتے ہیں۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یہ حضرت ابراہیم کو خواب کی شکل میں ایک حکم الٰہی تھا جسے آپ نے سچ کر دکھایا، فرمانبردار بیٹے حضرت اسماعیل نے جواب دیا: ابا جان! آپ وہی کیجئے جس کا حکم اللہ نے آپ کو دیا ہے۔ آخر کار اللہ کی حکمت و قدرت سے دنبہ ذبح ہوا۔ اللہ نے فرمایا: اے ابراہیم! آپ نے خواب کو سچ کر دکھایا۔ اسی طرح حضرت یوسف نے حقیقت واضح فرمائی کہ آپ نبی ہوں گے اور آپ کو بادشاہت بھی ملے گی۔ (الصافات)
خواب کی قسمیں
رسول اللہﷺ نے خواب کی تین قسمیں بتائی ہیں جیسا کہ حدیث ابوہریرہ میں ارشاد ہے:
’’ایک اچھا خواب جو اللہ کی طرف سے بشارت ہوتا ہے، دوسرا جو شیطان کی طرف سے غم میں ڈال دینے والا ہوتا ہے اور تیسرا جو انسان کی زندگی کے اہم خیالات کا عکس ہوتا ہے۔‘‘ (بخاری)
حدیث میں ایک دوسرے مقام پر آپ نے ان تین قسموں کی الگ وضاحت فرمائی ہے، جیسا کہ حضرت عوف بن مالک سے مروی ہے، آپ نے فرمایا:
’’بیشک خواب کی تین قسمیں ہیں: پہلی قسم شیطان کی طرف سے ڈرانے والی من گھڑت باتیں تا کہ ابن آدم غمگین ہو۔ دوسری قسم آدمی کی بیداری کے اہم خیالات ہیں جنہیں وہ خواب میں دیکھتا ہے۔ تیسری قسم! نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے (یعنی اچھا اور سچا خواب)(سنن ابن ماجہ)
مشہور شارح بخاری علامہ حافظ ابن حجر العسقلانیؒ حضرت جابرؓ کی حدیث کے حوالہ سے فرماتے ہیں: خواب ان تین قسموں پر ہی منحصر نہیں بلکہ اس کی اور زائد قسمیں بھی ہیں، وہ خواب جس میں شیطان کا کھیل شامل ہوتا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہﷺ کے پاس ایک دیہاتی نے آ کر کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا میرا سر توڑ دیا گیا ہے اور لڑھک کر دور جاگرا ہے، مجھے اب تک اس کا سخت احساس ہے، آپ نے اس دیہاتی سے فرمایا:
’’اپنے خواب میں شیطان کا کھیل جو تمہارے ساتھ ہوا اسے کسی کو مت بتاؤ۔‘‘
نیکی اور بدی کے لحاظ سے دنیا میں انسانوں کے کئی درجات ہیں۔ ان ہی درجات کے اعتبار سے ان کے خواب بھی صحیح اور غلط ہوا کرتے ہیں، جیسا کہ رسول اللہﷺ کی حدیث ہے:
’’لوگوں میں جو اپنی بات میں جتنا سچا ہوگا اس کا خواب بھی اتنا ہی سچا ہوگا۔‘‘ (بخاری)
ان درجات میں سب سے اعلیٰ و افضل درجہ انبیاء کے خواب کا ہے جن کے تمام خواب سچے، وحی کی ایک قسم ہوتے ہیں اور کبھی کبھار ہی ان کے خواب محتاج تعبیر ہوتے ہیں۔
دوسرا درجہ متقی اور نیک لوگوں کا ہے، ان کے زیادہ تر خواب سچے ہوتے ہیں اور بعض اوقات ان کے خواب ویسے ہی دنیا میں واقع ہو جاتے ہیں۔
ان کے خواب کبھی سچے ہوتے ہیں اور کبھی پریشان کن ہوتے ہیں، یہ ان کی سچائی اور جھوٹ پر مبنی ہے یعنی خواب کا اثر ان کی نیکی اور بدی پر دلالت کرتا ہے۔
