اس طرح کی لعنتی زندگی میں کوئی بیمار ہونے کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے؟

 اس طرح کی لعنتی زندگی میں کوئی بیمار ہونے کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے؟
 اس طرح کی لعنتی زندگی میں کوئی بیمار ہونے کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے؟

  

مصنف : اپٹون سنکلئیر

ترجمہ :عمران الحق چوہان 

 قسط:146

یورگس باہر انتظار کر رہا تھا۔ وہ ماریا کے ساتھ گھر کی طرف چل پڑا۔ وہاں پولیس جا چکی تھی اور اِکا دُکا گاہک آنے بھی شروع ہو گئے تھے۔ شام تک کام اسی طرح چلنے لگے گا جیسے یہاں کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ ماریا، یورگس کو بالائی منزل پر اپنے کمرے میں لے گئی۔ وہ بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔ دن کی روشنی میں یورگس نے دیکھا تھا کہ ماریا کے گالوں پر صحت کا وہ فطری رنگ نہیں رہا تھا جو کبھی ہوا کرتا تھا۔ اس کا رنگ زرد پڑ چکا تھا اور آنکھوں کے گرد حلقے پڑے ہوئے تھے۔

” تم بیمار تھیں؟ “ اس نے پوچھا۔

” بیمار ؟ “ ماریا نے کہا ” اس طرح کی لعنتی زندگی میں کوئی بیمار ہونے کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے؟“ ( رنگ رنگ کے مردوں سے مل کر ماریا کو بات بے بات گالیاں بکنے کی عادت ہو چکی تھی)۔ 

وہ کچھ لمحے کے لیے خاموش ہو کر اداسی سے سامنے دیکھتی رہی۔” یہ مارفین کا اثرہے، “ اس نے وضاحت کی، ” میں کم و بیش روزانہ اس کا استعمال کرتی ہوں۔“

” وہ کس لیے ؟ “ یورگس نے حیران ہو کر پوچھا۔

” پتا نہیں کیوں لیکن یہاں کام ایسے ہی چلتا ہے۔ اگر مارفین نہ ہو تو پھر شراب ہوتی ہے۔ اگر لڑکیاں نشہ نہ کریں تو یہ سب کچھ سہنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ جب وہ پہلی بار آتی ہیں تو میڈم انھیں اس کی خوراک دیتی ہے پھر آہستہ آہستہ انھیں اس کی لت لگ جاتی ہے۔ یا پھر سر درد وغیرہ میں استعمال کرتی ہیں اور پھر اسے پسند کرنے لگتی ہیں۔ مجھے بھی اس کی لت ہے۔ میں نے کئی بار چھوڑنے کی کوشش کی لیکن میں جب تک یہاں ہوں یہ لت نہیں چھوٹے گی۔“

” تم یہاں کب تک رہو گی؟ “ اس نے اگلا سوال کیا۔

” پتا نہیں۔“ ماریا نے جواب دیا، ” شاید ہمیشہ۔ میں اور کر بھی کیا سکتی ہوں؟ “

” تم پیسے نہیں بچاتیں؟ “

” بچت ! “ ماریا نے کہا ” خدا کا خوف کھاؤ، بالکل نہیں۔۔۔ میں کافی کما لیتی ہوں لیکن سب لگ جاتا ہے۔ ہر گاہک کے بدلے مجھے آدھا معاوضہ یعنی اڑھائی ڈالر ملتے ہیں۔ کبھی کبھی میں ایک رات میں پچیس تیس ڈالر بھی کما لیتی ہوں اور تم چاہتے ہو کہ میں اس میں سے بچا بھی لیا کروں! لیکن مجھے کمرے کا کرایہ اور کھانے کے پیسے بھی دینے ہوتے ہیں۔ یہاں چیزوں کی جو قیمتیں ہیں وہ تم سوچ بھی نہیں سکتے۔اس کے علاوہ اضافی اخراجات، شراب وغیرہ۔۔۔ ہر چیز جو مجھے چاہیے یا نہ بھی چاہیے ہو، پیسے سے ملتی ہے۔ میرے ہفتے بھر کے کپڑوں کی دھلائی کا خرچا ہی تقریباً 20 ڈالر بن جاتا۔۔۔ ذرا سوچو! لیکن میں کیا کر سکتی ہوں ؟ یا یہ سب کچھ سہنا ہے یا چھوڑ کر چلے جانا ہے۔ اور جہاں بھی جاؤں گی یہی کچھ ہوگا۔ ہر ہفتے الزبیٹا کو 15ڈالر دینے کے لیے، تاکہ بچے سکول جاتے رہیں، میں یہی کرسکتی ہوں ! “

ماریا کچھ دیر اپنے خیالات میں کھوئی رہی لیکن یورگس کو متوجہ دیکھ کر پھر بولنے لگی۔” یہاں اسی طرح لڑکیاں رکھی جاتی ہیں۔۔۔ وہ انھیں قرضوں میں پھنسائے رکھتے ہیں تاکہ وہ بھاگ نہ سکیں۔ ایک لڑکی دوسرے ملک سے آتی ہے۔ اسے انگریزی کا ایک لفظ نہیں آتا اور وہ ایسی کسی جگہ پھنس جاتی ہے۔ وہ جانا چاہے تو میڈم اسے بتاتی ہے کہ اس کے ذمّے دو، ایک سو ڈالر کا قرضہ ہے۔ اس کے سارے کپڑے اتروا لیے جاتے ہیں اور دھمکی دی جاتی ہے کہ اگر اس نے میڈم کے حکم کے مطابق کام نہ کیا تو اسے گرفتار کروا دیا جائے گا۔ اسے رکنا پڑتا ہے۔ اور وہ جتنی دیر رکتی ہے قرض اتناہی بڑھتا جاتا ہے۔ ان میں سے اکثر لڑکیوں کو پتا ہی نہیں ہوتا کہ وہ کس کام میں پھنسنے جا رہی ہیں۔ انہیں گھر کے کاموں کا کہَہ کر لایا جاتا ہے۔ تم نے وہ چھوٹی سی سنہرے بالوں والی لڑکی دیکھی تھی جو عدالت میں میرے ساتھ کھڑی تھی ؟ 

یورگس نے اثبات میں سر ہلایا۔

” وہ تقریباً ایک سال پہلے امریکا آئی تھی۔ بے چاری سٹور کلرک تھی۔ اسے کسی آدمی نے یہاں فیکٹری میں کام کرنے کا کَہہ کر بھجوایا تھا۔6 لڑکیاں تھیں وہ۔ انہیں یہاں سے قریب ہی ایک گھر میں لایا گیا۔ اس لڑکی کو الگ کمرے میں رکھا گیا۔ اسے کھانے میں نشہ ملا کر دیا گیا اور جب اسے ہوش آیا تو پتا چلا کہ وہ برباد ہو چکی ہے۔ وہ بڑا چیخی چلّائی، اپنے بال نوچے لیکن اب کیا ہو سکتا تھا! اس کے جسم پر صرف ایک چادر تھی، وہ کہیں جا بھی نہیں سکتی تھی۔ اسے ہر وقت نشہ دے کر مدہوش رکھاجاتا تھا۔ آخر اس نے ہتھیار ڈال دئیے۔ وہ 10مہینے تک اس مکان سے باہر نہیں نکلی۔ بعد میں انہوں نے خود ہی اسے نکال دیا، وہ انہیں پسند نہیں تھی۔ میرا خیال ہے اسے یہاں سے بھی نکال دیں گے۔۔۔ افسنتین (absinthe) پینے کی وجہ سے اسے کبھی کبھی پاگل پن کے دورے پڑتے ہیں۔ اس کے ساتھ آنے والی لڑکیوں میں سے صرف ایک باہر نکلنے میں کامیاب ہوئی تھی، اس نے دوسری منزل سے چھلانگ لگا دی تھی۔ کافی شور مچاتھا اس واقعے پر۔ ہوسکتا ہے تم نے بھی سنا ہو۔“( جاری ہے ) 

نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔

مزید :

ادب وثقافت -