امریکہ میں ایمر جنسی کا خطرہ؟
امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پر دیوار بنانے کے معا ملے پر صدر ٹرمپ اور کانگرس کے درمیان اختلافات کے باعث امریکی شٹ ڈاون کو 30دن سے بھی زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے۔ امریکہ میں شٹ ڈاون کا مطلب ہو تا ہے کہ امریکی کانگرس وفاقی اخراجات کے لئے فنڈز کو روک دے۔ ٹرمپ میکسیکو کی سر حد پر دیوار بنانے کے لئے کا نگرس سے.7 5ارب ڈالرز کی رقم مانگ رہے ہیں مگر کانگرس اس کے لئے راضی نہیں۔ امریکی آئین کے آرٹیکل 1کے مطابق فنڈز کی تقسیم کا اختیار کا نگرس کے پاس ہے۔
امریکی صدر کے پاس اس حوالے سے آئینی اختیارات نہیں ہیں۔کانگرس پہلے سے ہی، جن شعبوں کے لئے رقم مختص کر چکی ہو صدر ایسی رقم کو اور مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا مجاز نہیں ہو تا
یہ امریکی تاریخ کا طویل ترین شٹ ڈاون ہے اس سے پہلے بل کلنٹن کے دور میں جنوری 1996ء میں 21روز کا شٹ ڈاون ہوا تھا۔ موجودہ شٹ ڈاون کے باعث وفاقی شعبوں میں کام کرنے والے800,000ملازمین کی تنخواہیں اور اجرتیں بھی رک چکی ہیں۔اور وفاقی شعبوں کے تمام کام بھی رکے ہوئے ہیں۔ 8جنوری کو ٹی وی پر خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر ٹرمپ نے دھمکی دی کہ وہ اپنے خصوصی اختیا رات کا استعمال کرتے ہوئے ایمر جنسی کا نفاذ بھی کر سکتے ہیں۔
ایمر جنسی کی صورت میں ٹرمپ کو ایک طرح سے آمرانہ اختیارات مل جا ئیں گے ۔ وہ اپنے سیاسی مقاصد کے لئے امریکی افواج کو بھی استعمال کر پائیں گے اور میکسیکو کی سرحد پر دیوار بھی تعمیر کر واپائیں گے،مگر امریکہ میں نہ ہی میڈیا اور نہ ہی اپوزیشن جماعت ڈیمو کر یٹک پا رٹی نے ٹرمپ کی اس دھمکی کے خلاف کوئی مزاحمت دکھائی ہے۔ 9/11کے واقعہ کو بنیاد بنا کر جہاں امریکی حکمران طبقات نے ایک طرف جنگوں کا آغاز کیا تو وہیں دوسر ی طرف امریکہ کے اندر بھی شخصی اور جمہوری آزادیوں کو ختم کر نے کی کوشش کی۔
’’نیو یارک ٹائمز ‘‘ اور ’’ واشنگٹن پوسٹ‘‘ سمیت اہم امریکی اخبارات میں ایسے تجز یے سامنے آرہے ہیں کہ ٹرمپ کا اصل مقصد میکسیکو کے گرد دیوار بنانا نہیں ہے ،بلکہ صدارتی اختیارات میں اضافہ ہے ٹرمپ اپنی کئی تقر یروں میں اس خواہش کا اظہار کر چکے ہیں کہ امریکہ کے مسائل کے حل کے لئے صدر کے پاس مزید اختیارات ہونے چا ہئیں۔امریکہ میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے اس سے امریکہ کی200سال سے زائد کی آئینی روایات اور اصول بری طرح سے متا ثر ہو رہے ہیں ۔امریکہ کے با نیوں نے آئین کی تشکیل کے وقت اس بات کا خاص خیال رکھا تھا کہ انتظامیہ(صدر)، مقننہ(کانگرس) اور عدلیہ(امریکی سپریم کورٹ) ان میں سے کسی ادارے کے پاس کلی طا قت نہ آئے اور یہ ادارے ایک دوسرے پر’’ چیک اینڈ بیلنس‘‘ بھی رکھ پا ئیں۔ٹرمپ کے دور سے پہلے ہی ڈیموکریٹس اور ری پبلک ادوار میں صدرکے اختیارات میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا تھا۔گزشتہ بیس سال میں امریکی کا نگرس کی حتمی منظوری کے بغیر کئی جنگیں کی گئیں،قانونی تقاضوں کو پورا کیے بغیر کئی گرفتاریاں کی گئیں،حتیٰ کہ لوگوں کو ہلاک بھی کر وایا گیا۔سابق امریکی صدر جارج بش نے Patriot Actمنظور کر وایا، غیر معینہ مدت کے لئے گرفتاریوں کے قوانین منظور کیے گئے،تشدد اور جاسوسی کو بھی قانونی جواز بخشے گئے۔
یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ امریکی صدر جو فوج کا بھی کما نڈر انچیف ہے اس کے پاس لا محدود اختیارات ہیں۔اوباما دور میں بھی بش کے دور کی روایات کو بر قرار رکھا گیا ، شہریوں کو دہشت گرد ہونے کے شبے کی بنا پر ہلاک کرنے کا قانونی جواز فراہم کیا گیا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں پا کستان ، افغا نستان، یمن اور شام سمیت کئی ممالک میں ڈرون حملوں کے ذریعے کتنے سو افراد کو ان کی زندگیوں سے محروم کیا گیا۔اور اب ٹرمپ نے واضح انداز میں ’’ایمر جنسی ‘‘ نا فذ کرنے کی دھمکی دے دی۔
