کابینہ کے دو فیصلے
بدھ کے روز وفاقی کابینہ نے پاسپورٹ اسکینڈل کے بارے میں متعلقہ محکموں سے بریفنگ لینے کے بعد ’دی سن‘ کی خبر کو پاکستان مخالف پراپیگنڈہ قرار دیتے ہوئے برطانوی عدالت میں اخبار کے خلاف 10 ارب ڈالر کا ہتک عزت کا دعویٰ دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ چیئرمین نادرا طارق ملک کے مطابق اس خبر کے حوالے سے تفصیلی تحقیقات کی گئی ہیں، لیکن لگائے جانے والے الزامات کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ حکام کے مطابق ’دی سن‘ کے نمائندے کا نام محمد علی اسد ہے اور اسے پہلی بار 2002ءمیں شناختی کارڈ جاری کیا گیا تھا۔ اس کے بعد مذکورہ شخص برطانیہ چلا گیا اور گزشتہ آٹھ سے دس برس سے وہ وہاں مقیم تھا۔ اسے 24 اکتوبر 2011ءکو برطانوی پاسپورٹ جاری کیا گیا۔ اس پاسپورٹ پر اس کا نام اور تصویر وہی ہیں جونادرا کے ریکارڈ میں موجود ہیں تاہم اس پر تاریخ پیدائش مختلف ہے۔ حکام کے مطابق یہ قدم برطانوی شہریت حاصل کرنے میں آسانی کے لئے اُٹھایا گیا ہو گا۔ پاکستانی پاسپورٹ کے حوالے سے خبر کے لئے ’دی سن‘ نے علی اسد کا انتخاب کیا۔ یہ 8جولائی کو پاکستان پہنچا اور 31 جولائی 2011ءتک لاہور کے ایک ہوٹل میں مقیم رہا۔ اس دوران یہ 10جولائی کو باغبانپورہ میں قائم نادرا کے دفتر گیا اور اپنی تازہ تصویر کے ساتھ نیا شناختی کارڈ حاصل کیا۔ برطانوی اخبار کے مطابق اس کے نمائندے نے فرضی نام پر شناختی کارڈ حاصل کیا جبکہ نادرا حکام کے مطابق کمپیوٹر میں درج اس کے کوائف کی تصدیق کرکے نیا کارڈ جاری کیا گیا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس کے بعد اسد نے نئے شناختی کارڈ پر 13 جولائی کو مشین ریڈ ایبل پاسپورٹ کے لئے درخواست دی اور 18 جولائی کو اسے یہ پاسپورٹ فراہم کر دیا گیا۔ حکام کے مطابق اس سارے معاملے میں کسی بھی موقع پر ضابطے کی خلاف ورزی نہیں کی گئی بلکہ قانون کے مطابق تمام دستاویزات جاری کی گئیں۔ دوسری جانب ایف آئی اے نے گرفتار شدہ چار نادرا حکام اور تین ٹریول ایجنٹس کو ثبوت نہ ہونے کی بناءپر رہا کر دیا، تاہم زیر حراست دیگر چار افسران کا سپیشل مجسٹریٹ سے تین روزہ ریمانڈ حاصل کر لیا گیا۔ وزارتِ داخلہ کی جانب سے تشکیل کی جانے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بھی اپنی تحقیقات جاری رکھے ہوئے ہے۔
وفاقی کابینہ کے اجلاس میں نیٹو سپلائی کے حوالے سے پاکستان اور امریکہ کے درمیان طے ہونے والی مفاہمتی یاد داشت کی بھی منظوری دے دی گئی۔ اس یاد داشت کے بارے میں تفصیلات حکومت کی جانب سے جاری نہیں کی گئیں، لیکن اخباری رپورٹس کے مطابق اس میں طے کیا جانے والا لائحہ عمل موجودہ نظام سے بہت مختلف نہ ہو گا۔ اس معاہدے کی میعاد 2014ءتک ہو گی تاہم بنیادی فرق یہ ہے کہ اس سے قبل اس حوالے سے کوئی تحریری معاہدہ موجود نہ تھا۔ اطلاعات کے مطابق اس معاہدے کے تحت پاکستانی حکام نیٹو کا سامان” سکین“ کر سکیں گے تاکہ پارلیمینٹ کی سفارشات کے مطابق صرف غیر مہلک سامان ہی لے جایا جائے۔ سیکرٹری ڈیفنس نے کابینہ کو بتایا کہ اس مفاہمتی یاد داشت کی تیاری میں تمام سٹیک ہولڈرز (فریقین) کی مشاورت شامل ہے اور پارلیمان کی سفارشات کی روشنی میں اسے حتمی شکل دی گئی ہے۔ دوسری جانب منگل کے روز پشاور کے نواحی علاقے جمرود میں دو موٹر سائیکل سواروں نے نیٹو سپلائی لے جانے والے ایک ٹرک پر فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں ڈرائیور جاں بحق ہو گیا۔ انتظامی حکام کے مطابق یہ ٹرک نیٹو سپلائی لے جانے والے تین / چار ٹرکوں کے قافلے کا حصہ تھا جو بغیر کسی سکیورٹی کے سفر کر رہے تھے۔ کسی تنظیم کی جانب سے اس واقعہ کی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی تاہم اس سے قبل تحریک طالبان پاکستان نے نیٹو سپلائی لے جانے والے ٹرکوں اور ڈرائیوروں پر حملوں کی دھمکی دی تھی۔
