اخلاق کے تین پیمانے !
مو لا نا محمد حنیف ندویؒ
’’ خلق عظیم ‘‘ کیا ہے اور اسوۂ حسنہ اخلاق و عادات کی کن کن نو عیتوں کا غماز ہے ؟ اس تفصیل کو جاننے کے لیے ہم تین زاویہ ہائے نظر پیش کرتے ہیں۔کیوں کہ یہی تین کسوٹیاں ہیں جن سے کسی شخص کی عظمتِ کردار کا حقیقتاً اندازہ ہو تا ہے :
1......آپؐ کا اپنے اعزہ اور گھر والوں سے برتاؤ کیساتھا ؟
2.....اپنے عقیدت مندوں سے تعلق و معاملے کی بنیاد کس اُصول پر تھی؟
3....مخا لفین سے کس شائستگی سے پیش آتے تھے ؟
آئیے قرآن کی روشنی میں ان تینوں سوالوں کا جوب تلاش کریں ۔
پہلاپیمانہ : اپنے اعزہ و اقارب کے ساتھ آنحضرتؐ نہایت درجہ شفقت و محبت کا معاملہ روا رکھتے ہیں۔اس کا ثبوت ا س سے ملتا ہے کہ آپ نے جب اسلام کی طرف لو گو ں کو دعوت دی اور با لخصوص اپنے اعزہ اور برادری کے لو گوں کو مخا طب ٹھہرا یا تو انھیں تعلقا ت کا واسطہ دیا :
’’ کہہ دو میں تم سے صلے کا طا لب نہیں،مگر قرابت کی محبت توچا ہیے۔‘‘[شوریٰ: 23]
یعنی جب عام دنیوی سلوک میں میں نے ہمیشہ قرابت داری کاخیال رکھااور تعلق و رشتے کی نزاکتوں کا نبا ہاہے تودین کے معا ملے میں دشمنی اور عداوت کیسے ممکن ہے!
انسانی تعلقا ت کا سب سے چھوٹا اورمختصر ترین دائرہ اگرچہ انسان کی ازواجی زندگی کا دائرہ ہی ہے،مگراخلاقی اعتبارسے اسی کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔کیوں کہ زندگی کا یہی گوشہ ہے جس میں انسان کے حقیقی اخلاق کا مظاہرہ ہوتا ہے اور جہاں کوئی ملمع،بناوٹ اورتصنع حقائق پر پردہ نہیں ڈال سکتا۔
اس دا ئرے میں آپؐ کس درجہ کامیاب وکامران تھے؟ یا ازواجِ مطہرات کے حقوق وفرائض کی نگہداشت کاآپ کوکتناخیال رہتاتھا؟اس کی پوری پوری وضا حت توکتبِ حدیث میں ملے گی جن میں بتایا گیاکہ آپؐ کی شخصیت اور محبو بیت نے ازواجِ مطہرات کے دل میں احترام و ادب کے کن کن داعیوں کوبیدار کررکھاتھا،مگر ایک اجمالی سااشا رہ اس آیت میں بھی موجود ہے: ’’اپنی بیویوں کی خوشنودی چاہتے ہو۔‘‘[تحریم:1]
ہم جانتے ہیں یہ آیت محلِ زجر میں ہے،تاہم اس میں اس حقیقت کااظہار بہر حال پایاجاتاہے کہ آنحضرتؐ باوجودِ مقام نبو ت کی بلندیوں کے، ازواجِ مطہرات سے وہی برتاؤ روا رکھتے ہیں جو ایک معقول شوہر اپنی محبوب بیبیوں سے روا رکھ سکتا ہے۔
دوسرا پیمانہ : آپؐ کے اخلاق عالیہ کا سب سے نما یاں پہلو یہ ہے کہ آپ اپنے پیرؤوں اور حلقہ بگوشوں سے رشتہ و تعلق کو جس بنیاد پر استوار کرتے ہے،وہ برابری اوراُخوت و رفاقت کی انسانی بنیاد ہے۔حالانکہ اگر آپ چاہتے ہیں تو اس سے کہیں زیادہ عقیدت و نیاز مندی کے جذبات کو اُکسا سکتے تھے،مگر اِس میں اُس پنداراورکبریائی کاشائبہ تک پایانہیں جاتا جوعام طورپر اُن لو گوں میں پیداہوجاتاہے جوسیادت و ارشاد کی اونچی مسندوں پر فائز ہوجا تے ہیں ۔قرآن کاارشادہے :
’’ مسلمان توآپس میں بھائی بھا ئی ہیں۔‘‘[حجرات :10]
یہی نہیں،آپؐ کی شفقت ومحبت اور تعلقِ خاطر کے پیمانے اس سے بھی سوا ہیں:
’’ اللہ کی خاص مہربانی سے تمھاری افتادومزاج ان لوگوں کے لیے نرم واقع ہو ئی ہے۔‘‘[آل عمران :159]
’’ تمہا رے پاس تم ہی میں سے ایک پیغمبر آئے ہیں،تمہا ری تکلیف ان کوگراں معلوم ہو تی ہے،تمھاری فلاح وبہبود کے بہت آرزومند ہیں اور مومنوں پر نہا یت شفقت کرنے والے مہربان ہیں۔‘‘[توبہ: 128]
کہیے،مرید اور مرشد میں تعلق اور رشتے کی نوعیت،دل سوزی اوراحساس کہیں اوربھی دیکھا آپ نے دیکھا؟ اپنوں سے برتاؤاور سلوک کایہ انداز بہت اونچا سہی،مگر بہرحال ممکن ہے۔
تیسرا پیمانہ :اب دیکھنا یہ ہے کہ مخالفین سے راہ ورسم کاکیارنگ ڈھنگ ہے؟ اوران سے جب بات چیت ہوتی ہے توکیا اصول مدنظر رہتاہے؟قرآن نے اس پرروشنی ڈالی ہے:
’’ بری بات کے جواب میں ایسی بات کہو جو نہا یت اچھی ہو۔‘‘ [مؤمنون: 96]
دشمن سے حسنِ سلوک کے ساتھ پیش آنا کتنا مشکل کام ہے،قرآن نے اس کا اعتراف فرمایا ہے:
’’ اوریہ بات انھی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جوبرداشت کرنے والے ہیں اورانھی کو نصیب ہو تی ہے جنھیں اخلاق سے بہرہ وا فر ملاہے۔‘‘[ حم السجدہ:35]