خیبرپختونخوا کے 3 وزرا کی برطرفی لیکن دراصل وفاقی کابینہ کے کس اہم عہدیدار نے وزیراعظم کوراضی کیا؟ بڑا دعویٰ

خیبرپختونخوا کے 3 وزرا کی برطرفی لیکن دراصل وفاقی کابینہ کے کس اہم عہدیدار نے ...
خیبرپختونخوا کے 3 وزرا کی برطرفی لیکن دراصل وفاقی کابینہ کے کس اہم عہدیدار نے وزیراعظم کوراضی کیا؟ بڑا دعویٰ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور (تجزیہ:نعیم مصطفے) خیبرپختونخوا کے سینئر وزیر سمیت تین صوبائی وزراءکی کابینہ سے فراغت کے ماسٹر مائینڈ وفاقی وزیر دفاع، سابق وزیراعلیٰ کے پی کے پرویز خٹک ہیں، جنہوں نے وزیراعظم عمران خان کو مذکورہ وزراءکی صوبائی حکومت کے خلاف مبینہ سازش سے آگاہ کیا اور اس بات پر قائل کیا کہ انہیں فارغ نہ کیا گیا تو صوبائی حکومت کی رٹ ختم ہو جائے گی اور ریشہ دوانیوں میں اضافہ ہوگا۔

اس فیصلے کے بعد جہاں پرویز خٹک نے اپنی طاقت کا لوہا منوایا وہاں وزیراعلیٰ محمود خان کو بڑا سہارا فراہم کرنے میں بھی کامیاب ہوگئے، یوں پی ٹی آئی میں خیبر کے دو متحارب سیاسی گروپوں میں طاقت کی کھینچا تانی کا 6سال بعد ڈراپ سین ہوگیا۔

26جنوری 2020ءکو ہفتہ وار چھٹی کے دن کیا گیا فیصلہ عجلت میں نہیں کیا گیا بلکہ اس کے پس منظر میں 2013ءکے الیکشن کے بعد خیبر پختونخوا میں تشکیل پانے والی پی ٹی آئی حکومت کی طویل داستان پوشیدہ ہے، جس کے بارے میں واقفان حال کا کہنا ہے کہ صوبائی وزیراعلیٰ کی نامزدگی کے حوالے سے پرویز خٹک اور اسد قیصر بنی گالہ میں پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کے ساتھ بیٹھے تھے تو دونوں نے اپنے آپ کو وزارت اعلیٰ کا مضبوط امیدوار ظاہر کیا اور دونوں عہدہ لینے پر اصرار بھی کرتے رہے، عمران خان یہ کہہ کر وہاں سے چلے گئے کہ میں ایک ضروری کام جا رہا ہوں آپ دونوں آپس میں معاملات طے کرلیں اور میری واپسی پر مجھے فیصلے سے آگاہ کیا جائے۔

اس حوالے سے پرویز خٹک اسد قیصر کو منانے میں کامیاب ہوگئے اور اپنے قائد سے کہا کہ میں وزیراعلیٰ کا امیدوار ہونگا، پھر عاطف خان نے پرویز خٹک کو سی ایم تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ میں زیادہ مضبوط امیدوار ہوں اس پر پارٹی کے اندر ووٹنگ بھی کروائی جاسکتی ہے۔ پارٹی قائد نے فیصلہ کیا کہ پہلے ڈھائی سال پرویز خٹک وزیراعلیٰ ہونگے اور اگلے ڈھائی سال عاطف خان کو وزیراعلیٰ بنا دیا جائے گا۔

معاملہ حل ہوگیا لیکن ڈھائی سال گزرنے کے بعد پرویز خٹک اپنا مضبوط گروپ بنانے میں کامیاب ہوگئے اور وزارت اعلیٰ چھوڑنے سے انکار کردیا جس کے بعد عاطف خان اور پرویز خٹک میں پوری حکومت کے دوران مسلسل سرد جنگ جاری رہی۔ 2018ء کے انتخابات میں پرویز خٹک نوشہرہ سے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی دونوں نشستوں پر کامیاب ہوئے، وہ اس مرتبہ بھی وزارت اعلیٰ کے خواہشمند تھے لیکن قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کی نشستیں محدود ہونے کے باعث عمران خان نے انہیں صوبائی اسمبلی کی نشست چھوڑنے پر مجبور کیا۔ جس کے بعد عاطف خان نے اپنے آپ کو وزارت کے طاقتور امیدوار کے طور پر پیش کیا لیکن پرویز خٹک نے ناصرف محمود خان کا نام پیش کردیا بلکہ عمران خان کو اس نام پر راضی بھی کرلیا۔

محمود خان صوبائی سیاست میں زیادہ طاقتور نہیں تھے اور ان کی رسائی محض پرویز خٹک تک تھی لیکن عاطف خان جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی جیسے پی ٹی آئی کے سرکردہ رہنمائوں سے اچھے مراسم بھی رکھتے تھے، انہوں نے اپنے لئے بھرپور لابنگ کی۔ معاملہ عمران خان تک پہنچا تو انہوں نے پھر محمود خان اور عاطف خان میں ڈھائی ڈھائی سال کا فیصلہ کروا دیا، گزشتہ ماہ عاطف خان اور ان کے دیگر کلوز ساتھیوں نے اس قسم کی گفتگو محفلوں میں شروع کر دی کہ اب ہماری باری آنے والی ہے،

اس پر وزیراعلیٰ محمود خان نے عاطف خان اور ان کے اقربا کے قلمدان تبدیل کئے اور اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ گزشتہ روز انہیں کابینہ سے ہی فارغ کردیا گیا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ عاطف خان، شہرام تراکئی اور شکیل احمد پر صوبائی حکومت کے خلاف سازش کرنے، کابینہ کے فیصلوں سے انحراف، حکومت کیلئے مشکلات پیدا کرنے اور پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی جیسے سنگین الزامات بھی عائد کئے گئے۔

معلوم ہوا ہے کہ کابینہ سے ان وزراءکی فراغت محمود خان کا فیصلہ نہیں بلکہ دراصل یہ فیصلہ پرویز خٹک نے کیا ہے جس پر انہوں نے وزیراعظم کو لمحہ بہ لمحہ باخبر بھی رکھا اور اپنے فیصلے کی باقاعدہ منظوری بھی حاصل کی۔ دوسری جانب صوبائی کابینہ کے دیگر اراکین کو اس فیصلے کی کانوں کان خبر تک نہ ہونے دی گئی، محض اعلان کے لئے دو گھنٹے قبل صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی کو بلا کر محمود خان نے اس بارے میں آگاہ کیا۔ گورنر شاہ فرمان نے آئین کے آرٹیکل 132کے سیکشن تھری کے تحت جو نوٹیفکیشن جاری کیا اس حوالے سے انہیں بھی اتوار کو ہی بتایا گیا۔

پرویز خٹک کے بارے میں وزیراعظم عمران خان کو یہ کامل یقین ہے کہ وہ جس بھی محاذ پر جاتے ہیں یا جو فیصلہ کرتے ہیں وہ کامیابی سے سوفیصد ہم کنار ہوتا ہے۔ پی ٹی آئی حکام کا اس حوالے سے موقف ہے کہ مولانا فضل الرحمن کا دھرنا ہو، ایم کیو ایم سے مذاکرات کا معاملہ یا بلوچستان میں اختلافات ختم کرانے کی بات، پرویز خٹک کو ہر مذاکراتی کمیٹی یا وفد کا قائد بنایا گیا جہاں وہ حکومتی فتح کا باعث بنے۔ اب یہ کہا جا رہا ہے کہ پرویز خٹک پی ٹی آئی کی وفاقی اور صوبائی حکومت کی باقاعدہ مجبوری بن چکے ہیں اس لئے عمران خان سمیت پوری پارٹی کو ان کے فیصلوں پر آمین کہنا پڑتا ہے۔

خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت کا حالیہ فیصلہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ عاطف خان یا ان کے گروپ میں شامل دیگر اراکین اسمبلی آنے والے دنوں میں کیا ردعمل ظاہر کرتے ہیں، یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ قومی اسمبلی میں بھی عاطف خان کے تین چار حمایتی موجود ہیں ان کی طرف سے بھی کوئی رد عمل آنے کا امکان ہے۔ گزشتہ دور حکومت میں شروع کئے گئے بی آر ٹی منصوبے کے حوالے سے آج کل جو تنقید ہو رہی ہے یا ایف آئی اے اور نیب میں جو سرگرمی دیکھنے میں آرہی ہے اس میں بھی عاطف خان یا ان کے ساتھیوں کی محنت شامل ہے کیونکہ اس منصوبے میں مبینہ کرپشن کی تحقیقات کا مرکز ی کردار پرویز خٹک کو ہی سمجھا جا رہا ہے۔