نا انصافی کے جواز اور کشمیر
ہندوستان کی تقسیم سے قبل ہی ہندو مسلم قیادت میں نفرتوں کی خلیج حائل تھی جو وقت گزرنے کے ساتھ کم ہونے کی بجائے وسیع اور گہری ہوتی گئی ۔وجہ یہ ہے کہ ہندو سمجھتے ہیں ہندوستان اُن کا ہے اور مسلمان اقلیت میں ہوکر بھی اُن پرہزار سال سے زائدعرصہ حکومت کرتے رہے ہیں اور اکثریت کو محکوم بنائے رکھا ۔جس میں کچھ صداقت ہے اور کچھ ذہنی افلاس کی کرشمہ سازی ہے۔شہنشاہ اکبر کے دورِ شہنشاہیت سے اگر بادشاہ کا نام منہا کردیں تو دربار سے وابستہ وزراء و اُمرا کی اکثریت غیر مسلم تھی جو بااختیار بھی تھے بادشاہ بس نام کا بادشاہ تھا ۔ بادشاہ کی زوجیت میں کئی ہندو خواتین تھیں۔مسلم دورِ حکومت میں اکٹھے رہنے کے باوجود ہندو مسلم کے دل ایک نہ ہو سکے دوریاں اِس لئے برقرار رہیں کہ مذہبی اقدارایک دوسرے کے متضاد تھیں اور ہیرو بھی ایک دوسرے کے اُلٹ ۔اب بھی مسلمان اور ہندوؤں میں نفرت کی بلند فصیل حائل ہے ۔مگر انسانی ذہن کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ خُوب سے خُوب تر کے لئے سرگرداں رہتا ہے جس کے لئے مسلمان الگ ہوگئے جسے ہندو ناقابلِ معافی جرم تصور کرتے ہیں اور اِسی جرم کی پاداش میں ملک میں موجود مسلم آبادی پر قہر ڈھاتے رہتے ہیں جنونی ذہن پاگل پن کے قریب ہوتا ہے۔ انسان بھی عجیب ہے خُود کو درست سمجھتاہے اور اپنے عمل کا جواز بھی پیدا کر لیتا ہے جسے ماہرین نفسیاتی گرہ سے تعبیر کرتے ہیں۔
تقسیمِ ہند نے خلیج کو بڑھاوا دیا جس کی تلخی وقت کے ساتھ فزوں تر ہے پینسٹھ ،اکہتر کی جنگیں تھوپنے اور چوہتر میں ایٹمی دھماکے کر نے سے پاکستان کی فوج اور صاحبانِ اقتدارنے بھارت کی طرف سے یہ پیغام لیا کہ مشرقی ہمسایہ پاکستان دشمنی کے یک رُکنی ایجنڈے پر عمل پیراہے جس کا مقصدپاکستان کو ختم کرنا ہے ۔ جاری توڑپھوڑ میں بھارت کے ملوث ہونے کے ایک سے زائد بار ناقابلِ تردید ثبوت بھی ملے جنھوں نے دہلی کی ریشہ دوانیوں پر تصدیق کی مُہرثبت کردی ۔اِس لئے مستقبل قریب میں دونوں ممالک میں قُربت کا مہین سا کوئی خواب دیکھنا بھی قرین قیاس نہیں لگتا۔ایٹمی اور میزائل دوڑ میں شامل ہو کر دونوں ملک اپنی اپنی آبادی کا سامان بنا رہے ہیں دونوں میں فرق یہ ہے ایک کے توسیع پسندانہ عزائم ہیں اور ایک مجبوراََ ایسا کر رہا ہے۔ حالانکہ مسائل حل کرکے وسائل سے غربت دورکی جاسکتی ہے تعلیم صحت کی سہولتوں میں اضافہ ممکن ہے مگر یہ خواب دیکھا جا سکتا ہے ۔ تعبیر کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
