وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ بار کی پریس ریلیز کو مسترد کردیا

 وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ بار کی پریس ریلیز کو مسترد کردیا
 وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ بار کی پریس ریلیز کو مسترد کردیا
سورس: File Photo

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)وفاقی حکومت و وزارت قانون و انصاف کی طرف سے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جاری پریس ریلیز کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ فوجداری قوانین میں اصلاحات میں مشاورت نہ کرنے کا پراپیگنڈہ سراسر گمراہ کن ہے،سپریم کورٹ بار اور دیگر بار ایسوسی ایشنز کو خطوط لکھے تاہم کسی نے کوئی جواب نہیں دیا ۔
جمعرات کی شام وزارت قانون انصاف کی طرف سے جاری ایک وضاحت میں بتایا گیا ہے کہ وفاقی حکومت سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی طرف سے جاری کردہ پریس ریلیز کو مسترد کرتی ہے،یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ وکلا، بار ایسوسی ایشنز اور بار کونسلز سے فوجداری قوانین میں اصلاحات کے حوالے سے مشاورت نہیں کی گئی,دو خطوط کے ساتھ فوجداری اصلاحات کی مکمل دستاویز پاکستان بار کونسل، تمام صوبائی بار کونسلز، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور ملک کی تمام ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشنز کو بھیجی گئی اور درخواست کی گئی کہ وہ اپنی رائے دیں تاہم، آج تک کسی نے بھی کوئی ان پٹ نہیں دیا، جس سے قانون کے ابتدائی اصول کے مطابق یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے پاس شامل کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے اور وہ فوجداری اصلاحات کی دستاویز سے خوش ہیں۔

وزارت قانون انصاف کی جانب سے کہا گیا ہے کہ یہ کہنا کہ وکلا، بار ایسوسی ایشنز اور بار کونسلز سے فوجداری قوانین میں اصلاحات کے حوالے مشاورت نہیں کی گئی سراسر گمراہ کن ہے،سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی نام نہاد پریس ریلیز میں فوجداری اصلاحات میں کسی کمزوری کی نشاندہی نہیں کی گئی،سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور اس کے کردار پر تبصرہ کیے بغیر، وزارت قانون و انصاف اور وفاقی حکومت کا خیال ہے کہ پاکستان کی وکلاءبرادری وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف بیرسٹر ڈاکٹر فروغ نسیم کا شکریہ ادا کرتی ہے،پاکستان کے قیام کے بعد گزشتہ سات دہائیوں سے زائد عرصے میں پہلی بار فوجداری نظام انصاف میں وسیع پیمانے پر اصلاحات کی تجاویز پیش کی گئی ہیں،یہ وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم کی جانب سے ایک حقیقی اور مخلصانہ کوشش ہے۔پاکستان پینل کوڈ 1860ء کا ہے جبکہ ضابطہ فوجداری 1898ء کا ہے۔دونوں ضابطوں میں قدیم دفعات شامل ہیں، جنہیں وفاقی وزیر قانون، ڈاکٹر فروغ نسیم کی تجویز کردہ ترامیم کے ذریعے بڑی حد تک تبدیل کیا گیا ہے۔ان کی مجوزہ اصلاحات فوجداری انصاف کے نظام کی اصلاح کریں گی اگر ان کو موثر طریقے سے اور ایمانداری سے لاگو کیا جائے۔

مجوزہ اصلاحات خواتین اور بچوں سمیت معاشرے کے کمزور طبقات کے لیے انصاف تک فوری اور آسان رسائی پر مرکوز ہیں۔جو لوگ ان اصلاحات کی مخالفت کر رہے ہیں وہ پاکستان کے عوام بالخصوص معاشرے کے کمزور طبقات کے ساتھ مخلص نہیں ہیں،یہ نام نہاد ناقدین یا تو نااہل ہیں یا اپنے ہی ملک کے ساتھ ایماندار نہیں ہیں بلکہ وہ فوجداری انصاف کے موجودہ غیر موثر نظام کو اس کی موجودہ شکل میں جاری رکھنے کی خواہش کر کے جمود کی قوتوں کی حمایت کر رہے ہیں۔

مجوزہ اصلاحات معاشرے کے تمام طبقات کے ساتھ ناانصافیوں کا ازالہ کریں گی اور عام آدمی کو فوری ریلیف فراہم کریں گی،مجوزہ اصلاحات سماجی یا طبقاتی تفاوت سے قطع نظر انصاف تک مساوی رسائی کو یقینی بنائیں گی،سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے یہ بھی کہا ہے کہ پارلیمانی کمیٹی برائے قانون و انصاف سے مذکورہ کرمنل ریفارمز پر مشاورت نہیں کی گئی جو کہ انتہائی قابل مذمت ہے،ہم میں سے جن کے پاس معمولی علم ہے وہ جانتے ہوں گے کہ فوجداری قانون میں اصلاحات سب سے پہلے پارلیمنٹ میں پیش کی جائیں گی، اس کے بعد قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں میں قانون و انصاف کی پارلیمانی کمیٹیوں میں اس پر بحث ہوگی۔فی الحال کسی پارلیمانی کمیٹی سے مشاورت کا کوئی موقع نہیں آیا۔

واضح رہے کہ اس سے قبل سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے فوجداری قانون میں ترامیم مسترد کرتےہوئے کہاتھا کہ وزارت قانون و انصاف نےسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بغیر فوجداری ترامیم پیش کیں، ایسی ترامیم سے نظام مزید بوسیدہ ہوجائےگا،وزیر قانون نے ایسی فوجداری ترامیم کر کے اپنی نا اہلی ثابت کی ہے، وزارت قانون کو سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرنا چاہیے تھی، وزارت قانون کی ترامیم محض نظر کا دھوکہ ہیں، فوجداری قوانین کی ترامیم تجویز کرنے کے لیے پارلیمانی کمیٹی سے بھی مشاور ت نہیں کی گئی جو قابل مذمت ہے۔