وزیراعظم پاکستان کے نام کھلا خط

وزیراعظم پاکستان کے نام کھلا خط
وزیراعظم پاکستان کے نام کھلا خط
کیپشن: pic

  

(5) ہماری طبی ادویات، عالمی ادارہ¿ صحت کی رپورٹ کے مطابق ملک کی 70فیصد سے زائد آبادی استعمال کرتی ہے۔ ان ادویات کی تیاری پر غیر دانش مندانہ، غیر منطقی اور غیر منصفانہ ضوابط کا نفاذ ملک کی اٹھارہ کروڑ میں سے چودہ کروڑ آبادی کو اپنی پسند کے طریقہ علاج کے انتخاب کے آئینی حق سے محروم کرنے کے مترادف ہوگا۔

(6) ملک کے دوا ساز اداروں ، اطبائے کرام اور مریضوں میں پھیلنے والی بے چینی ، انہیں احتجاج کرنے پر مجبور کر دے گی۔ وہ سڑکوں پر بھی آئیں گے، جس سے ایک جانب مسلم لیگ(ن) کی مقبولیت کا گراف نہ صرف تیزی سے نیچے آئے گا بلکہ موجودہ سنگین سیاسی تناﺅ کے ماحول میں امن و امان کا مسئلہ شدت اختیار کرکے حکومت کے لئے پریشانی کا موجب ہو گا۔

(7) ملک کی طبی صنعت ِ دوا سازی اور طبی طریقِ علاج کے ادارے ہمیشہ ہی حکومتی سرپرستی سے محروم رہے ہیں۔ اس کے باوجود طب یونانی (طب اسلامی) اگر زندہ ہے تو محض اپنی افادیت کی بنا پر اور اس فن سے وابستہ مخلص حضرات کی بدولت جنہوں نے تند و تیز آندھیوں کے مقابلے میں بھی طب کے جلتے ہوئے چراغ کی حفاظت کی ہے، اس کی مدھم سی لَو کو بجھنے سے محفوظ رکھا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل اور اپنی جدوجہد سے اس کی روشنی کو ہر سُو بکھیرنے کا اہتمام کیا ہے۔ اگر حکومتیں اس فن کی تسلسل کے ساتھ سرپرستی کرتی رہتیں تو ہم پورے و ثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت پورے مشرقِ وسطی کی مارکیٹ میں ہندوستان کی تیار کردہ طبی ادویات کا تسلط نہ ہوتا۔ پاکستان کی طبی صنعتِ دو اسازی اپنے معیار کی بدولت مقابلے کی اس فضا میں ترقی کی منازل طے کرتی اور ملک کو قیمتی زر مبادلہ کے ذخائرفراہم کرنے میں اپنا موثر کردار ادا کرتی ۔

بدقسمتی سے ہماری حکومتیں ، سوائے ایک آدھ دور کے ، ہمیشہ طب دشمنی کی راہ پر گام زن رہیں، جس کے نتیجے میں ہماری طبی صنعتِ دو ا سازی بین الاقوامی سطح پر مقابلے کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئی۔ اگر آج بھی بھارت کی طرح پاکستان میں بھی طبی طریقِ علاج ، اس کے اداروں اور اس کی صنعتِ دوا سازی کے لئے دوستانہ پالیسیاں تشکیل دی جائیں تو ہمارے ادارے دنیابھر میں پاکستان کی نیک نامی میں اضافہ کر سکتے ہیں، ا س کے امیج کو بہتر بنا سکتے ہیں ، اس کے لئے زرِ مبادلہ کے ذخائر کے حصول میں ممدو معاون ہو سکتے ہیں، ان شاءاللہ العزیز۔

اس منزل تک پہنچنے کے لئے ، آپ سے ہماری یہ درخواست ہے:

(1)S.R.O.412 (I) 2014 مورخہ 27مئی 2014ءکو فوری طور پر واپس لینے کے احکامات صادر فرمائے جائیں۔

(2)نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشنز اور کوارڈی نیشن کی وزارت میں طب اور طبی دوا سازی سے متعلقہ معاملات اور قوانین و ضوابط کو حتمی شکل دینے کے لئے ایسے ذمہ دار حضرات کا تقرر کیا جائے جو طب یونانی (طب اسلامی) سے کما حقہ آگہی رکھتے ہوں، اس کے فلسفہ علاج اور فن دوا سازی سے گہری واقفیت رکھتے ہوں۔ یہ لوگ متعلقہ سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے قوانین وضوابط اور طریقِ کارکا تعین کریں۔

اس ضمن میں طبی ماہرین اور طبی صنعت ِ دو ا سازی کے نمائندوں پر مشتمل ایک مستقل ایڈوائزی کمیٹی تشکیل دی جائے جو تمام متعلقہ معاملات پر غورو خوض کرکے مستقبل کا خاکہ اور لائحہ عمل مرتب کرے۔