تقسیمِ ہند کے وقت ریاستو ں کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ جس سے چاہیں الحاق کر لیں مگر الحاق میں اکثریتی آبادی کی خواہش کو مدِ نظر رکھنا ہوگااِسی لئے حیدر آباد اور جونا گڑھ پر بھارت نے قبضہ کر لیا کہ ریاستوں کی آبادی ہندو ہے جو بھارت سے الحاق کی آرزومند۔جبکہ مسلم حکمران عوامی سوچ کے خلاف پاکستان سے الحاق کر رہے ہیں لیکن جب کشمیر کی بات آتی ہے تو بھارت اپنے ہی طے کردہ فامولے پر عمل نہیں کرتا۔راجہ کی طرف سے مدد مانگنے کے خط کو جوا ز بنا کر زبردستی قبضہ کررکھا ہے حالانکہ ریاست کی اکثریت مسلمان ہے اور پاکستان سے الحاق چاہتی ہے بھارت جب مسلہ کشمیر اقوامِ متحدہ میں لے کر گیا تھا تو جنگ بندی اِس شرط پر ہوئی تھی کہ الحاق کا فیصلہ کرنے کا اختیار کشمیریوں کو دیا جائے گا اب اہلِ کشمیر حق خود ارادیت کے متمنی ہیں تاکہ وہ اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کر سکیں۔ کشمیری قوم حقِ خوداِرادیت کی پاداش میں لاکھوں جانوں کے نذرانے دے چکی ہے لیکن حقِ خود ارادیت کے حصول کا جذبہ ماند نہیں پڑا۔یہ جذبہ ہنوز اُن کے دلوں میں موجزن ہے کشمیر میں بھارتی فورسز کی حراست میں شہادت پانے والے کشمیریوں کے قبرستان وجود میں آچکے ہیں لیکن نئی نسل پُر عزم ہے۔بے سروسامانی کے باوجود بزرگ و جوان حقِ خود ارادیت کے لئے ثابت قدم ہیں روز پاکستانی پرچم لہرا کر اپنی چاہت کا اظہار کرتے ہیں جبروتشدد سہتے ہیں گولیا ں کھاتے ہیں معذور ہوتے ہیں لیکن بکنے یا جھکنے کو تیار نہیں۔
کچھ لوگ خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتے ہیں تو کچھ نفسیاتی گرہ کے زیرِ اثر۔اپنے کئے کا خود ہی جواز پیدا کرنے والے۔اگر کشمیریوں کو حقِ خود اِرادیت دے بھی دیا جاتا ہے تو بھارت کے بڑے رقبے یا آبادی پر کچھ زیادہ فرق نہیں پڑتا۔وسائل بھی متاثر نہیں ہوتے لیکن بھارت سرکار پر یہ سوچ غالب ہے کہ زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو محکوم بنا کر رکھا جائے اور انھیں سُکھ کا سانس نہ لینے دیا جائے اس سوچ کو جنم دینے والا دورِ غلامی ہے جب وہ اکثریت میں ہونے کے باوجود محکومی کی زندگی بسر کرنے پر مجبورتھے اب وہ اپنی محکومی کا بدلا زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو محکوم بنا کر لے رہے ہیں اِس طرح اپنے ذہن کو تسکین دے رہے ہیں ۔جب سے بی جے پی سرکار نے عنانِِ اقتدار سنبھالی ہے وہ کشمیر پر گرفت مضبوط کرنے کے لئے ظلم وتشدد کے پہاڑ توڑ رہی ہے جنونی سرکار کے وزیرِ اعظم نریندر مودی سے دریافت کیا گیا۔کیاانھیں گجرات فسادات میں مارے جانے والے مسلمانوں پر افسوس ہے تو وہ بڑی حقارت بھرے لہجے میں کہتے ہیں میری گاڑی کے نیچے کُتے کا پلا بھی آکر مر جائے تو مجھے افسوس ہو تا ہے ایسی تشبہہ کوئی جنونی یا نفسیاتی مریض ہی دے سکتا ہے جس ملک کے سربراہ کی سوچ ایسی ہو وہ کیسے کشمیر کے بارے مثبت رائے رکھے گا؟ یا تقسیم کو قبول کرکے اچھے ہمسائیگی حقوق پر آمادہ ہو سکتا ہے۔
