ہم کب تک ایسا کریں گے!
جیمز ایڈون ویب ایک امریکن تھا،وہ7 اکتوبر 1906ء کو پیدا ہوااوراپنی تعلیم کے بعد اس نے امریکہ کے ریسرچ سنٹرناسا میں شمولیت اختیار کی۔ جیمز ایڈون ویب نے ناسا میں تقریباً اپنی ساری زندگی ہی تحقیق میں گزار دی اور خاص طور پر آٹھ سالSecond Appointed Adminstrator of NASA کے طور پر اپنی خدمات انجام دیتا رہا۔ ناسا پوری دنیا میں تحقیق و جستجو میں اپنا لوہا منوا چکا ہے اور خاص طور پر خلا یعنی کائنات کے راز جاننے، کہکشاؤں، سیاروں، ستاروں، سورج، چاند،گلیکسی اورایل ین کی کھوج میں کوشش کر رہا ہے۔ آپ ناسا کی بنائی ہو ئی ہبل سپیس ٹیلی اسکوپ کو ہی دیکھ لیں جو کہ ایک بہت ہی نایاب اور اعلیٰ ٹیلی ا سکوپ اُبھر کر سامنے آئی اور اس نے پوری کائنات کو دیکھنے کا نظریہ ہی تبدیل کر کے رکھ دیا۔ ہبل تیس سال پہلے1990ء میں خلا میں بھیجی گئی اور اس نے اپنے کام سے سب کو حیران کر دیا۔ اس نے بگ بینگ تھیوری کا انکشاف کیا، بے شمار سیاروں، ستاروں اور کہکشاؤں کو آشکار کیا اور اس کے ساتھ ساتھMilky Way کا نظریہ بھی پیش کیا۔
ہبل نے بتایا کہ ہماری Milky Way کی طرح اس کائنات میں بے شمار اَن گنت Milky Way موجود ہیں اور ہر چیز اس کائنات میں حرکت کر رہی ہے۔ ہبل ہماری دنیا یعنی زمین کے گولے سے تقریباََ 547کلومیٹر اوپر حرکت پذیر ہے اور اس کے دیکھنے کی صلاحیت دس سے پندرہ بلین Light years تک دُور کسی بھی چیز کا عکس اپنے کیمروں کے ذریعے نیچے ہیڈ آفس ناسا میں د کھا دیتی ہے۔ ہبل کو بنیادی طور پر Visible Light کے لئے بنایا گیا تھا اور اس میں جو شیشے اور کیمرے استعمال ہوئے ہیں وہ صرفVisible Light کے عکس کو ہی دکھا سکتے ہیں۔ اب مَیں جس ٹیلی اسکوپ کی بات کر نے جارہا ہوں اُس پر تقریباً 1996ء سے کام ہو رہا ہے اور اس میں دنیا کے سب سے بہترین چار خلائی ادارے (NASA,ESA,CSA,STSc)مل کر کام کر رہے ہیں۔ اس جدید ٹیلی اسکوپ کا نام”جیمز ویب سپیس ٹیلی اسکوپ“ ہے اوراس جدید ٹیلی اسکوپ میں ہبل کے مقابلے میں بے شمار اعلیٰ ٹیکنالوجی کی چیزیں استعمال کی گئی ہیں۔ ہماری کائنات میں بے شمار مختلف قسم کی گیسیں موجود ہیں مثال کے طور پر,Oxygen,Infrared rays Ultraviolet rays,Mid infrared rays اورDust gases وغیرہ۔ ہبل صرف Visible Light پر ہی کام کرتی ہے، جبکہ ”جیمز ویب سپیس ٹیلی اسکوپ“خاص طور پر باقی ان تمام گیسوں کے لئے بنائی گئی ہے۔ تاکہ یہ جدید ٹیلی اسکوپ پوری کائنات کو انسان کے سامنے ایک ہاتھ کی ہتھیلی کی طرح دکھا سکے۔