پاسپورٹ سکینڈل کو ابتدائی تحقیقات کے بعد پاکستان کو بدنام کرنے کی سازش قرار دیا گیا ہے۔ اگر اس معاملے میں حکومتی مو¿قف درست ہے تو اس بات پر غور کیا جانا چاہیے کہ برطانوی اخبار کی رپورٹ منظرِ عام پر آنے کے بعد تحقیقات کی بجائے یکدم نادرا کے افسران کو معطل اور گرفتار کیوں کر لیا گیا؟ یہ واقعہ حکومتی ذمہ داران کے لئے سبق ہے کہ کسی بھی معاملے پر رد عمل دینے سے پہلے اس کے حوالے سے مکمل تفتیش کی جانی چاہیے اور حقائق کا پتہ لگانا چاہیے۔ تاہم ابھی بھی اس معاملے کے چند پُراسرار پہلو موجود ہیں۔ حکومت کی جانب سے اس بات کی وضاحت بھی پیش کی جانی چاہیے کہ اگر ضابطے کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی گئی تو نادرا کے چار افراد ابھی تک زیر حراست کیوں ہیں اور کن بنیادوں پر ان کا ریمانڈ لیا گیا؟ مزید یہ کہ جب بھی کوئی پاکستانی برطانوی شہریت حاصل کرتا ہے تو اسے پاکستانی شناختی کارڈ اور دیگر کاغذات کی کاپی جمع کرانی پڑتی ہے۔ اس پہلو کا جائزہ لینا چاہئے کہ علی اسد برطانوی پاسپورٹ پر تاریخ پیدائش تبدیل کرنے میں کامیاب کیسے ہو گیا؟ اس معاملے میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے کوتاہی کی گئی یا برطانوی حکام کی جانب سے؟ دوسری جانب برطانوی اخبار ’دی سن‘ ابھی بھی اپنے مو¿قف پر قائم ہے اور اس کا کہنا ہے کہ وہ حکومتِ پاکستان کی جانب سے مقدمہ دائر کئے جانے کی صورت میں عدالت میں اپنے مو¿قف کادفاع کرے گا۔ نادرا حکام کادعویٰ ہے کہ اخبار کا نمائندہ دوہری شہریت کا حامل ہے اور اس نے اپنے ہی نام پر شناختی کارڈ بنوایا جبکہ ”دی سن‘ کا کہنا ہے کہ ایجنٹ کو رشوت دینے کے عوض اس کے نمائندے کو فرضی نام پر شناختی کارڈ جاری کیا گیا۔ اس پس منظر میں ضروری ہے کہ حکومت کی جانب سے ہتک عزت کا دعویٰ دائر کرنے کا فیصلہ محض دھمکی تک ہی محدود نہ رہے بلکہ اسے عملی شکل دی جانی چاہیے اور جلد از جلد یہ کیس دائر کر دیا جانا چاہیے۔ برطانیہ میں اس حوالے سے قوانین بے حد ٹھوس ہیں اور اگر یہ پاکستان کو بدنام کرنے کی سازش ہے تو ایسی صورت میں برطانوی اخبار کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور پاکستان میں شناختی کارڈ اور پاسپورٹ جاری کرنے کے نظام پر لگائے جانے والے الزامات بھی اپنی اہمیت کھو بیٹھیں گے۔
اسی طرح کابینہ نے نیٹو سپلائی کی بحالی کی مفاہمتی یاد داشت کی منظوری دے کر ایک اہم فیصلہ کیا ہے تاہم اس یاد داشت کی تفصیلات عوام کے سامنے پیش نہیں کی گئیں۔ اگر اس معاہدے میں پارلیمینٹ کی سفارشات کا احترام کیا گیا ہے تو اس کی تفصیلات جاری کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے۔ دوسری جانب منگل کے روز نیٹو سپلائی لے جانے والے ایک ٹرک ڈرائیور کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ نیٹو سپلائی کا معاملہ ہمارے لئے وبال جان بن گیا ہے۔ ایک طرف عوام کی بھاری اکثریت اس کی بحالی کے حوالے سے منفی جذبات رکھتی ہے جبکہ دوسری طرف بین الاقوامی برادری اس معاملے میں ہم سے پورے تعاون کی امید رکھتی ہے۔ درمیان میں حکومت ہے جو فیصلہ تو کرتی ہے لیکن اس کا دفاع نہیں کر سکتی۔ مزید یہ کہ فیصلے کرنے میں بے حد تاخیر کر دی جاتی ہے جس سے یہ اپنی افادیت کھو بیٹھتے ہیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ہم اس معاملے پر سو جوتے بھی کھا رہے ہیں اور سو پیاز بھی۔ عوام خوش ہیں نہ عالمی اتحادی مطمئن۔ اب سپلائی بحال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تو لازم ہے کہ سکیورٹی بھی فراہم کی جائے۔ سامان لے جانے والوں کے مال و جان کی حفاظت بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ضروری ہے کہ قومی سلامتی کے امور پر بروقت فیصلے کئے جائیں اور پھر ان کی ذمہ داری بھی قبول کی جائے۔