پارلیمینٹ کوکون نہیں چلنے دے رہا اس سے ہمیں کوئی غرض نہیں عدالت ارکان پارلیمینٹ کی منشی نہیں ‘چیف جسٹس
اسلام آباد(خبرنگار) سپریم کورٹ میں توہین عدالت قانون کی منظوری کے لیے پارلیمانی بحث کا ریکارڈ پیش کر دیا گیا جس کا متن پڑھے جانے کے دوران چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہاکہ عدالت اراکین پارلیمینٹ کی منشی نہیں جبکہ پارلیمینٹ اور عدلیہ اپنے اپنے کام کر رہی ہے، ججوں نے تو ہمیشہ پارلیمینٹ کو چلانے میں اپنا کر دار ادا کیا ہے ، کون کہتا ہے کہ پارلیمینٹ کو نہیں چلنے دیا جا رہا۔ ججوں کا کام ہے کہ وہ فیصلہ کر یں اس سے ہمیں غرض نہیں کہ دروازے کے باہر کیا ہو رہا ہے۔جسٹس جواد نے کہا کہ قانون بنانے کی وجہ کے سوا کئی باتیں سامنے آئیں، کوئی ڈرافٹس مین نہیں۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی ۔ درخواست گزار کے وکیل احسن الدین نے پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ پیش کر دیا جسے عدالت نے پڑھنے کا حکم دے دیا۔ درخواستوں کی سماعت شروع کی تو سیکرٹری قومی اسمبلی نے توہین عدالت قانون پر ہونے والی اسمبلی کی کارروائی کا ریکارڈ عدالت میں پیش کیا ۔ لاہور ہائی کورٹ بار راولپنڈی کے صدر احسن الدین شیخ نے اپنے دلائل دیتے ہوئے مو¿قف اختیار کیا کہ نیا قانون وزیراعظم کے خط لکھنے کے عدالتی حکم کے تناظر میں پاس کیا گیا 27 جون کو عدالت نے اٹارنی جنرل سے پوچھا تھا کہ سوئس حکام کو کیسے خط لکھیں گے ۔ 12 جولائی سے پہلے ہی یہ سب کچھ عجلت میں کیا گیا ، حکومت نے عدالتی کارروائی سے بچنے کےلئے قانون منظور کرایا تھا ایک وزیراعظم کو گھر بھجوایا گیا تھا 12 جولائی کی حتمی وارننگ تھی لہٰذا9 جولائی کو یہ بل ایک نہیں دونوں ایوانوں سے پاس کرا کر صدر سے بھی پاس کرایا اور دستخط بھی ہو گئے ۔ عدالت نے کہا کہ ٹائمنگ کے حوالے سے بات پہلی بار سامنے آئی ہے لہٰذا قومی اسمبلی کے ریکارڈ کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ اس پر احسن الدین شیخ نے قومی اسمبلی کی کارروائی پڑھنا شروع کی۔ اس دوران جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ پارلیمینٹ میں ہونے والی کارروائی کا عدالت جائزہ لے سکتی ہے۔ آرٹیکل 69 کے تحت پارلیمینٹ کی کارروائی کو تحفظ حاصل ہے ۔ احسن الدین شیخ کا کہنا تھا کہ عدالت کو ہر طرح کی کارروائیوں کا جائز ہ لینے کا مکمل اختیار حاصل ہے اگر صرف چند منٹوں میں قانون بنائے جائیں گے تو ان میں کوئی نہ کوئی سقم ضرور موجود ہوگا ہم نہیں کہتے کہ پارلیمینٹ کو قانون سازی کی اجازت نہیں یا ان کا اختیار نہیں ہے ۔ اختیار ہے مگر کوئی بھی قانون آئین سے متصادم اور انسانی حقوق کی پامالی کی بنیاد پر نہیں بنایا جا سکتا۔ حکومت کی بدنیتی ظاہر ہے حکومت چاہتی تو کچھ عرصہ انتظار کر سکتی تھی یا پھر بعد میں بھی قانون سازی کر سکتی تھی مگر اسے یہ سب عجلت میں کرنے کی کیا ضرورت پیش آئی کہ اس نے پوری طرح اس پر بحث بھی نہیں کرائی گئی ۔ ارکان پارلیمینٹ بھی اس بل سے پوری طرح سے واقف نہ تھے بس انہیں بتایا گیا اور بل پاس کرالیا گیا ۔ اس پر عدالت نے کہاکہ قانون بنانے کےلئے کوئی نہ کوئی بنیاد ہونا بہت ضروری ہوتی ہے مگر یہاں بنیاد تو دور کی بادت ہے ڈرافٹس مین نے کافی غلطیاں بھی کر دیں جس پر تصحیح ضرور ہوجاتی ہے۔ عدالت اپنے دائرہ کار کے بارے میں بھی پوری طرح آگاہ ہے ۔ احسن الدین اس دوران اسمبلی کی کارروائی کا ایک ایک نکتہ پڑھتے رہے ۔کہیں اسمبلی کے دوران لگنے والے قہقہے کی بات تھی تو کہیں کہیں سپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے رولنگ بھی دی جاتی رہی۔ اراکین نے جو کچھ بھی بل کے حوالے سے کہا وہ بھی بتا دیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت اسمبلی کی کارروائی ملاحظہ کر سکتی ہے تاہم آرٹیکل69 کے تحت اس کو تحفظ حاصل ہوتا ہے جسٹس جواد یس خواجہ نے کہا کہ اسمبلی کی کارروائی سے بہت کچھ سامنے آرہا ہے اس سے کارروائی کو سمجھنے اور کیس کو آگے بڑھانے میں مدد ملے گی ۔ قانون بنانے کی وجہ بھی سامنے آرہی ہے ۔ تشریح میں مدد کےلئے پارلیمینٹ کی تفصیل دیکھ رہے ہیں احسن الدین شیخ نے کہا کہ (ن) لیگ کے کیپٹن (ر)صفدر نے مسودہ بنانے کےلئے عدلیہ سے پوچھنے کا کہا تھا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ہم ممبران کے منشی ہیں کہ وہ ہر بات ہم سے پوچھیں گے ۔ ہم ڈرافٹس مین نہیں جو خط لکھنے کا متن پوچھ کر لکھیں گے ۔ احسن الدین شیخ نے کیپٹن (ر) صفدر کی تقریر کا متن بھی پڑھ کر سنایا جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کیا ۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ قانون کی شق وار منظوری کی کارروائی سے پتہ چلے گا کہ آرٹیکل 248 نکالا گیا ہے یا نہیں چیف جسٹس نے کہا کہ قومی اسمبلی کی بحث میں یہ آرٹیکل نکالے جانے کا ذکر ہے ۔ شیخ احسن الدین نے کہا کہ قانون کی دفعہ 3 میں یہ آرٹیکل لکھا گیا ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت صرف قانون کی آئین سے مطابقت کا جائزہ لے گی ۔ احسن الدین نے کہا کہ نیا قانون توہین عدالت روکنے کی بجائے تو ہین کے طریقوں پر مبنی ہے ، پارلیمینٹیرینز آئین کے منافی قانون کی سازی کریں تو یہ حلف کی خلاف ورزی ہے ۔ توہین عدالت کے مرتکب افراد پر پابند یوں کی بجائے بچ نکلنے کے راستے دکھائے گئے ہیں ۔ نئے قانون میں میڈیا کو آزاد عدلیہ سے الگ کرنے کےلئے توہین عدالت سے استثنیٰ کی ترغیب دی گئی ۔ 2003 ءکے قانون کو 2004ءکے آرڈیننس میں تحفظ دیا گیا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ 2004 ءکا آرڈیننس ختم ہو جانے پر 2003 ءکا قانون بحال ہو گیا تھا ۔ احسن الدین نے کہا کہ حکومت نے دو افراد کو بچانے کی کوشش کی ہے ایک صدر مملکت اور دوسرے پی پی کے شریک چیئرمین ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آپ کی حمایت کر رہے ہیں اور آپ ہمارے ہی خلاف شروع ہوگئے ہیں جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ آپ حمایت کی بجائے آئین کی بات کریں ۔ ہم نے آئین کی پاسداری کرنا ہے۔ آرٹیکل 69 کی رو سے دو ایوانوں میں جو بحث ہو گی وہ کہیں پر چیلنج نہیں ہو سکتی ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کون ہے جو پارلیمینٹ کو نہیں چلنے دے رہا ہم ادارے کا احترام کرتے ہیں۔ ایک بات اور بھی بتا دوں کہ ہم جو فیصلہ کرتے ہیں اس پر قائم رہتے ہیں آپ کو انگریزی نہیں آتی تو ہم کیا کریں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جج اخباری خبروں پر فیصلہ نہیں کرتے ،جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ آرٹیکل 69کے تحت پارلیمانی کارروائی کو تحفظ حاصل ہے اور اسے چیلنج نہیں کیاجاسکتا تاہم عدالت اس کا جائزہ لے سکتی ہے۔ پارلیمانی ریکارڈ کے مطابق کیپٹن (ر)صفدر نے قانونی مسودہ بنانے پر عدلیہ سے پوچھنے کا کہاتھاجس پر چیف جسٹس نے کہاکہ ہم ان کے منشی نہیں بیٹھے ہوئے ، پارلیمانی بحث کی دستاویزات سے عدالت کے لیے تشریح میں آسانی ہوگی ۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ اسمبلی کی کارروائی کسی مقدمے میں تشریح کا باعث ہو، بحث میں بہت کچھ سامنے آیا لیکن قانون بنانے کی وجہ سامنے نہیں آسکی ۔احسن الدین ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل میں کہاکہ ججز آئین کو تحفظ دے رہے ہیں ، عوامی نمائندے کیاکررہے ہیں ، اراکین اسمبلی خود اِس بل کو بدنیتی پر مبنی کہتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ججوں کا کام فیصلہ کرناہے ، دروازے کے باہر کیا ہو رہا ہے ، اس سے کوئی غرض نہیں۔ پارلیمینٹ کو کون نہیں چلنے دے رہا، پارلیمینٹ اپنا کام اور عدلیہ اپنا کام کررہی ہے۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ کسی کو فیور نہیں دے رہے، پارلیمان میں بحث ہوتی ہے اور ہوتی رہے گی ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ یہ نہیں کہاجاسکتاکہ پارلیمینٹ کی فیور کرتے ہیں اور پارلیمینٹ ہماری فیور کرے ۔ عدالت نے پیر سے اٹارنی جنرل کو سننے کافیصلہ کرتے ہوئے درخواست گزاروں کو آج جمعہ کی نماز تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کردی ۔