اس ٹیلی اسکوپ میں بہت ہی جدید MicroShutter Technology استعمال کی گئی ہے اور ساتھ اس میں 48gm سونے کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔ یہ ہماری زمین سے اوپر تقریباً 15 لاکھ کلومیٹر دُوری پر سورج کے گرد چکر لگاتے ہوئے کائنات کے تمام رازوں سے پردہ اُٹھائے گی۔ اس ٹیلی اسکوپ کو بنانے کا اصل مقصد چند سوالوں کا جواب تلاش کرنا ہے، جس میں یہ کائنات کیسے وجود میں آئی؟ اس کائنات میں سیارے اور ستارے کتنے ہیں؟ ان میں زندگی کن کن سیاروں اور ستاروں میں آباد ہے اور مستقبل میں زندگی کہاں کہاں وجود میں آسکتی ہے؟ سب سے اہم سوال کہ ایل ین اس وقت دنیا میں کن کن سیاروں اور ستاروں میں موجود ہیں وغیرہ۔ اس ٹیلی اسکوپ میں ایسے حساس کیمروں کو نصب کیا گیا ہے جو ان سب چیزوں کو دکھا سکتے ہیں اور ہمیں تقریباََ 3 بلین Light years پیچھے جو کچھ ہوا اُس سب کا مشاہدہ کروا دیں گے۔ دس بلین ڈالرز سے بنی یہ ٹیلی ا سکوپ مارچ 2021ء میں خلا میں بھیج دی جائے گی اور2030ء کو ہبل اس دنیا میں اُتار لی جائے گی۔
اب مَیں اپنے اصل موضوع کی طرف آتا ہوں جدید ٹیلی اسکو پ جیمز ویب کا نام پہلے جیمز ویب نہیں،بلکہNext Generation Space Telescope (NGST) تھا مگر امریکن اداروں نے جیمز ایڈون کی خدمات کی بنا پر اس ٹیلی اسکوپ کو اپنے ہیرو کے نام سے منسوب کرتے ہوئے اس کو جیمز ویب سپیس ٹیلی اسکوپ کا نام دے دیا۔ آپ دنیا کی کوئی بھی کامیاب تہذیب اُٹھا لیں یا پھر کسی بھی ترقی یافتہ ملک کی تاریخ پڑھ لیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ انھوں نے ہمیشہ اپنے ہیروز کو سر آنکھوں پر بٹھایا اور عزت و احترام سے نوازا۔ آپ اپنے پاکستان کے ہیروز کی تاریخ پڑھ لیں کہ ہم ان کے ساتھ کیا کرتے ہیں، مثال کے طور پر ایٹمی طاقت کے ہیرو نے کراچی یونیورسٹی سے فزکس کی ڈگری، ہالینڈ سے ماسٹرز آف سائنس، بلجیم سے ڈاکٹریٹ آف انجینئرنگ کی ڈگری اور تقریباََ پندرہ سال یورپ میں رہنے کا Exposure شامل ہے۔
چاہئے تو یہ تھا کہ ہماری حکومت تمام یونیورسٹیوں، کالجوں اور ریسرچ سنڑز کے لیے ان کو چیئرمین نامزد کر کے پاکستان کے تمام تعلیمی اداروں اور ریسرچ سنڑزکو ان کے حوالے کر دیا جاتا، مگر معاملہ بالکل ہی اس کے برعکس نظر آتا ہے۔ اکثر جب میڈیا پر اُن کا انٹرویو سنتا ہوں تو دل خو ن کے آنسو روتا ہے کہ ہم کتنے ظالم لو گ ہیں۔کبھی کبھی میں سو چتا ہوں کہ ہم کب تک اپنے ہیروز کو پورے معاشرے میں ذلیل و رُسوا کرتے رہیں گے، ہم کب تک اُن کی آبرو کو سرعام ِبازا ر میں نیلام کرتے رہیں گے،ہم کب تک ایسا کریں گے……!