اگر ٹرمپ نے ایمر جنسی کا نفا ذ کر دیا ہو تا تو امریکہ میں صدارتی آمریت کی ایک نئی نظیر بن جا تی۔اس نئے نظام میں افواج کے لئے وسائل اور فنڈز کی تقسیم کا اختیار کانگرس سے نکل کر صدر کے ہا تھوں میں آجاتا۔جب ٹرمپ، کا نگرس کویہ باور کر وانے میں نا کام رہے کہ ان کو میکسیکو کی سرحد پر دیوار بنانے کے لئے مطلوبہ فنڈز جا ری کیے جائیں تو انہوں نے وائٹ ہا وس میں عہدے داروں کے ساتھ مشاورت کے بعد ایمر جنسی لگانے کا شوشہ چھوڑ دیا ۔ ٹرمپ کو اچھی طرح معلوم تھا کہ ایمر جنسی سپریم کورٹ میں چیلنج ہو جا ئے گی اور شاید سپریم کورٹ ایمر جنسی کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دے مگر ٹرمپ اپنے حامیوں کویہ جتلانے میں کامیاب ہو جا تے کہ انہوں نے امریکہ میں ایمیگرنٹس کا راستہ روکنے اور میکسیکو کی سرحد پر دیوار بنانے کی بھرپور کوشش کی مگر ان کو کامیاب نہیں ہونے دیا گیا۔
اب جہاں تک میکسیکو کی سرحد پر دیوار بنانے کا تعلق ہے تو تجزیہ نگا روں کے مطابق اس بارے میں ایمر جنسی کا نفاذاسلئے نہیں کیا جا سکتا ، کیونکہ چندسال پہلے تک میکسیکو سے امریکہ داخل ہونے والوں کی تعدادلا کھوں میں ہوتی تھی، 2000ء کے بعد سے سالانہ دس لا کھ افراد کو میکسیکو سے غیر قانونی طور پر امریکہ داخل ہونے پرگر فتار کیا جا تا تھا،مگر2017ء میں یہ تعداد چار لاکھ رہ گئی تھی۔ٹرمپ دوسال سے امریکہ کے صدر ہیں اور انہوں نے کبھی میکسیکو اور امریکہ کی سرحد پر ایمر جنسی نا فذ کرنے کی کوشش نہیں کی، حالانکہ نومبر2018ء سے پہلے ٹرمپ کے پاس کا نگرس میں اکثر یت بھی تھی۔
امریکی جمہوری نظام کے موجودہ بحران کی جڑ میں ایک بنیادی مسئلہ یہ بھی ہے کہ امریکہ میں ایک طرف چھوٹی سی اقلیت ہے جس کا شمار امریکی اشرافیہ میں ہو تا ہے جو ارب پتی افراد پر مشتمل ہے، جس کے پاس مزید دولت پیدا کرنے کے وسائل بھی موجود ہیں اور اسی طبقے کے ہاتھ میں طاقت بھی ہے، جبکہ دوسری طرف اکثریت ہے جو سرمایہ داروں کے لئے دولت تو پیدا کر رہی ہے مگر خود اس دولت سے اس طرح مستفید نہیں ہو رہی جیسے اشرافیہ،رئیل اسٹیٹ اور کیسینو کا ارب پتی بزنس مین۔ ٹرمپ امریکہ کے اسی نظام کی پیدا وار ہے۔
’’ڈیمو کریٹک پارٹی‘‘ بھی زیادہ مختلف نہیں یہاں ایک طرف امریکی معیشت کے گڑھ ’’وال سٹریٹ‘‘ کا نمائندہ ڈیمو کریٹک سنیٹر چارلس شکمرہے تو دوسری طرف امریکی ایوان نمائندگان کی ڈیمو کریٹک سپیکر نینسی پیلوسی ہے جو رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے اتنی امیر ہوچکی ہے کہ اس کی جائیداد 100ملین ڈالر زسے بھی زیادہ کی ہوچکی ہے۔امریکہ کے اس بحران میں امریکی صدر ٹرمپ کو سب سے بڑا چیلنج نینسی پیلوسی کی جانب سے ہی مل رہا ہے مگر غور کیا جائے تو ٹرمپ اور نینسی پیلوسی کے معاشی اور سماجی مفادات بالکل ایک جیسے ہیں۔
امریکہ چونکہ عالمی سرمایہ داری نظام کا سرخیل ہے اس لئے جہاں ایک طرف امریکہ اس بحران کے باعث متا ثر ہو رہا ہے وہیں پر کئی اور ممالک بھی بری طرح متا ثر ہو رہے ہیں ۔برطانیہ اور فرانس کا موجوہ بحران اس کی اہم مثا لیں ہیں۔
موجودہ عالمی سرما یہ داری نظام سراسر حرص، لالچ اور لوٹ کھسوٹ پر مبنی نظام ہے اور اس نظام نے سیاست کو بھی اپنے مفادات کے تحت ہی تر تیب دیا ہوا ہے۔اسی نظام کے غیر منصفانہ کردار کے باعث جہاں ایک طرف اکثرممالک سیاسی عدم استحکام اور سما جی بے چینی کا شکار ہورہے ہیں تو دوسری طرف آج امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ جیسے مسخرے، بھارت میں مودی جیسے فاشسٹ اور یورپ میں دائیں بازو کی انتہا پسند قوم پرست جماعتیں عام لوگوں کے مسائل پر جذبا تیت کو بھڑ کا کر مقبول ہو رہی ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس نظام کو سمجھا جا ئے جس کے اندر رہتے ہوئے وسائل کی منصفانہ تقسیم ممکن ہی نہیں۔