رسول اللہﷺ نے اپنے امتیوں کو اچھے خواب دیکھنے کے بعد تین بہترین آداب بتائے ہیں۔ حضرت ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ میں نے آپ کو فرماتے ہوئے سنا: جب تم میں سے کوئی اچھا خواب دیکھے تو یہ اللہ کی جانب سے ہوتا ہے اس پر اللہ کی تعریف بیان کرے۔ دوسرا ادب یہ کہ اچھا خواب دیکھنے پر دوسروں کو اس کی خوش خبری دے۔ (بخاری کتاب التعبیر، باب الرویا من اللہ) اور تیسرا ادب یہ ہے کہ وہ خوش خبری کسی ایسے آدمی کو دے جسے وہ اپنا عزیز سمجھتا ہو۔ (مسلم کتاب الرویا)
رسول اللہﷺ نے فرمایا: برے خواب شیطان کی جانب سے ہوتے ہیں، ایسے برے خواب دیکھنے والوں کے لئے آپ نے پانچ آداب بیان فرمائے ہیں۔ اگر امت ان آداب پر عمل پیرا ہو تو ان شاء اللہ وہ برے خواب ان کو کچھ بھی نقصان نہیں پہنچائیں گے:
اللہ سے پناہ مانگے اس برے خواب سے اور شیطان کی برائی سے، اپنے بائیں کندھے کی جانب تین مرتبہ تھوک دے اور کسی کو اس برے خواب کی خبر نہ دے، اور اپنی کروٹ بدل لے جس پر وہ سویا تھا، اپنے بستر سے اٹھے اور نماز پڑھ لے، لن تضرہ (تو وہ برا خواب) اس کے لئے ہر گز باعث تکلیف نہ ہوگا۔ (بخاری، کتاب التعبیر،مسلم: کتاب الرویا۔
صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے، آپﷺ نے فرمایا:
جس نے کسی ایسی چیز کو خواب بنایا جس کو اس نے خواب میں نہیں دیکھا تو اسے (قیامت کے دن) مجبور کیا جائے گا کہ جَو کے دو دانوں میں گرہ لگائے حالانکہ وہ ایسا ہر گز نہ کر پائے گا۔ بخاری کی دوسری حدیث میں آپ نے یوں فرمایا: سب سے بڑا جھوٹ بہتان تراشیوں میں سے یہ ہے کہ اپنی آنکھ کو وہ چیز دکھائے جو اس نے حقیقت میں نہیں دیکھی۔ (بخاری،امام طبریؒ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: بیداری کی حالت میں جھوٹ بولنا حد درجہ گھٹیا اور گھناؤنا گناہ ہے، اس کے نقصان کا دائرہ کسی کے قتل یا حد کی شہادت یا ناجائز طریقے سے مال ہڑپ کرنے تک محدود ہوتا ہے، جبکہ من گھڑت اور جھوٹا خواب بیان کرنا اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ اس میں وہ دعویٰ کرتا ہے کہ اسے کچھ دکھایا گیا جبکہ وہ خواب میں کچھ نہیں دیکھتا، اس طرح اللہ پر بہتان تراشی اور جھوٹی بات منسوب کرنا تباہ کن اور ناقابل معافی جرم ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
سارے گواہ کہیں گے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹی بات کہی تھی اور رسول اللہﷺ نے خواب کو نبوت کا ایک حصہ قرار دیا ہے اور نبوت ایک ایسا عطیہ ہے جسکا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے تو گویا جس نے نبوت میں جھوٹ باندھا گویا اس نے اللہ کی ذات پر جھوٹ باندھا۔ (معاذ اللہ)
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
خواب کا انجام وہی ہوتا ہے جس طرح اس کی تعبیر کی جائے۔ لہٰذا جب تم میں سے کوئی خواب دیکھے تو اسے کسی قابل اعتماد عالم یا خیر خواہ ہی سے بیان کرے۔ (مستدرک حاکم) خواب کے انجام کے بارے میں رسول اللہﷺ نے یوں فرمایا: خواب جب تک اس کی تعبیر بیان نہ کی جائے وہ چڑیا کے پیر میں ہوتا ہے جب تم میں سے کوئی اس کی تعبیر کر دے تو وہ ویسے ہی واقع ہو جاتا ہے۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الادب، باب ما جاء فی الرویا)
