لاپتہ افراد پیش کریں یا ملوث کریں‘سپریم کورٹ :عدالتی کمیشن بنانے کا بھی اعلان
اسلام آباد(خبرنگار)سپریم کورٹ نے کہاہے کہ بلوچستان امن وامان کیس میں صوبائی حکومت نے لاپتہ افراد سے متعلق کوئی کمٹمنٹ نہیں کی،ان سے متعلق لکھ کر لائیں ، عدالتی کمیٹی بنائی جائے گی جو ڈیرہ بگٹی جاکر رپورٹ مرتب کرے گی ۔چیف جسٹس نے ایک موقع پر ایجنسیوں کے وکیل سے کہاکہ لاپتہ افراد پیش کریں ورنہ اپنے بندے لے آئیں ، گرفتارکریں گے ۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاہے کہ وزارت دفاع نے مشترکہ بیان پر دستخط نہ کرکے عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے ،چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے بلوچستان امن وامان کیس کی سماعت کی جہاں بلوچستان حکومت کا تحریری بیان عدالت میں جمع کرایاگیا۔ چیف جسٹس نے رپورٹ پر کہاکہ جواب میں لاپتہ افراد سے متعلق صوبائی حکومت نے کوئی کمٹمنٹ نہیں کی ، جتنی توجہ دیں گے ، اتناہی صوبہ ، نظام اور ملک کے لیے بہتر ہوگا۔ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے کہاکہ عدالت احکامات سے حالات میں بہتری آئی ، پہلے تو کوئی پوچھتانہیں تھا۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ رپورٹ میں لاپتہ افراد سے متعلق کچھ نہیں ، وہ بھی لائیں تاہم حکومت کا کام وکلانے کیا، سپریم کورٹ بار کی سیمینا ر کرانے کی کوشش قابل ستائش ہے ۔چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ ڈیرہ بگٹی کا علاقہ کب کھلے گا؟ جسٹس جواد نے کہاکہ ڈیرہ بگٹی میں صورتحال کے جائزہ کے لیے کمیٹی بنائیں گے جو دورہ کرکے امن وامان پر رپورٹ مرتب کرے گی ۔ایڈووکیٹ جنرل بلو چستان نے کہاکہ کوئی اسلحہ کے ساتھ بلوچستان جائے گا توروکیں گے جس پر عدالت نے کہاکہ اسلحہ روکیں ، نوگو ایریانہ بنائیں ۔چیف جسٹس نے کہاکہ لوگوں کو گھروں میں جانے کی اجازت دیں، شکایت کہ ان کے اقارب کو قلعوں میں بند کردیاگیا، ریاست کے اندرریاست نہ بنائیں۔عدالت نے ایف سی کے وکیل سے کہاکہ آئی جی سے کہیں کہ وہ لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق لکھ کردیں جس پر وکیل نے لاچارگی کا اظہارکیا۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ ہماراکام ہے کہ حکومت کوگائیڈ لائن دے دیں باقی کام توحکومت کا ہے کہ وہ اس پر کتنا عمل کرتی ہے ایڈووکیٹ جنرل بلوچستا ن نے عدالت کوبار بار یقین دہانی کرائی کہ ہم جس طریقے سے کام کررہے ہیں انھیں مکمل یقین ہے کہ وہ تمام معاملات حل کر نے میں کامیاب ہوجائیں گے یہ بہت سی باتیں ہیں جویہاں کھلے عام نہیں کی جاسکتیں اس دوران ایف سی کی جانب سے راجا محمدارشاد نے کہاکہ ہم پر الزامات لگائے جارہے ہیں جتنا کام ہم نے کیاہے کسی نے بھی نہیں کیا اس پر چیف جسٹس نے انھیں سرزنش کرتے ہوئے کہاکہ آپ جائیں اور جاکر ایف سی کے ان لوگوں کو سرنڈر کرائیں جن کے خلاف الزاما ت ثابت ہوچکے ہیں اور جن کے بارے نوشکی کے سیشن جج نے بھی رپورٹ دی تھی ہم بار بار صبر کا مظاہرہ کررہے ہیں آپ کو سمجھ ہی نہیں آرہاہرطرف سے ایف سی پر ہی کیوں الزامات لگئے ہیں کسی اور پر نہیں لگائے گئے اس پر راجاارشاد نے کہاکہ ہماراتعلق وفاق سے ہے اورہم اس وقت حرکت میں آتے ہیں کہ جب ہمیں وفاق کی طرف سے کوئی حکم ملے یا صوبائی حکومت ہمیں کسی مدد کے لئے طلب کرے ،یاسین آزاد نے بھی کھلے عام گفتگو کرکے معاملے کوبہت زیادہ سنگین بنانے کی کوشش کی ہے انہیں اس کا کوئی حق نہیں تھا اس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ انھون نے جوکچھ کہا یہ ان کے دل کی آواز تھی انھوں نے ایک آل پارٹیز کانفرنس منعقد کرائی تھی مگر ان کی قرارداد پر سینیٹ چیئرمین اور سپیکر قومی اسمبلی سمیت حکومت کے کسی آفسر نے کوئی جواب نہیں دیاہے اس لیے انھوں نے مناسب سمجھا کہ وہ تمام باتیں سپریم کورٹ کے روبروکر ڈالیں سو انھوں نے کہہ دیاآپ اپنا معاملہ درست کرنے کی بجائے دوسروں کی جانب کیوںدیکھ رہے ہیں اس پرانہوں نے کوئی جواب نہیں دیا ،تاہم سماعت کے اختتام پرعدالت نے کہاکہ وفاقی حکومت اورصوبائی حکومت نے جومشترکہ دستخطوں سے بیان داخل کیاہے اس کو مسترد کرتے ہیں اورانھیں ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ دوبارہ بیان تیار کرکے سب کے دستخط کراکر 31جولائی کوعدالت میں پیش کیاجائے۔