بھٹو دور کا مشرق و سطیٰ اور امارات کے بھارت کے ساتھ معاہدے!
تجزیہ:چودھری خادم حسین:
دنیا میں عام زندگی میں عام آدمی کے بھی بہی خواہ مخالف ہوتے ہیں، چہ جائیکہ کوئی معروف شخصیت ہو، اسی لئے سیاسی راہنماؤں کے حامی اور مخالف بھی پائے جاتے ہیں اور جیسا اہم سیاست دان ہو، اتنے ہی جاں نثار اور دشمن بھی ہو جاتے ہیں، بہر حال ایک صحافی کی حیثیت سے ہمیں سارے پہلوؤں کو مد نظر رکھنا پڑتا ہے اور شہریوں کو بھی خیال کرنا چاہئے کہ غلطی کو ہی غلطی مانا جائے اور اچھے کام کو بہر حال اچھا کہہ لیا جائے، سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو جو جی میں آئے کہہ لیں لیکن جو بہتر کام ان سے ہوئے اور منسوب بھی ہیں ان کو جھٹلانا مشکل ہے۔ یہ اس لئے خیال آیا کہ دو روز قبل متحدہ عرب امارات کے ولی عہد نے بھارت یا تراکی، مودی نے معمول اور عادت کے مطابق ان کو جپھا ڈال لیا اور یہ ایسا تھا کہ انہوں نے بھارت کے ساتھ 78کھرب روپے کے چودہ معاہدے کر لئے، ان میں دفاع اور تجارت کے بھی ہیں جبکہ بھارت کا یوم جمہوریہ امارات میں بھی منایا گیا اور دنیا کی بلند عمارت برج الخلیفہ کو بھارتی ترنگے کے رنگ میں رنگ دیا گیا، یہی سب پڑھ اور سن کر خیال آیا کہ یہ ذوالفقار علی بھٹو ہی تھے جنہوں نے ’’چوتھی دنیا‘‘ کا تصور دیا، عرب اور مشرق وسطیٰ کی ریاستوں سے تعلقات استوار کئے ان کو فنی اور تکنیکی تعاون دیا تو ساتھ ہی افرادی قوت بھی دی، ان میں سے آج بھی پاکستانی وہاں ہیں تاہم اب حالات میں تبدیلی یہ آئی کہ بھارتی تعداد میں بڑھ گئے اور اب 78کھرب روپے کے معاہدے ہو گئے ہیں، کسی تبصرے کے بغیر غور کی دعوت دیتے ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے، مودی اتنا خوش ہے کہ اس نے پروٹوکول کے بھی پرخچے اڑا دیئے، یہ ایسی صورت میں ہے جب بھارت کی نودس لاکھ فوج نے کشمیریوں کو محبوس کررکھا ہے اور ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں، ہر روز گرفتاریاں، لاٹھی چارج، پیلٹ گنوں کے فائر اور شہادتیں ہوتی ہیں اب تک ڈیڑھ سو سے زیادہ شہادتیں پا چکے اور ہزاروں زخمی ہوئے ان میں سے قریباً گیارہ سو معذور ہو گئے اس کے باوجود ان کا جذبہ حریت زندہ ہے اور انہوں نے بھارت کے یوم جمہوریہ کا بائیکاٹ کیا اور یوم سیاہ منایا ہے، ہمارے دفتر خارجہ کے ترجمان نے بیان پر اکتفا کیا اس سے مماثل بیان ہر بار جاری کیا جاتا ہے، مقبوضہ کشمیر کے حریت پسند تو پاکستان کی حمائت کے مشکور ہیں تاہم وہ دنیا بھر میں پاکستان کی طرف سے جارحانہ توجہ کی توقع کرتے ہیں۔
دنیا میں یہ سب ہو رہا ہے ٹرمپ نے جو کہا تھا اس پر تیزی سے عمل پیرا ہے، خطے میں مودی سے زیادہ کوئی خوش نہیں، طاقت کے توازن میں زیادہ فرق کا اندیشہ ہے، ایسے میں ہم کن امور میں الجھے ہوئے ہیں وہ سب کے سامنے ہیں، ہمارے سیاسی قائدین عملی طور پر ان مسائل سے لاپرواہ زبانی جمع خرچ کے قائل اور آپس میں لڑ رہے ہیں، حالانکہ یہ وقت سر جوڑ کر بیٹھنے اور غور کا ہے۔
پاناما لیکس کیس اپنے انجام کی طرف بڑھ رہا ہے، وزیر اعظم کے صاحبزادے کی طرف سے ایک اور خط پیش کردیا گیا، یہ بھی قطری شہزادے کا ہے، ہمارے تعلقات کا اظہار ہے ، یہ جو محاذ آرائی ہے یہ کسی اور مسئلہ پر سو چنے اور غور کا موقع ہی نہیں دیتی، حالانکہ یہ وقت فکر مندی اور حکمت عملی وضع کرنے کا ہے۔
بھارتی حکومت نریندر مودی کی قیادت میں بنیاد پرستی کے اطوار پر عمل کر کے بتدریج دنیا میں اپنے ملک کے لئے تعلقات میں اضافہ کررہی ہے، پاکستان کے خلاف معاندانہ رویہ بھی ڈھکا چھپا نہیں،مودی کا ہر قدم پاکستان کے خلاف ہے، کیا اب بھی کوئی اور دن آئے گا جب ہم سب اس ازلی دشمن کے خلاف سرجوڑ کر بیٹھیں گے، وہ دن کون سا ہوگا اور کب آئے گا؟ کیا اس وقت جاگیں گے جب امریکی صدر ٹرمپ ’’ڈومور‘‘ کے نعرے کو کسی اور انداز سے سامنے لائے گا، ابھی تو امریکی کلاسیفائیڈ دستاویزات کا جو حالیہ پرت کھولا گیا، اس میں جنرل ضیاء الحق کا ایک خط بھی سامنے آگیا ہے جس میں انہوں نے اس وقت کے امریکی صدر کو تحریری طور پر آگاہ کیا کہ پاکستان ایٹمی ہتھیار بنانے کا ارادہ نہیں رکھتا، اور اب ہم ایٹمی قوت ہیں اور ہمارے دفاع کا تمام تر انحصار ایٹمی صلاحیت پر ہے، حال ہی میں ابابیل میزائل کا تجربہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے جو 2200کلو میٹر تک ہدف کو نشانہ بنانے کی اہلیت رکھتا ہے ، اس سے زیادہ کیا کہیں، یہ وقت ہے، نہ سمجھو گے تو۔۔۔؟