فواد عالم کی سنچری، پاکستان کا پلڑا بھاری
کراچی ٹیسٹ کے پہلے روز ہی چودہ وکٹیں گرنے سے میچ کے نتیجہ خیز ہونے کا یقین تو سب کو ہوگیا۔ پاکستانی باؤلرز یاسر شاہ اور شاہین شاہ آفریدی نے بہترین باؤلنگ کی، خاص کر ڈیبیو کرنے والے لیفٹ آرم سپنر نعمان علی نے دو وکٹوں اور کم اکانومی کے باعث اپنا چناؤ درست ثابت کیا جس کے بعد تجربہ کار آرتھوڈکس سپنر سے دوسری اننگز میں بھی عمدہ باؤلنگ کی توقع بندھ گئی ہے۔
پہلے دن کےاختتام پر جنوبی افریقہ نے چار وکٹیں حاصل کرکے میچ پر اپنی گرفت مضبوط کی تھی تو ایسے میں پاکستان کے پاس واحد راستہ دوسرے دن مثبت کرکٹ کھیلتےہوئےبڑی پارٹنرشپس قائم کرنا تھا۔اظہرعلی اورفوادعالم سےمیچور کرکٹ اور بڑی پارٹنرشپ کی توقع تھی جس پردونوں بلے باز پورا اترے۔ دوسرے روز 94 رنز کی پہلی شراکت اظہر علی اور فواد عالم کے درمیان قائم ہوئی ،اسی طرح فواد عالم اور فہیم اشرف کے درمیان سنچری پارٹنرشپ نے پورے میچ کا نقشہ ہی بدل ڈالا۔دوسرے روز کی سب سے خاص بات فواد عالم کی اپنے ہوم گراؤنڈ پر پہلی ٹیسٹ سنچری جبکہ مجموعی طور پر ان کی تیسری سنچری تھی۔
فواد عالم کی قومی ٹیم میں واپسی کے بعد ان کی تیسرے ٹیسٹ میچ میں دوسری سنچری ہے جس کے بعد سے ان کے شدید ناقدین بھی اب ان کی تعریف کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ محض آٹھ ٹیسٹ میچوں میں 42 کی ایوریج کے ساتھ پانچ سو سے زائد رنز بنانے والے فواد عالم کی قومی ٹیم میں ایک دہائی کے بعد واپسی ہمارے کھلاڑیوں کے سلیکشن عمل پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔خاص کر جب ایک کھلاڑی پرفارمنس دیتا ہوا یک دم منظر سے غائب ہو جائے اور پھر یہی نہیں 2013ء سے مسلسل فرسٹ کلاس کرکٹ میں بہترین 56 سے زائد ایوریج کے ساتھ قومی کرکٹ ٹیم کی سلیکشن کے لیے دروازہ کھٹکھٹاتا رہے اور پھر بھی سلیکٹرز کے کانوں پر جوں تک نہ رینگے، کسی بھی کھلاڑی کے لیے یہ بالکل آسان کام نہیں۔
حال ہی میں محمد عامر اپنی سلیکشن کے حوالے سے اسی بات کا رونا روتے نظر آئے اور مجبوراً کرکٹ سے ریٹائرمنٹ جیسا بہت بڑا فیصلہ کربیٹھے۔ اب معین خان جیسےسینئر کرکٹرز بھی ڈومیسٹک کرکٹ کےٹاپ پرفارمرز کی سلیکشن کے عمل پر اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں اورانہیں مواقع دینے کےلیےتوانا آواز بلند کرچکے ہیں،جس کے بعد اب وقت آگیاہےکہ قومی ٹیم کی سلیکشن کےدوران ذاتی پسند ناپسندکاسلسلہ ختم کیاجائے،ملک میں موجودبےانتہا نوجوان ٹیلنٹ کو ایسے ضائع ہونے سے بچایا جائے اور انہیں سامنے لایا جائے۔
اتنے وقفے کے بعد موقع دینے پر پہلے ہی ٹیسٹ میں سنچری سکور کرنے اور پھر تیسری ٹیسٹ میں مشکل پچ پر ہوم گراؤنڈ ایڈوانٹیج کے ساتھ ساتھ پریشر بھی برداشت کرتےہوئے ایک ایسی عمدہ اور یادگار اننگز کھیلنا ہر کھلاڑی کے بس کی بات نہیں۔اس اننگز پر فواد عالم کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ مشکل وکٹ پر ہوم گراؤنڈ پچ کے ایڈوانٹیج کے باعث فواد عالم تو پر اعتماد تھے ہی مگر فہیم اشرف کی سٹروکس سے بھرپور اننگز نے پاکستان کے لیے ایک اچھی برتری قائم کرنے کا موقع پیدا کیا۔
پاکستان کی طرح جنوبی افریقہ کی فیلڈنگ بھی معیار کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان اپنی برتری 88 رنز تک لے جانے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ دن کے اختتام پر حسن علی کو ملنے والے چانسز کے بعد حسن علی کو دفاعی حکمت عملی کے بجائے نیچرل گیم کھیلتے ہوئے اپنی قائد اعظم ٹرافی کی فارم دوبارہ دکھانا ہوگی۔ دن کا اچھا آغاز کرکے اگر پاکستان اپنی برتری ڈیڑھ سو تک لے جاتا ہے تو یقیناً جنوبی افریقی بیٹنگ لائن کو اس پچ پر کم رنز پر آؤٹ کرکے پہلے ٹیسٹ میچ میں با آسانی کامیابی سمیٹ سکتا ہے۔ اس کے لیے حسن علی اور یاسر شاہ کو تھوڑی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک اچھی پارٹنرشپ قائم کرنا ہوگی پھر ہی جیت پاکستان کا مقدر ٹھہرے گی۔