رسول اللہﷺ کو خواب میں دیکھنا
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: جس نے مجھے خواب میں دیکھا اس نے یقیناًمجھ کو دیکھ لیا، کیونکہ شیطان میری مماثلت اختیار نہیں کر سکتا۔ حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
’’جس نے مجھے (خواب میں) دیکھا اس نے سچ ہی دیکھا کیونکہ شیطان مجھ جیسا نہیں ہو سکتا۔‘‘
حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جس نے مجھے خواب میں دیکھا اس نے یقیناًمجھے دیکھا کیونکہ شیطان میری مشابہت اختیار نہیں کر سکتا۔‘‘
مذکورہ احادیث کی شرح میں امام قرطبیؒ ، قاضی عیاضؒ اور علامہ حافظ ابن حجر العسقلانی ؒ بیان کرتے ہیں: جس نے آپ کو خواب میں دیکھا وہ یہ یقین رکھے کہ سچ میں اس نے آپ کو دیکھا ہے کیونکہ شیطان آپ کی مشابہت اختیار نہیں کر سکتا۔
شیخ ابوسعید بن محمد بن نصیر رسول اللہﷺ کو خواب میں دیکھنے کی تعبیر بیان کرتے ہیں کہ آپ کو خواب میں دیکھنا درستگی رائے، بلندی مرتبہ اور دشمنوں پر فتحیابی کی نشانی ہے اور وہ اس خواب کو اپنے لئے بشارت سمجھے اگر آپ کے اوصاف کے برعکس کسی اور کا دیدار کرے تو دیکھنے والے کی بدبختی کی نشانی ہے۔ (فتح الباری)
مذکورہ آیت کی روشنی میں تمام علمائے سلف صالحین کا متفقہ فیصلہ ہے کہ جس نے خواب میں رسول اللہﷺ کو دیکھا اور آپ نے اسے اسلامی شریعت کے بالکل ظاہری اصولوں کے خلاف کوئی حکم دیا تو وہ حکم اس آدمی کے لئے یا کسی دوسرے کے لئے شریعت کا حکم نہیں بن سکتا۔ (فتح الباری)
یہ بات سچ اور حق ہے کہ شیطان آپ کی مشابہت اختیار نہیں کر سکتا مگر وہ جھوٹ تو ضرور بول سکتا ہے۔ شیطان اپنی اصلی شکل میں یا کسی دوسرے کی شکل میں آ کر جھوٹ کہے گا کہ میں تمہارا نبی ہوں اس لئے کوئی ایسا خواب جس میں شریعت کے خلاف اللہ کی حلال کردہ چیز کو حرام میں یا حرام کردہ چیز کو حلال میں حکم دیا جا رہا ہو تو اس خواب کو آپ کا خواب ہر گز نہ مانا جائے بلکہ یہ خواب الحلم من الشیطان سمجھا جائے گا۔
صحابہ کرامy جو آپ کو جانتے اور پہچانتے بھی تھے وہ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے خواب میں رسول اللہﷺ کو دیکھا ہے اور جس نے آپ کو دیکھا ہی نہیں وہ یقین سے کیسے کہہ سکتا ہے کہ میں نے آپ کو ہی خواب میں دیکھا۔ اس لئے اگر صحابہ کرام یا صحابیاتؓ کے علاوہ کوئی آپ کو خواب میں دیکھے تو اس سے آپ کے جسمانی اوصاف دریافت کئے جائیں، اگر وہ اوصاف مکمل طریقے سے آپ کے اوصاف کے مطابق ہیں جیسا کہ صحیح احادیث میں وارد ہیں تو اسے صحیح مان لیا جائے گا اور یقیناًاس نے آپ کو ہی اپنے خواب میں دیکھا ہے، اگر کسی نے ان صحیح احادیث کے اوصاف کے برعکس دیکھا ہو تو اس نے اپنے خواب میں آپ کو ہر گز نہیں دیکھا بلکہ اس نے کسی اور کو دیکھا ہے۔ جیسا کہ امام بخاریؒ کتاب التعبیر مشہور معبر خواب علامہ محمد بن سیرینؒ کا قول ذکر کرتے ہیں کہ کوئی شخص اپنے خواب میں رسول اللہﷺ کی اصل صورت میں دیکھے تو وہ رسول اللہﷺ ہی ہوں گے۔
