گردوپیش میں کہیں بھی جا کر دیکھ لیں آزادیٔ تحریر اور آزادیٔ افکار کا صحیح مفہوم سمجھ میں آجائے گا 

گردوپیش میں کہیں بھی جا کر دیکھ لیں آزادیٔ تحریر اور آزادیٔ افکار کا صحیح ...
گردوپیش میں کہیں بھی جا کر دیکھ لیں آزادیٔ تحریر اور آزادیٔ افکار کا صحیح مفہوم سمجھ میں آجائے گا 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 مصنف: ڈاکٹر صائمہ علی
قسط:120
صدیق سالک کی ادبی نثر نے یقینا صدر صاحب کی تقاریر میں وزن پیدا کیا۔ انہوں نے صدر صاحب کے خیالات اور احکامات کو خوبصورت لفظی پیر ہن عطا کیا مثلاً:
”ہمارے ادیبوں اورشاعروں میں بھی ایک گروہ ایسا ہے جو ہر شام کو ”شام الم “ ہر شب کو ”شب تار“ اور ہر صبح کو ”داغدار “ کہتا ہے اگر ان کا مطلب موجودہ حکومت سے ناراضگی اور موجودہ حالات سے ناپسندیدگی کا اظہار کرنا ہے تو وہ بڑی خوشی سے کریں ہم نے تو آج تک کسی کو نہیں روکا لیکن اگر وہ شام الم اور شب تار کا صحیح مشاہدہ کرنا چاہتے ہیں تو میں انہیں ایک بڑا نیک مشورہ دوں گا کہ پاکستان کے گردوپیش میں کہیں بھی جا کر دیکھ لیں انہیں آزادیٔ تحریر اور آزادیٔ افکار کا صحیح مفہوم سمجھ میں آجائے گا وہاں سے واپسی پر میں انشااللہ ان سے پوچھوں گا کہ ”طوق ودار“ کا موسم یہاں ہے یا کہیں اور خنجر بکف لوگ وہاں ہیں یا یہاں ، دارورسن کی فضا ءوہاں قائم ہے یا یہاں مجھے امید ہے یہ ان کا جواب کچھ اور ہوگا۔“
بطور تقریر نویس سالک کے کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے شریف فاروق رقم طراز ہیں:
”ان کا قلم گُل فشانی تحریر کا مرقع تھا ان کی تحریریں ، بالخصوص اُدباءو شعراءکے اجتماعات میں صدر صاحب کے خطابات اردو ادب کے شاہکار قرار دیئے جا سکتے ہیں خیالات کی ندرت فکر کی پختگی اورجذبات کی شدت ان کی تقریروں میں سبھی عوامل و مظاہر موجود ہوتے اور یوں محسوس ہوتا:
 بات جو دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
تقریر اگرچہ صدر ضیاءالحق ہی کرتے تھے لیکن الفاظ کے پردوں سے سالک کا مسکراتا ہوا چہرہ جھانکتا دکھائی دیتا۔“ 
لیکن مقام افسوس ہے کہ صدر کا تقریر نویس ہونے کے باعث سالک کی ادبی حیثیت کو کم کرنے کی کوشش کی گئی۔ تقریر نویس سالک کی وجہ سے ادیب سالک کو نظر انداز کیا گیا بعض ادیبوں اور نقادوں نے انہیں محض صدر کا تقریر نویس سمجھا جو سالک کے ادبی مقام سے زیادتی ہے مثلاً مشکور حسین یاد لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ سالک نے ان سے پوچھا:
”ایک صاحب قلم کی حیثیت سے میں کیسی نثر لکھتا ہوں “ میں نے فوراً جواب دیا آپ صدر پاکستان کے لیے بہت اچھی تقریر یں لکھتے ہیں۔“
ڈاکٹر سلیم اختر کے بقول:
”تذکرہ ان فوجی بھائیوں کا جو منفرد انداز و اسلوب کے حامل مزاح نگار تھے یہ ہیں شفیق الرحمان ، کرنل محمد خان، اور ضمیر جعفری، ویسے مزاح تو صدیق سالک بھی لکھتے تھے لیکن ان کے زور قلم کا یہ حاصل کہ ضیاءالحق کی تقریروں کا رنگ چوکھا ہوا۔ “
صدر کا تقریر نویس ہونا سالک کی ملازمت کا حصہ تھا جس میں ان کی ادبی صلاحیتیں ضرور کام آئیں لیکن یہ سمجھنا غلط ہو گا کہ بس یہی سالک کی ادبی معراج تھی۔بطور تقریر نویس سالک نے ایک سچے مسلمان محب وطن پاکستانی، حساس فنکار اور غیر جانبدار انسان کے جذبات کو پیش کیا جس میں وہ کامیاب رہے۔( جاری ہے ) 
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )

مزید :

ادب وثقافت -