پولیس تشدد،جاری ہے؟
ساہیوال کے سانحہ کے حوالے سے ابھی تک فضا سوگوار اور عوامی سوالات کے جواب نہیں مل رہے کہ پولیس کی طرف سے زیادتی کے واقعات کی مزید اطلاعات موصول ہونا شروع ہو گئی ہیں، اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ پولیس کلچر تبدیل کرنے کی تجاویز اور دعوے اپنی جگہ لیکن فوری طور پر نہ تو کوئی اہم اقدام کیا گیا اور نہ ہی پولیس نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی کی ان کے خیال میں سانحہ ساہیوال معمول کا واقع ہے۔ لالہ موسیٰ اور ملتان سے الگ الگ موصول ہونے والی خبروں کے مطابق دو افراد پولیس کے ہاتھوں اپنی جان گنوا بیٹھے ہیں۔ تھانہ ککری لالہ موسیٰ میں ایک ٹھیکیدار مبینہ پولیس تشدد سے جاں بحق ہوا تو ملتان میں ایک معمر شخص کو پستول کا بٹ مار کر موت سے ہمکنار کر دیا گیا۔ لالہ موسیٰ میں پولیس نے لین دین کی درخواست پر ایک ٹھیکیدار ارشد کو گرفتار کر لیا اور مبینہ رقم کی وصولی کے لئے اس پر تشدد کیا گیا جس سے وہ جاں بحق ہو گیا۔لواحقین نے تھانے کا گھیراؤ کیا اور جی ٹی روڈ بلاک کر دی۔ اس پر ڈی پی او گجرات نے ایس ایچ او اور تھانہ محرر کو معطل کر دیا اور تحقیقات کے لئے کمیٹی تشکیل دے دی۔ملتان سے اطلاع کے مطابق تھانہ بدھلہ سنت پولیس نے منشیات فروشوں کی گرفتاری کے لئے چھاپہ مارا تو وہاں جھگڑا ہو گیا۔ اس دوران وہاں کا ایک 60 سالہ شخص حالات جاننے کے لئے گھر سے باہر نکلا تو پولیس والوں نے پستول کا بٹ مار کر اسے شدید زخمی کر دیا اور یوں نعمت نامی شخص جاں بحق ہو گیا۔ متوفی کے بھائی کی درخواست پر ایک اے ایس آئی اور کانسٹیبل کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا یہ دو واقعات تازہ ترین ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پولیس کا مجموعی رویہ ہی تشدد پسندی کا ہے اور وہ کچھ دیکھے اور سوچے بغیر تشدد کر گزرتے ہیں۔ لواحقین احتجاج کریں تو اس نوعیت کی کوئی کارروائی کرکے وقت حاصل کر لیا جاتا ہے اور بعد میں پھر سے وہی صورت حال ہوتی ہے۔وفاقی کابینہ نے سانحہ ساہیوال کے بعد سے بہت اعلانات کئے اور ان میں ایک یہ بھی ہے کہ پنجاب پولیس میں اصلاحات کا عمل فوراً شروع کیا جائے گا اور خیبرپختونخوا جیسا نظام پنجاب میں بھی لایا جائے گا، اس میں تو وقت لگے گا ضرورت تو اس امر کی ہے کہ اس رجحان پر فوری قدغن لگائی جائے لیکن بدقسمتی سے ایسا بھی نہیں ہو سکا اور ان خبروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ جاری ہے اور اب بھی تاحال فیصلہ ہوا کہ خیبرپختونخوا والا نظام پنجاب میں بھی نافذ کر دیا جائے۔ یہ بھی ہوتا رہے گا اور اس میں وقت بھی لگے گا، ضرورت تو اس امر کی ہے کہ حکومت واضح طور پر ایسے اقدامات کرے جو ان واقعات کی روک تھام کا سبب بن سکیں۔ کسی بھی شہری کی جان لینا قتل عمد سے کم نہیں ہوتا، اصلاحات سے بھی پہلے سزا، جزا کا عمل شروع ہونا چاہیے۔