میں وہاں رہتا ہوں

میں وہاں رہتا ہوں
 میں وہاں رہتا ہوں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ایک غیر ملکی صحافی نے سوشل میڈیا پر مجھ سے پوچھاتم کہاں رہتے ہو، میں نے اسے بتایا کہ میں وہاں رہتا ہوں جہاں دس بچیاں ریپ کر کے قتل کر دی جاتی ہیں مگر پولیس کے کانوں پر اس وقت تک جوں نہیں رینگتی جب تک ایک سیاسی کارکن کی بیٹی کی گیارہویں لاش بھی کوڑے کے ڈھیر سے نہیں مل جاتی اور اس کا لیڈر اسے ایک ہنگامہ خیز ایشو نہیں بنا دیتا۔ اس سے پہلے اس علاقے کے تھانے دار سے ضلعے کے ڈی پی او اور صوبے کے انسپکٹر جنرل تک سب سوئے رہتے ہیں۔ وہ میری بات سن کے حیران ہوئی ، بولی، کیا پولیس کے پاس جرائم کے حوالے سے ڈیٹا کلیکشن کاکوئی نظام نہیں اور کیا تمہارے ہاں بچیوں کے ریپ اور قتل کو سیاسی معاملہ بنایا جاتا ہے، اسے کسی ایک سیاسی جماعت کی بجائے پوری قوم کادکھ اورنقصان نہیں سمجھا جاتا کہ بچے تو سب کے سانجھے ہوتے ہیں۔میں کہتا ہوں ، نہیں، ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا، ہمارے ہاں زینب قتل کیس ایشو بنتا ہے مگر عاصمہ قتل کیس نہیں ، میں اسے سمجھا نہیں پاتاکہ ہماری سیاست اور صحافت کے تقاضے کیا ہیں۔


میں ایک لمحے کو توقف کرتا ہوں اور اسے تفصیل سے بتاتا ہوں کہ ہم سب حکومتوں کو گالیاں دیتے ہیں اورہماری تاریخ بتاتی ہے کہ ہماری بہت ساری حکومتیں گالیاں کھانے کا حق بھی رکھتی ہیں مگر میں وہاں رہتا ہوں جہاں حکومتیں ہی نہیں عام افراد بھی اپنی مثال آپ ہیں، ہاں، میں وہاں رہتا ہوں جہاں ایک مذہبی سیاسی جماعت کا کارکن اور پیشہ ور نعت خواں عمران علی ،ایک بچی زینب کی آبروریزی کرتا ہے اور پھر اسے قتل کر کے کوڑے کے ڈھیر پر پھینکنے کے بعد ایک مذہبی محفل میں چلا جاتا ہے۔ جب اپوزیشن جماعتوں کے کارکن وہاں مظاہرے کرتے اور ہسپتالوں پر حملے کرتے ہیں تو وہ ان میں شامل ہوتا ہے۔ وہ اپنے ہی ہاتھوں ریپ اور قتل کی گئی بچی کے جنازے میں بھی شرکت کرتا ہے۔ میں وہاں رہتا ہوں جہاں کا معاشرہ پولیس کے ساتھ کوئی تعاون نہیں کرتا۔ زینب کے محلے دار سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھتے ہیں اوراس کے باوجود کہ وہ ملزم عمران علی کو دو، تین برس پہلے ایک بچی سے بوس وکنار کرتے ہوئے پکڑ کر پھینٹی لگا چکے ہوتے ہیں، اس کے باوجود کہ عمران علی کے خلاف تھانے میں ایک بچی کو ہراساں کرنے کی رپورٹ ہوتی ہے ، اس کے باوجود کہ عمران علی، زینب کے گھر سے صرف سولہ گھرو ں کے فاصلے پر رہتا ہے نہ صرف اسے پہچاننے کی جرات نہیں کرتے بلکہ جب پولیس اسے مشکوک سمجھ کے پکڑتی ہے تواسے چھڑوا لیتے ہیں۔میرے معاشرے کی اخلاقی ہمت اور جرات کا معاملہ یہ ہے کہ زینب کا باپ ہو یا اس کے محلے دار، جب تک ڈی این اے میچ ہونے کی کنفرمیشن نہیں ہوتی تب تک اس پر شک تک ظاہر نہیں کرتے کیونکہ وہ ان کا پیر بھائی ہوتا ہے۔


میں اسے بتاتا ہوں کہ میں وہاں رہتا ہوں جہاں کے میڈیا سمیت بہت سارے ادارے اخلاقیات سے مکمل عاری ہیں۔ جہاں ہر کسی کو شہرت کی ہوس ہے چاہے وہ سچ سے ملے یا جھوٹ سے۔ ’ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام، بدنام جو ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا‘ کے مصداق بے پر کی اڑائی جاتی ہیں اور پھر ان پر شرمندگی کا اظہار بھی نہیں کیا جاتا، معافی بھی نہیں مانگی جاتی۔میں وہاں رہتا ہوں جہاں چھ سالہ معصوم زینب کے زندہ جسم کے ساتھ تو ایک عمران علی کھیلتا ہے، مگر اس کی لاش پر سیاست کرنے والے بہت سارے عمران علی دندناتے پھرتے ہیں ، وہ پریس کانفرنسوں اور ٹی وی پروگراموں ہی نہیں بلکہ اعلیٰ ترین عدالتوں میں بھی دھڑلے سے جھوٹ بولتے ہیں ۔ کچھ ایسے ہیں جو زینب کو قتل ہونے دینے پر تو سیخ پا ہیں مگر اس طرح کی ایک دوسری کلی عاصمہ کے قتل ہونے پر نہیں۔


