ہائے، یہ لوڈشیڈنگ+کیا سازش ہے؟
یہ کچھ عجیب لگا کہ سابق وفاقی وزیر برقیات حال وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی صدارت میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں سحری اور افطار کے وقت لوڈشیڈنگ نہ کرنے کی ہدایت کی گئی، اس فیصلے یا حکم سے ہی ظاہر ہو جاتا ہے کہ دونوں اوقات متاثر ہیں اور لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔
لوڈشیڈنگ ایک ایسا جن بن گئی، جو بوتل سے باہر آ کر حکمرانوں کے قابو نہیں آ رہا اور یہ بے چارے بار بار اسے درست کرنے کا اعلان کرتے کرتے اس حد تک آ گئے کہ اب سحر اور افطار کے لئے دُعائیہ ہدایت کر رہے ہیں۔ ہمارے خیال میں تو یہ حکومت کی بدقسمتی ہی ہے کہ وہ اب تک ہزار جتن کے باوجود اس پریشانی پر کنٹرول نہیں کر سکی۔ لوڈشیڈنگ مزید بڑھتی جا رہی ہے آج کل تو لاہور جیسے شہر میں ہر ایک گھنٹے کے لئے بجلی بند ہو جاتی ہے، دیہات کا اس سے بھی بُرا حال ہے۔ یوں لوگ پھر سے سراپا احتجاج ہیں، اس نوعیت کی لوڈشیڈنگ کے باعث شہریوں کو دہری پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اکثریت ایسے حضرات کی ہے کہ اُن کے یو پی ایس بھی جواب دے گئے اور اُن کو نئے یو پی ایس لگوانے کے لئے قرض کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ یہاں بھی مہنگائی نے اپنے پنجے گاڑھے، بیٹری اور یو پی ایس کے آلات مہنگے ہو گئے ہیں۔
مزید کوئی بات کرنے سے قبل ایک اور وضاحت کی بھی ضرورت ہے۔ حکمرانوںکی طرف سے اکثر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بلا شیڈول لوڈشیڈنگ نہ کی جائے۔ بندہ پوچھے کہ کوئی شیڈول بھی ہے کہ بلا شیڈول کی بات کی جاتی ہے یہاں تو بجلی آتی ہی نہیں۔ یہ من مرضی والی ہے جب چاہے آئے اور جب چاہے چلی جائے۔
ہم تکنیکی امور میں بھی تھوڑی بہت عقل کے دعوے دار ہیں، ویسے بھی صحافی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ”جیک آف آل، بٹ ماسٹر آف نن“ ہوتا ہے اس لئے ہم ایک سیدھا سادا حساب کا سوال سامنے رکھتے ہیں۔ وزیراعظم کو بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ ان دنوں بجلی کا استعمال17ہزا میگاواٹ سے زیادہ اور پیداوار قریباً 14ہزار میگاواٹ ہے۔ یوں ضرورت اور پیداوار میں فرق تین ہزار تین سو میگاواٹ کے برابر ہے۔ ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کیا اجلاس میں یہ پوچھا گیا کہ اس کمی کو پورا کرنے کے لئے لوڈشیڈنگ کے بوجھ کو کس طرح تقسیم کیا گیا، کیونکہ یہ کمی مرکزی سطح پر ہے اور استعمال چاروں صوبوں اور ان صوبوں کے اضلاع تک ہوتا ہے۔ اگر پیپکو والے تفصیل سے آگاہ کریں تو ہی اندازہ ہو گا کہ کس ضلع کو کتنی کمی ہے اور وہاں لوڈشیڈنگ کا شیڈول کیا بنایا گیا اور کیا یہ منصفانہ بھی ہے کہ نہیں۔ ہمارے خیال میں کمی ایک چوتھائی ہے اور لوڈشیڈنگ بھی ایک چوتھائی ہونی چاہئے اگر تقسیم منصفانہ ہو تو12 سے20گھنٹے والی لوڈشیڈنگ چھ سے آٹھ گھنٹے تک رہ سکتی ہے۔ یہ تو سراسر بدانتظامی یا پھر سازش ہے جو موجودہ حکمرانوں کے خلاف ہو رہی ہے۔ اس پر ان کو غور کرنا چاہئے۔ سیدھی بات ہے کہ اگر پیداوار 17ہزار میگاواٹ کے مطابق ہو جائے تو لوڈشیڈنگ صفر رہ جاتی ہے۔ یوں24گھنٹے بجلی ملے گی اب پیداوار ایک چوتھائی کے قریب کم ہے تو لوڈشیڈنگ بھی ایک چوتھائی ہی کے مساوی ہونی چاہئے لیکن ایسا نہیںہو رہا۔
ہم نے پہلے بھی ایک دو بار اس مسئلے پر قلم اُٹھایا تو یہی عرض کیا تھا کہ حکومت اس پہلو پر بھی غور کرے کہ کیا ایسا جان بوجھ کر تو نہیں کیا جا رہا؟ ویسے بریفنگ تو کاغذوں پر ہوتی ہے۔ عملی صورت حال تو بالکل مختلف ہوتی ہے، ہر بریفنگ میں اربوں روپے کے مطالبات ہی کئے جاتے ہیں اور ہمارے خیال میں حکومت دے دے کر تھک بھی چکی ہو گی۔
یوں بھی ہمیں یہ احساس ہو رہا ہے کہ شاید قدرت بھی نامہربان ہے۔ محکمہ موسمیات نے پیش گوئی کی کہ اس سال مون سون کی بارشیں15فیصد زیادہ ہوں گی۔ یہاں ایسا ہوا ہی نہیں بلکہ بارشیں ہو ہی نہیں رہیں اور خشک سالی کا خطرہ منڈلانے لگا ہے۔ ڈیم ضرورت کے مطابق نہ صرف پانی ذخیرہ نہیں کر پا رہے بلکہ ان سے اخراج ضرورت سے زیادہ ہو رہا ہے۔ مزید برآں مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق گلیشیر اس رفتار یا تناسب سے نہیں پگھلے، جو ضرورت پوری کر سکیں۔ یہیں پر بس نہیںہوا، کمی چل رہی تھی کہ چشمہ کے دونوں ایٹمی بجلی گھر کسی نقص کے باعث بند ہو گئے۔ دو روز نقص کی خرابی دُورکرنے میں لگنا تھے ایک درست ہوا لیکن وہ پھر ٹرپ کر گیا۔ یوں یہ650میگاواٹ کی کمی بھی آ گئی اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کچھ نامہربانی بھی ہے۔
ہم پھر گزارش کریں گے کہ حکمرانوں نے انتخابات کے لئے عوام کے پاس جانا ہے۔اگر لوڈشیڈنگ اور گیس کی قلت جیسے مسائل یونہی رہے تو لوگ مہنگائی تو بھول جائیں گے انہیں لوڈشیڈنگ اور گیس کی قلت یاد رہے گی اور پھر ووٹ بھی اسی امر کو ملحوظ خاطر رکھ کر دیا جائے گا اگر عوام کے لئے نہیں تو خود اپنے لئے ہی خیال کر لیں کہ پیپلزپارٹی بہرحال عوامی جماعت ہے۔ ہماری رائے ہے چودھری احمد مختار کو انجینئرنگ کانگرس سے مدد لینا چاہئے ان کو ایسے الیکٹریکل انجینئر ضرور مل جائیں گے جو پیپکو وغیرہ کے ذمہ دار حضرات کی اہلیت کا تجزیہ کر سکیں اور یہ بتا سکیں کہ لوڈشیڈنگ کا جن واپس بوتل میں کیسے جائے گا۔ یہ حکومت کے لئے حقیقی مسئلہ ہے۔ ٭