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جس نے آپ کو خواب میں دیکھا وہ مجھے بیداری میں دیکھے گا۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے معجزے کے طور پر حضرت یوسفu کو خواب کی تعبیر کا علم دیا تھا جیسا کہ سورۂ یوسف میں فرمایا:
’’اور تجھے معاملہ فہمی (خواب کی تعبیر) بھی سکھائی۔‘‘(یوسف: ۶۱)
دوسرے مقام پر یوں ارشاد فرمایا:
(حضرت یوسف نے کہا) اور تو نے مجھے خواب کی تعبیر سکھائی۔ اس علم کی بنا پر حضرت یوسف نے قید خانے میں دو قیدیوں کے خواب کی بالکل سچی تعبیر کی اور پھر بادشاہ مصر کے خواب کی تعبیر کر کے لوگوں کو قحط سالی سے بچانے کا بہترین مشورہ دیا جس کی تفصیل سورۂ یوسف میں موجود ہے۔ (یوسف: ۱۰۱)
امام بغویؒ کہتے ہیں: خواب کی تعبیر کی کئی قسمیں ہیں، کبھی تعبیر قرآن سے کی جاتی ہے۔ کبھی تعبیر حدیث سے کی جاتی ہے اور کبھی تعبیر تمثیل سے کی جاتی ہے۔
صحیح بخاری کی ایک روایت میں آپ نے اپنا خواب بیان کر کے اس کی تعبیر فرمائی جیسا کہ آپ نے فرمایا: میں نے خواب میں ایک پراگندہ بال کالی عورت کو دیکھا جو مدینہ سے نکلی اور مہیعہ میں جا کر ٹھہر گئی، میں نے اس کی تعبیر یہ لی کہ مدینہ کی وباء مہیعہ منتقل ہو گئی۔ اس حدیث کی شرح میں حافظ ابن حجر العسقلانی ؒ لکھتے ہیں کہ مہلب نے کہا: خواب خود تعبیر شدہ ہے اس میں سوداء نامی سیاہ عورت کو دیکھا گیا جو کہ لفظ ’’سوداء‘‘ یعنی سوء بمعنی برائی، داء بمعنی بیماری ہے، پس اس کا نام ہی ایسا ہے جس سے خود تعبیر ظاہر ہے جیسا کہ حدیث میں آپ نے واضح فرمایا۔ (فتح الباری حدیث نمبر ۹۳۰۷۔۰۴۰۷)
بخاری و مسلم کی حدیثوں میں خوابوں کی جو تعبیر آپ نے بتائی ہے مثلاً خواب میں بہتے چشمے کی تعبیر نیک عمل سے، دودھ کی تعبیر علم سے، ہرے بھرے باغ کو اسلام اور ابر کے ٹکڑے کو دین اسلام اور گھی اور شہد کو قرآن مجید کی حلاوت بتایا ہے۔
کبھی خواب میں جو چیز ہم دیکھتے ہیں تعبیر اس کے برعکس بھی ہوا کرتی ہے جیسا کہ حدیث میں رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں سویا ہوا تھا کہ خواب میں اپنے ہاتھ میں دو سونے کے کنگن دیکھے جس سے مجھے ناگواری ہوئی پھر مجھے خواب ہی میں وحی کی گئی کہ ان پر پھونک ماروں تو میں نے ان کو پھونکا تو وہ دونوں کنگن اڑ گئے۔ اس کی تعبیر میں نے یہ نکالی کہ میرے بعد (نبوت کے) دو جھوٹے دعویدار پیدا ہوں گے جس میں ایک ملک صنعاء کا اسود عنسی ہے اور دوسرا ملک یمامہ مسیلمہ کذاب ہے۔ (بخاری حدیث ۴۳۰۷، ۱۲۶۳) ظاہری طور پر خواب میں چمکتا ہوا سونا تھا مگر اس کی تعبیر کا پہلو بالکل الگ تھا، آپ نے اس کی تعبیر جھوٹے فتنہ خوروں سے کی۔

مزید :

ایڈیشن 1 -