(3)پاکستانی طبی صنعت ِدو ا سازی کے لئے انڈین ماڈل کو اپنایا جائے۔ یاد رہے کہ وزارتِ نیشنل ہیلتھ سروسز کے کارپردازوں کے ساتھ ہماری کئی ایک میٹنگز کے دوران اس امر پر اتفاق ہو گیا تھا، لیکن بدقسمتی سے جب قوانین کے نفاذ کا وقت آیا تو معاملہ بالکل الٹ ہوگیا۔ اب بھی ہمارا مطالبہ یہی ہے کہ انڈین ماڈل کو سامنے رکھتے ہوئے ملک کی طبی صنعتِ دوا سازی کے لئے نئی تشکیل دی جانے والی ایڈوائزری کمیٹی کے ذریعے اصول وضع کئے جائیں۔ ایسا کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ:

(1) نافذ کئے گئے قوانین سے بدعنوانی او رکرپشن کا نیا راستہ کھلے گا ، جس سے ہماری تیار کردہ طبی ادویات سے وہ برکت اور تاثیر اٹھ جائے گی جو اب تک اس طریقِ علاج کا خاصہ رہا ہے۔

(2)ہمیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان قوانین و ضوابط کا نفاذ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اشارے پر ان کے مفاد کے لئے کیا گیا ہے۔ یہ کمپنیاں طبی ادویات کی تیاری کے لئے اپنے اپنے اداروں میں ہر بل ڈویژن قائم کر چکی ہیں، یا کر رہی ہیں اور چونکہ ان کے پاس وہ انفراسٹرکچر پہلے سے موجود ہے جو موجودہ قوانین میں طبی دواساز اداروں کے لئے طے کیا گیا ہے، اس لئے وہ ادارے فوری طور پر طبی ادویات کی مارکیٹ پر قبضہ کر لیں گے جبکہ مقامی طبی دوا ساز اداروں کی اکثریت ، طے کردہ معیار پر پورا نہ اتر سکنے کے باعث تباہی و بربادی سے دو چار ہو جائے گی۔

(3) نافذ شدہ رولز کی رو سے ہر طبی دوا ساز ادارے پر لازمی ہے کہ اس میں کوالٹی کنٹرول لیب ہو، جس میں ہر دوا کے ہر بیج کے مختلف ٹیسٹ کرکے پھر مارکیٹ میں بھیجا جائے۔ ان میں سے کچھ ٹیسٹ اور ان ٹیسٹیوں کا طریق کار ابھی تک ایلوپیتھک کمپنیوں میں بھی رائج نہیں ہے جبکہ انہیں طبی دوا سازی پر لاگو کرکے اسے بے موت مارنے کا پروگرام تیارکیا گیا ہے۔ ہمارے نظام دوا سازی میں کوالٹی کا وہ طریقِ کار درکار ہی نہیں ہے جو ایلوپیتھک ادویات کے لئے ضروری ہے۔

(ط)نافذ شدہ رولز کے غیر منطقی ہونے کا اندازہ اس سے لگا لیجئے کہ ان کے مطابق ہر طبی دوا ساز ادارہ بی فارما سسٹ کو ملازم رکھنے کا پابند ہو گا اور اس کے سرٹیفکیٹ ((Market Authorizationکے بغیر کوئی دوا فروخت نہیں ہو گی۔ ذرا اس قاعدے کی سنگینی تو ملاحظہ فرمایئے کہ وہ بی فارماسسٹ جو طبی ادویہ سازی کی الف ب نہیں جانتا ، وہ طبی ادویات کی فروخت کے لئے سرٹیفکیٹ جاری کرے گا۔پھر یہ امر بھی ذرا ملحوظ ِ خاطر رہے کہ طبی دوا ساز ادارے اپنے خرچے پر اس شخص کے روزگار کا بندوبست کریں گے جو ان کے فنِ دوا سازی کو سرے سے جانتا ہی نہیں ، جبکہ طبی سسٹم کے اپنے حکماءاور دوا ساز بے روز گار ی کا شکار رہیںگے۔

محترم و مکرم وزیراعظم صاحب!

اسلامی علوم و فنون اور مسلم ورثے سے آپ کی غیر متزلزل وابستگی اور اس حوالے سے آپ کے تابندہ ماضی کی بدولت ہم آپ سے متوقع ہیں کہ آپ مسلم ورثہ اسلاف کے حامل اطباءاور طبی دو ا ساز اداروں پر روا رکھے جانے والے ظلم سے بچانے اور طبی دوا سازی واطباءکے معاملات کو طب یونانی / اسلامی کے ماہرین کے ذریعے ہی چلانے کے احکامات متعلقہ وزارت کو فوری طور پر صادر فرمائیں گے۔

ہم پر ظلمتیں مسلط کرنے کی جو ناپاک سازشیں کی جا رہی ہیں، ہمیں یقین ہے کہ آپ کے احکامات سے، ان شاءاللہ، ان کا خاتمہ ہو گا اور طب اسلامی ماضی کی طرح ایک بار پھر مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں شاہ راہِ ترقی پر گام زَن ہو گی۔

اللہ تعالیٰ کی بے پناہ رحمتیں اور برکتیں آپ کے ہم رکاب رہیں اور آپ ملک و ملت اور طبی ورثے کی حفاظت میں مجاہدانہ کردار ادا کرتے رہیں۔ آمین۔

      احتراماتِ فائقہ کے ساتھ

        والسلام

        ڈاکٹرزاہد اشرف

مزید :

کالم -