”سندھ ، سیلاب اور کالا باغ ڈیم“

”سندھ ، سیلاب اور کالا باغ ڈیم“
”سندھ ، سیلاب اور کالا باغ ڈیم“

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app



آسمان پربادلوں کے قافلے رواں دواں دیکھتا ہوں تو بے اختیار اپنے سندھی بھائی یاد آجاتے ہیں، بادل اپنے اندر بہت سارا پانی بھر کے لاتے ہیں، شمالی علاقہ جات سے خیبر پختونخوا اور پنجاب سے سندھ تک دل کھول کر برستے ہیں، ایسے میں ہماری لائف لائن دریائے سندھ بھی پانی سے صرف بھر ہی نہیں جاتا بلکہ باہر نکلنے لگتا ہے۔ پانی اگر دریا کے کناروں کے اندر ہو تو زندگی لیکن اگرکناروں سے باہر نکل آئے تو زندگی کونگلنے لگتا ہے ۔ ہم سال بھر روتے ہیں کہ پانی نہیں ہے ، پانی نہیں ہوتا تو ارسا پنجاب اور سندھ دونوں صوبوں میں ہی فصلوں کے لئے فراہم کئے جانے والے پانی سے کٹوتی کرتی ہے، کسان کو پانی نہیں ملتا ،فصلیں جوان ہونے سے پہلے ہی مرجھانے لگتی اور ہمارے کاشتکاروں کے دل ڈوبنے لگتے ہیں۔ ہم بھی کیا عجیب ہیں کہ کبھی ہمارے پاس پانی نہیں ہوتا اور کبھی ہم سے پانی سنبھالا نہیں جاتا۔ ساون میں بادل جھوم جھوم کے آتے ہیں، پہاڑوں پر گلیشئر پگھلنے لگتے ہیں تو ہر طرف پانی پانی ہو جاتا ہے ، دریائے سندھ تو خیر بہت مہان ہے ہمارے دریائے راوی میں بھی پانی کناروں کو چومنے لگتا ہے۔ بہت سال ہوئے ایک مرتبہ یہ پانی راوی سے نکل کر شاہدرہ اور دیگر آبادیوں میں بھی آ گیا تھا مگر اب بہت عرصے سے پہاڑوں سے آنے والا پانی بھارت اپنے ڈیمو ںمیں زراعت اور بجلی کی پیداوار کے لئے جمع کر لیتا ہے، بارشوں سے بھرنے والا راوی صرف اتنا کرتا ہے کہ لاہور بھر سے اس میں ڈالی جانے والی گندگی بہا کے لے جاتا ہے۔ اب پھر اطلاعات ہیں کہ اس برس بھی ساون دل کھول کے برسے گا اور دریائے سندھ اس بار بھی بے قابو ہو گا۔ حیدر آباد سے آنے والی اطلاعات کے مطابق پانی کے اضافے کے ساتھ ہی دریائے سندھ کے مختلف مقامات پر شگاف پڑنا شروع ہو گئے ہیں جبکہ محکمہ آبپاشی اور سیڈا کے افسران کی بدعنوانی، نااہلی اور بد انتظامی کے سبب متوقع طوفانی بارشوں اور سیلاب کی صورت میں سندھ میں بڑے پیمانے پر بندوں میں شگاف پڑنے ، وسیع آبادی اور رقبہ زبر آب آنے کا خدشہ ہے۔ حکومت کی طرف سے وہاں بنائے گئے بندوں کو مضبوط کرنے کے لئے ساٹھ کروڑ روپے کی رقم جاری کی گئی تھی مگر وہاں تسلی بخش کام نہیں کرائے گئے، یہی وجہ ہے چند روز قبل سانگھڑ کے قریب نہر میں دو سو فٹ چوڑا شگاف پڑنے سے سات دیہات زیر آب آگئے تھے، اس سے ہزاروں ایکڑ رقبے پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں اور سینکڑوں خاندان بے گھر ہو کے نقل مکانی پر مجبور ہو گئے۔ مسئلہ صرف ایک نہیں ، شکار پور کے علاقے لکی غلام شاہ، دادو ضلع کے جوہی، خیر پور ناتھن، میہڑ، رادھن، خیر پور میرس کے علاقے فیض گنج وغیرہ میں بھی بااثر افراد نے اپنی زمینوں کو بچانے کے لئے بند بنائے ہوئے ہیں جس سے دریا ئی پانی کا بہاو¿ متاثر ہو رہا ہے، جیکب آباد میں سابق وزیراعظم میر ظفر اللہ خان کی زمینیں، سکھر میں موجودہ وفاقی وزیر خورشید شاہ ، صوبائی وزیر جام سیف اللہ دھاریجو، قمبر شہداد کوٹ میں صوبائی وزیر میر نادر مگسی، دادو میں مسلم لیگ نون کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر لیاقت جتوئی، نیو جتوئی میں سابق نگران وزیراعظم غلام مصطفیٰ جتوئی مرحوم کی زمینوں پر کیٹیاں بنی ہوئی ہیں، جن کو گذشتہ برس بھی بچانے کی کوشش میں علاقے ڈوب گئے تھے،د ادو کے قریبی شہر جوہی میں بھی بااثر افراد نے جگہ جگہ اپنے طور پر بند بنائے ہوئے ہیں جس سے دریا کا رخ تبدیل ہو رہا ہے۔
مجھے بہت زیادہ تکنیکی باتوں کا علم نہیں مگر اتنا ضرور جانتا ہوں کہ جب تک برسات اور سیلاب کے پانی کو دریاو¿ں کے کناروں کے اندر محدود رکھنے کا انتظام نہیںکیاجائے گا، تب تک یہ پانی تباہی مچاتا رہے گا، بااثر لوگ اپنی زمینیں بچانے کے لئے غیر قانونی بند بناتے رہیں گے اور پانی کار خ غریبوں کے گوٹھوں کی طرف موڑا جاتا رہے گا۔ اپنی اپنی زمینوں پر بند بنانے والے کالاباغ ڈیم بنانے کی اجازت دینے پر تیار نہیں ہیں حالانکہ میں جب ٹھٹھہ گیا تھا تو وہاں میں نے دریائے سندھ کو اسی طرح ایک چھوٹے سے ندی نالے کی طرح بہتے اور کیلے کی فصل کو برباد ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔ فشریز فورم کے رہنماو¿ں کے ساتھ جب میرا مکالمہ ہوا تھا تو انہیں یہی کہا تھا کہ جس کی آپ لوگ مخالفت کرتے ہیں ، وہ ڈیم پانی کی ایک ٹینکی کی طرح ہی تو ہے جس طرح ہم گھر بناتے ہوئے پانی کی ٹینکی بناتے ہیں اسی طرح یہ ڈیم بنالیاجائے، جب بارشیں ہوں اور سندھ میں سیلاب کی صورت بننے لگے تو سندھ کو ڈبونے والے پانی کو کالاباغ ڈیم کی جھیل میں قید کر لیا جائے او رجب وہاں خشک سالی ہو تو اس ٹینکی کی ٹونٹی کھول دی جائے۔ آپ کہتے ہیں کہ زمینوں کو سمندر کے کھاری ، نمکین پانی سے بچانے کے لئے دریائے سندھ میں پانی کا بہاو¿ ضروری ہے ، میں آپ کی بات سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں اور مشورہ دیتا ہوں کہ اگراس بہاو¿ کو آزاد چھوڑنے کی بجائے کنٹرول کر لیا جائے تو کتنا ہی اچھا ہو۔ ایسا نہیں ہونا چاہےے کہ مون سون میں تو یہ سیلاب بن جائے اور باقی پورا سال بوند بوند کو ترسا جائے۔ اگرسندھی بھائیوں کے کچھ تحفظات ہیں تو مل بیٹھ کر دور کئے جا سکتے ہیں کہ اس مخالفت سے ہم صرف پانی ہی نہیں بجلی کی سستی پیداوار سے بھی محروم ہو رہے ہیں۔ انہیں سوچناہو گا کہ اگر وفاق میں ایسی جماعت برسراقتدار آگئی جس نے پورے ملک میں یکساں لوڈ شیڈنگ کو یقینی بنا دیا تو پھر ان کی چیخیں پنجاب والوں سے کم نہیں نکلیں گی۔ بادلوں کی سورج سے آنکھ مچولی کو دیکھتے ہوئے مجھے یہ بھی کہنا ہے کہ کالاباغ ڈیم پر سندھ سے کہیں زیادہ خیبر پختونخواکے لوگوں کے اعتراضات وزن رکھتے ہیں، وہ کہتے ہیںکہ کالاباغ ڈیم کی جھیل تو ان کے صوبے میں بنے گی مگر پاور ہاو¿س پنجاب میں ہو گا، یعنی ساری مصیبت وہ جھیلیں گے، چھ اضلاع سے اپنی زرخیز زمینیں ہی نہیں بلکہ آباو¿ اجداد کی قبریں بھی جھیل کی نذر کریںگے مگر اس کی رائیلٹی پنجاب کو ملے گی، یوں بھی اس گلے شکوے کا بھی کوئی جواب نہیں کہ منگلا ہی نہیں تربیلا کے متاثرین ابھی تک روتے پھر رہے ہیں، ان کے آنسو پونچھنے والا کوئی نہیں تو پھر کیا اسٹیبلشمنٹ کالاباغ ڈیم کو بھی اس کے متاثرین کے آنسوو¿ں سے بھرے گی ۔ تحفظات جائز ہیں مگر چار ،ساڑھے چار سال سے تو کالاباغ ڈیم کی مخالف اور تربیلا متاثرین کی آواز بلند کرنے والی اے این پی صوبے اور وفاق میں برسراقتدار ہے، اسے چاہیے تھا کہ وہ ان متاثرین کی داد رسی کرتی اور اب بھی صرف ناں کہہ دینا اور ڈیم بننے کی صورت میں اسے بم سے اڑا دینے کی دھمکیاں دینا کسی بھی صورت جمہوری رویہ نہیں ہے۔ خطے میں جدھر دیکھیں ، ہرملک ڈیم پر ڈیم بناتا چلا جا رہا ہے اور ہم ہیں کہ قومی ایشوز کوبھی سیاسی ایشوز بنا کے بیٹھے ہوئے ہیں، یہ آمریت کے درخت کے کانٹے ہیں جو اب تک ہمارے دامن سے چمٹے ہوئے ہیں، ان سے اب ہمیں جان چھڑانا ہو گی۔ گذشتہ برس جب ایم کیو ایم کی دعوت پر میں کراچی اور نائین زیرو گیا تھا تو وہاں ٹیلی فون پر قائدتحریک الطاف حسین سے بات کرتے ہوئے ان سے کہا، ہم پنجاب سے آئے ہیں اور آپ پنجاب آنا چاہتے ہیں مگر آپ کی جماعت کالابا غ ڈیم کی سخت مخالف ہے، جسے عام پنجابی اپنی زراعت اور معیشت کے لئے ناگزیر تصور کئے بیٹھا ہے،تو کیا ہم آپ سے کالاباغ ڈیم کی حمایت کا تحفہ لے سکتے ہیں، ایسا کرکے آپ بھی پنجابیوں کے دلوں میں اپنی جگہ بنا سکیں گے۔ الطاف حسین کا جواب تھا کہ وہ کالاباغ ڈیم کے مخالف نہیں مگر سندھ اور خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے ماہرین اس حوالے سے تحفظات رکھتے ہیں، اگر کالاباغ ڈیم کے حامی، مخالفین کے تکنیکی اعتراضات اور تحفظات کا جواب دے دیں، ان کو مطمئن کر دیں تو وہ کالاباغ ڈیم کی حمایت کریں گے۔ میں بھی جب پانی سے بھرے ہوئے کالے بادل اپنے سر سے گزرتے ہوئے دیکھتا ہوں،راوی میں کشتیاں چلتی نظرآتی ہیں اور دریائے سندھ کے کناروں سے باہر نکل کر آبادیوں کو نشانہ بنانے کی خبریں آتی ہیںتو میں سوچتا ہوں کہ ہم سونے کی طرح قیمتی، قدرت کے اس تحفے کو ضائع کر رہے ہیں، جس سے ہمیں آبادہونا چاہئے ، وہ ہمیں برباد کر رہا ہے توہم کیوں ملکی سطح پر کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے لئے مکالمے کا آغاز نہیں کرتے، ایم کیو ایم کی پنجاب آنے کی خواہش، سندھ کے قوم پرستوں کے مسلم لیگ نون کے ساتھ معاہدے،یہ سب اس مکالمے کی راہ ہموار کرسکتے ہیں، ہم سب بھائی اور پاکستان ہمارا گھر ہے، ہم ایک دوسر ے کے شکوے شکایتیں دور کرتے ہوئے اپنے گھر میںپانی کی ایک ٹینکی بنانے پر متفق ہو سکتے ہیں جسے کالابا غ ڈیم کہا جاتا ہے۔
   

مزید :

کالم -