میں اسے بتاتا ہوں کہ میں وہاں رہتا ہوں جہاں پولیس کے افسران کے پاس’ لائسنس ٹوکل‘ ہے۔ وہاں کے ایک صوبے کی پولیس کا ایک افسر جعلی مقابلوں کے حوالے سے شہرت پاتا ہے ۔ یہ وہ صوبہ ہے جہاں ایک روز نقیب کو قتل کیا جاتا ہے تو دوسرے روز انتظار نامی نوجوان اور تیسرے روز مقصود کو مار دیا جاتا ہے۔ اس صوبے میں جعلی مقابلوں کے ماہر کی جب ایک بے گناہ کو قتل کرنے پرجواب طلبی کی جاتی ہے تو وہ ریاست کے سامنے کھڑا ہوجاتا ہے۔ وہ خود ہی فیصلہ کرلیتا ہے کہ اس نے کوئی غلط کام نہیں کیا ، وہ روپوش ہی نہیں ہوجاتا بلکہ دھمکی دیتا ہے کہ اگر اس کی گرفتاری کے لئے چھاپے نہ رکے تو وہ ڈکیتی کا مقدمہ درج کروادے گا۔ یہ بھی قصور میں زینب کو قتل کرنے والے مکارعمران علی کی ہی ایک دوسری سینہ زور قسم ہے۔ میں اسے مزید بتاتا ہوں کہ میں وہاں رہتا ہوں جہاں ختم نبوت کے خلاف سازش ہونے کے نام پر دھرنا مبینہ طور پر چند کروڑ روپے لے کر ختم کر دیا جاتا ہے۔ ان کے ساتھیوں کو جب اطلاع ملتی ہے تو وہ سب اپنا اپنا حصہ لینے کے لئے سرگرم ہوجاتے ہیں۔ میں وہاں رہتا ہوں جہاں شریعت نافذ کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے، اس کے لئے تحریک کااعلان ہوتاہے اوراس کے بعد محض وزیراعلیٰ کی ملاقات کی قیمت پر سب مطالبے ختم ہوجاتے ہیں حالانکہ ہمارے مذہب میں کہا گیا ہے کہ اللہ کے احکام اور آیتوں کو تھوڑی قیمت پر مت بیچو۔ یہ دنیا کی دولتیں اور عزتیں تو پہاڑ سے بھی بڑھ جائیں تو اس کے باوجود اللہ اوراس کے نبی کے نام سے زیادہ اہم اور قیمتی نہیں ہیں۔


میں اسے بتاتا ہوں کہ میں وہاں رہتا ہوں جہاں ایک صوبے کی پوری حکومت ایک پارٹی کی ٹوکری سے اٹھا کے دوسری کی ٹوکری میں رکھ دی جاتی ہے مگر اسے آئینی ، جمہوری اور سیاسی تبدیلی کہاجاتا ہے، اس پر شرمندگی کی بجائے فخر کا اظہار کیاجاتا ہے۔میں اسے بتاتا ہوں کہ اصلی جمہوریت کے لئے لڑنے والے پارلیمنٹ سے کروڑوں روپوں پر مشتمل سو فیصد تنخواہیں تو لے لیتے ہیں مگر ان کی حاضری دو سے چار فیصد بھی نہیں ہوتی۔میں اسے بتاتا ہوں کہ میں وہاں رہتا ہوں جہاں صحافی سازشیں کرتے ہیں،سیاستدان پارلیمنٹ اور جمہوریت کو بے وقعت کرتے ہیں، ادارے اپنے فرائض ادا کرنے کی بجائے سیاست کرتے ہیں اور عوام کا سڑک پر اشارے توڑنے سے کسی کی گردن توڑنے تک جہاں جو داو لگ جائے وہ لگا لیتے ہیں۔


میں اسے اپنی دھن میں بتا رہا ہوتا ہوں کہ میں وہاں رہتا ہوں جہاں مجھ سمیت بہت ساروں کے دل اور دماغ میں دھن سمائی ہے کہ ہم نے خود کو، اپنے دوستوں کو، اپنے سیاستدانوں کو، اپنی سول اور ملٹری بیوروکریسی کو، اپنے وکیلوں اور ججوں کو،اپنے مولویوں کو ہی نہیں بلکہ اپنے تاجروں سمیت سب کو ٹھیک کرنا ہے، ہم نے ایک مہذب معاشرہ بننا ہے مگر مجھے علم ہوتا ہے کہ وہ آف لائن ہوچکی ہے۔ بھلا کوئی یہ سب کچھ سننا بھی کیسے برداشت کرسکتا ہے جو کچھ ہم یہاں ہوتا ہوا برداشت کر رہے ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -