حکومت نے حالیہ لا پتہ شہریوں کی باحفاظت بازیابی کیلئے خفیہ ایجنسیوں سے رابطہ کر لیا

حکومت نے حالیہ لا پتہ شہریوں کی باحفاظت بازیابی کیلئے خفیہ ایجنسیوں سے ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


اسلام آباد(آئی این پی ) سینیٹ فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کو آگاہ کیا گیا ہے کہ حکومت نے اعلی سطح پرحالیہ لاپتہ شہریوں کی باحفاظت بازیابی کیلئے صوبائی حکومتوں بشمول تمام حساس اداروں اور خفیہ ایجنسیوں سے بھی رابطہ کرلیا گیا ہے ،حساس اداروں کی طرف سے جواب موصول ہونا ابھی باقی ہے، اس امر کا اظہار سرکاری بریفنگ میں کیا گیا ۔ جمعرات کو فنکشنل کمیٹی کااجلاس چیئرپرسن سینیٹر نسرین جلیل کی صدارت میں ہوا جس میں قائد ایوان سینیٹر راجہ ظفرالحق نے واضح کردیا ہے کہ توہین رسالت کی سزاکے قانون کے بارے میں ہرگز یہ تاثر نہ جائے کہ اس قانون میں کوئی ایسی تبدیلی کرنا چاہتے ہیں جو بذات خود کسی طبقے کو ابھارے گا۔ وفاقی شرعی عدالت بھی سزائے موت کی سزا کا فیصلہ دے چکی ہے۔ اجلاس کی کارروائی کے دوران کم عمر طیبہ پر ایک جج کے گھر میں تشدد کے واقعہ پر غور ہوا ۔ سوشل میڈیا کے پانچ سرگرم لاپتہ شہریوں کی تاحال عدم بازیابی پر فنکنشل کمیٹی نے گہری تشویش ظاہر کی ہے ۔ اس امر پر اتفاق کیا گیا کہ جب تک طیبہ تشدد کیس کا فیصلہ سپریم کورٹ سے نہیں آتا اس پر بات نہیں کی جائے گی فنکشنل کمیٹی میں چکوال واقعہ کا حل علاقہ کے معززین کے ذریعے نکا نے کی تجویز دے دی گئی ہے ۔اعلی حکام نے سوشل میڈیا کے لاپتہ سرگرم افراد کے بارے میں بتایا گیا کہ پروفیسر سلمان حیدر کی ایف آئی آر تھانہ لوئی بھیر ، ثمر عباس کی ایف آئی آر تھانہ رمنا اسلام آبا د میں درج ہیں۔ صرف ایک لاپتہ شخص کی ایف آئی آر درج نہیں ہو سکی ۔ لاپتہ پانچوں افراد کی بازیابی کیلئے تحقیقات چل رہی ہیں وفاقی حکومت نے صوبائی حکومتوں اور تمام حساس اداروں اور خفیہ ایجنسیوں سے بھی رابطہ کیا ہے ۔حساس اداروں کی طرف سے ابھی تک جواب موصول نہیں ہو ا ۔ چکوال واقعہ میں نامزد 66 افرادکو گرفتار کیا گیا ہے ۔تیس چالیس نامعلوم افراد کے خلاف بھی مقدمہ ہے ۔ چیئرمین انسانی حقوق کمیشن نے کہا کہ انتظامیہ کی نا اہلی کی وجہ سے واقعہ پیش آیا ۔ سینیٹر ثمینہ عابد نے کہا کہ حساس علاقہ تھاجلوس کی کیوں اجازت دی گئی ۔ سینیٹر محسن لغاری نے کہاکہ پہلے سے شکایت موجود تھی حفاظتی اقدامات کیوں نہیں کیے گئے اور کہا کہ چکوال واقعے کا حل علاقہ کے معززین کے ذریعے نکا لا جائے۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے مطالبہ کیا کہ حالیہ لاپتہ افراد کے بارے میں تحقیقی اداروں سے رابطوں اور جواب کی تفصیل سے آئندہ اجلاس میں آگاہ کیا جائے ۔ سائبر کرائم بل کے ذریعے مقدمہ بننا چاہیے۔ کسی کو لاپتہ کرنا غلط ہے ۔فوری طور پر جس لاپتہ شخص کی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی درج کی جائے ۔ سینیٹر سحر کامران نے کہا کہ قانونی طریقہ کار اپنایا جانا چاہیے ۔ سینیٹر ستار ہ ایاز نے کہا کہ اس مسئلے پر ایوان بالاء میں بھی بحث ہوئی ہے اس کی مکمل تفصیلات دیں ۔ سینیٹر محسن لغاری نے کہا کہ پچھلے کمیٹی اجلاس میں تفصیلات فراہم نہ کرنے پر تحریک استحقاق لانے کے فیصلے کے باوجود مکمل تفصیلات اس اجلا س میں بھی نہیں دی گئیں ۔ چیئرمین قومی انسانی حقوق کمیشن نے کہا کہ حساس اداروں اور ایجنسیوں سے رابطہ کر کے ان کی مہارت سے فائدہ اٹھا کر معاملے کی تفصیل لی جائے ۔ آر پی اور راولپنڈی نے کہا کہ لاپتہ افراد کمیشن موجود ہے ۔ اس میں بھی ان افراد کا معاملہ بجھوا یا جاسکتا ہے ۔ چیئر پرسن کمیٹی نے کہا کہ حساس اداروں سے رابطہ کرنے کے بعد جس متعلقہ آفسیر سے ملاقات ہوئی کیا جواب ملا تحریری جواب سے آئندہ اجلاس میں آگاہ کیا جائے ۔ لاپتہ افراد کے بارے میں توہین رسالت کے الزامات اور فتوؤں کے بارے میں پیمرا ، پی ٹی اے اور ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کو خطوط لکھے جائیں ۔ قومی انسانی حقوق کے چیئرمین نے تجاویز کا مسودہ کمیٹی میں پیش کیا ۔ قائد ایوان سینیٹ راجہ محمد ظفر الحق نے کہا کہ کمیشن کی تجاویز کا اردو ترجمہ بھی کیا جائے۔ تجاویز اور سفارشات کیلئے زیادہ سے زیادہ وقت استعمال میں لایا جائے ۔ احتیاط کی ضرورت ہے۔ یہ تاثر نہ جائے کہ اس قانون میں کوئی ایسی تبدیلی کرنا چاہتے ہیں جو بذات خود کسی طبقے کو ابھارے گا۔ وفاقی شرعی عدالت بھی سزائے موت کی سزا کا فیصلہ دے چکی ہے۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ 1991کی سینیٹ کمیٹی قانون وا نصاف میں جو تجاویز رکھی گئیں تھیں۔اس کے بعد مزید کوئی کارروائی عمل میں نہیں آئی۔ چیئرمین انسانی حقوق کمیشن نے کہا کہ اسلام آباد میں بچوں کے تحفظ سے متعلق کوئی قانون موجود نہیں ۔ پارلیمینٹ میں زیر التواء بل پر کمیشن اپنی تجاویز پیش کرے گا۔اجلاس میں خصوصی دعوت پر قائد ایوان سینیٹ راجہ محمد ظفر الحق اور سینیٹرز فرحت اللہ بابر ، محسن لغاری، جہانزیب جمالدینی ، مفتی عبدالستار ، ستارہ ایاز ، سحر کامران ، ثمینہ عابد کے علاوہ چیئرمین قومی انسانی حقوق کمیشن جسٹس ریٹائرڈ علی نواز چوہان، آر پی او رالپنڈی فخر سلطان، ایس پی اسلام آباد مصطفی تنویر کے علاوہ اوردیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