زمین پر انسانوں کے لیے جنت کا خواب

زمین پر انسانوں کے لیے جنت کا خواب
زمین پر انسانوں کے لیے جنت کا خواب

  

تحریر: ظفر سپل

قسط:103

”داس کیپیٹل“ کی پہلی جلد کی پیشانی پر اب بھی پرانی کتاب ”کریٹک آن پو لیٹیکل اکانومی“کا نام درج تھا۔ مگر مارکس نے ”داس کیپیٹل“ میں اپنے تجزئے زیادہ گہرائی کے ساتھ ایک ماسٹر ورک کی صورت پیش کئے ہیں اور سب سے اہم تجزیہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام اپنے خلاف خود ہی شہادتیں فراہم کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے، سرمایہ دارانہ نظام میں اپنا نفع اور استعداد بڑھانے کے لیے بورڑوا سرمایہ دار مشینری پر سرمایہ کاری کرتا ہے۔ چھوٹے سرمایہ دار جو اس طرح کی سرمایہ کاری کی صلاحیت نہیںرکھتے، خود بخود دیوار سے لگ جاتے ہیں۔جب یہ صورت حال مزید ترقی کرتی ہے تو بڑے سرمایہ دار کی اجارہ داری (Monoply)قائم ہوجاتی ہے۔ باقی سرمایہ دار طبقے فنا ہو جاتے ہیں۔ مزدوروں کی بے روزگار فوج میں اضافہ ہو جاتا ہے، جو انقلاب کا ہر اول دستے ہوتے ہیں۔ اس طرح آخری نتیجے میں سرمایہ دارانہ نظام اپنی تباہی کا کام خود کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ سرمایہ داری نظام کی بنیاد ہی خود غرضی اور عدم انصاف پر استوار ہوئی ہے۔ وہ ایک مثال دیتے ہوئے کہتا ہے کہ جب ایک کاٹن کی گانٹھ کپڑے کا روپ دھارتی ہے، تو وہ زیادہ قیمت پر فروخت ہوتا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ مزدور کی محنت اس کی قدر(Value)میں اضافہ کرتی ہے۔ لیکن مزدور کو اس اضافہ شدہ قدر کی پوری قیمت ادا نہیںکی جاتی، بلکہ وہ منافع کی صورت میں سرمایہ دار کی جیب میں چلی جاتی ہے۔ مارکس محنت کی قدری تھیوری(Labor Theory of Value)پر ایمان رکھتا تھا۔ اس کے مطابق کسی بھی چیز کی اصل قدر(Real Value)کو محنت کی اس مقدار(Amount of Labor) سے جانچنا چاہیے جو اس کے بنانے میں استعمال ہوئی ہے۔

اب مارکس بتاتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی تباہی کے بعد پرولتاریوں کی ڈکٹیٹرشپ قائم ہو گی۔ لیکن یہ انقلاب کا پہلا مرحلہ ہے۔ اگلے مرحلے میں غیر طبقاتی سماج (Classless Society)وجود میں آئے گا، جہاں ”مارکیٹ“ اور ”سرمایہ“ کا وجود ختم ہو جائے گا۔ ہر شخص سے اس کی استعداد کے مطابق کام لیا جائے گا اور ضرورت کے مطابق وسائلِ زندگی عطا کئے جائیں گے۔یہ تھا زمین پر انسانوں کے لیے جنت کا خواب۔

”داس کیپیٹل“(سرمایہ) کا پہلا والیوم 14ستمبر1867ءکو ایک ہزار کاپیوں کی صورت میں شائع ہوا۔ یہ اس کی زندگی میں اس کی شائع ہونے والی آخری کتاب ہے۔ اگرچہ وہ اس کی اشاعت کے بعد 16 سال مزید زندہ رہا۔ مارکس اپنی اس کتاب کو ”ورک آف آرٹ“ کہا کرتا تھا۔ اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کتاب کا خاصا حصہ ایسا بھی جسے سمجھنا دشوار(Unreadable) ہے۔ مثال کے طور پر ایک فقرہ دیکھئے:

"The progress of accumulation lesser the realative magnitude of the variable part of capital, therefore, but this by no means excluds the possibility of a rise in its absolute magnitude"

اس بار مارکس تہیہ کئے ہوئے تھا کہ وہ اس کتاب کو قبول عام کی سند عطا کرنے کے لیے ہر طرح کے وسائل کو برؤئے کار لائے گا۔چنانچہ اس نے اس کی پبلسٹی کے لئے تمام کوششیں کر ڈالیں۔ اہم شخصیات کو اس کی جلدیں تقسیم کی گئیں، اشتہار بازی سے کام لیا گیا، کتاب کے اہم اقتباسات اخبارات اور رسائل کو ارسال کئے گئے اور مختلف زبانوں میں اس کے تراجم کے لیے تگ و دو کی گئی۔ اس کی ایک کاپی” ڈارون “کو بھی بھیجی گئی، جس نے دل کھول کر داد دی۔

”سرمایہ“ کا دوسرا والیوم 1885ءاور تیسرا 1894ء میں مارکس کی وفات کے بعد شائع ہوا۔ ان دونوں والیومز پر اینگلز کو سخت محنت کرنا پڑی۔ بات دراصل یہ تھی کہ مارکس کی لکھائی نہایت خراب تھی، اس کے علاوہ اس نے جو شماریاتی چارٹ (Statistical Graphs) بنائے تھے، انہیں بھی درست کرنے کی ضرورت تھی۔ مارکس اچھا حساب دان بھی نہیں تھا، لہٰذا اعداد و شمار کی اغلاط بھی اینگلزنے درست کیں۔

جلد ہی مارکس کے نظریات، جنہیں مارکسزم کا نام دیا جاتا ہے، جرمنی میں مقبولیت حاصل کرنے لگے۔ جرمنی کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی نے اسے اپنی بنیادی دستاویز کی صورت پیش کیا اور مارکس کی وفات کے20 سال بعد یہ یورپ اور جرمنی کی عظیم ترین سوشلسٹ پارٹی بن گئی۔ روسی زبان میں اس کا ترجمہ 1872ءمیں ہوا۔ روسی حکومت نے یہ سوچ کر اس کتاب پر پابندی نہیںلگائی تھی کہ سیاسی اور اقتصادی شعور سے عاری عام اسے سمجھ ہی نہیں سکیں گے، مگر روسی دانشوروں اور مفکرین نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا اور اسے عام فہم زبان میں عوام میں پھیلانا شروع کر دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کی تیس ہزار کاپیاں فروخت ہو گئیں۔ 1873ءاور 1874ءمیںروس کے بڑے بڑے شہروں میں جو مظاہرے ہوئے، ان میں اس کتاب کے اقتباسات کو بطور پراپیگنڈہ استعمال کیا گیا۔ ٹرائسکی اور اسٹالن 1879ءمیں پیدا ہوئے، مگر لینن اس وقت9 سال کا سکول طالب علم تھا اور ان تمام معاملات کو دیکھ رہا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ 1917ءکا روسی انقلاب اسی کتاب کے بینر تلے برپا ہوا۔ اور لینن کی قیادت میں روسی کیمونسٹ لیڈروں کی چلائی ہوئی کیمونزم کی تحریک دنیا بھر کی کیمونسٹ تحریکوں کی نمائندہ اور لیڈر بن گئی۔ فرانسیسی زبان میں ”سرمایہ“کا ترجمہ 1875ءاور انگریزی میں 1887ءمیں ہوا۔

(جاری ہے )

نوٹ :یہ کتاب ” بک ہوم “ نے شائع کی ہے ، جملہ حقوق محفوظ ہیں (ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں )۔

مزید :

ادب وثقافت -