انسانی ذہن بھی عجیب ہے وہ مذہب کے نام پر اپنے جیسے انسانوں کے قتال پر بھی اتراتا ہے حالانکہ کوئی مذہب قتل و غارت کی ہدایت نہیں دیتا۔جس مذہب کی تعلیمات بھی پڑھیں آپ کو امن کا درس ملے گا دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنے کی تلقین ہوگی۔برداشت روا داری کا پیغام ہوگا۔لیکن جانور وں کے حقوق پر بھی لمبے چوڑے مضامین لکھنے والے اپنے جیسے انسانوں کو نہ جانے کیوں گاجر مولی کی مانند کاٹ کر رکھ دیتے ہیں اپنے لئے خوشیوں بھری اور دوسروں کے لئے رنج و الم سے لبریز زندگی کی تمنا کرنے والے ہوش و خرد سے بیگانہ ہی ہو سکتے ہیں کوئی صحت مند ایسا طرزِ عمل نہیں اپنا سکتا۔ بھارت کا خیال ہے کہ جس طرح اسرائیل عرب ممالک کو فلسطین تناز عہ پر اپنی پسند کے حل کی طرف لے آیا ہے اُسی طرح وہ بھی پاکستان اور اہلِ کشمیر کو اپنی پسند کے حل کی طرف لے آئے گا مگر ایسا ہونابعید از قیاس ہے کیونکہ اسرائیل کے ارد گرد اب کوئی بھی ایسا مسلم ملک نہیں جو فوجی لحاظ سے اُس کا ہم پلہ ہو اور اُس کامقابلہ کر سکے لیکن جنوبی ایشیاء کی صورتحال خاصی مختلف ہے پاکستان ایٹمی طاقت ہے نیز چین جیسا ایک اور طاقتور ہمسایہ بھی ہے جس کے ساتھ بھارت کے تعلقات میں اکثر کشیدگی رہتی ہے اِ س لئے ہند سرکار کو آج نہیں تو کل کسی آبرومندانہ تصفیے کی طرف آنا پڑے گاہندوستان پر مسلمان باشاہوں کی حکومت کرنے کی مسلمانوں کو سزا دینے کافیصلہ احمقانہ سوچ کے سوا کچھ نہیں۔
جنونی بظاہر انسان ہوتے ہیں مگر اُن کی جبلت جانوروں سے مشابہہ۔کیا جنوبی ایشیا کو بھی جنونی راکھ کا ڈھیر بنانا چاہتے ہیں ؟اگرکوئی جنگ و جدل کی ایسی سوچ رکھتا ہے تو اِس سوچ کو ناکام بناناہوگا جس کے لئے امن کی فضا ضروری ہے کشمیر کا مسلہ حل کئے بغیر امن کی فضا نا ممکن ہے ۔جو لوگ ظلم کے لئے لاکھ جواز پیش کریں کوئی مذہب اُنھیں نہیں سراہے گا۔نہ ہی انسانی حقوق کے حوالہ سے ایسا کرنا مستحسن فعل ہے اِس لئے جواز نہ ڈھونڈیے نہ بے جا ضدکیجئے۔ مذاکرات کے زریعے حل ڈھونڈیئے ۔کبھی روس بھی افغانستان کو اپنا حصہ رکھنے پر بضد تھاجواز بھی پیدا کر رکھے تھے لیکن تھوڑے علاقے کو ہتھیانے کے چکر میں کئی ٹکڑوں میں بٹ گیا۔ بھارت اور روس کی کبھی بڑی قُربت رہی ہے کہیں بھارت سرکار بھی روس کے نقشِ قدم پر تو نہیں چل رہی۔کشمیر کو اٹوٹ انگ کہہ کر بڑی ٹوٹ پھوٹ کی راہ تو نہیں ہموار کر رہی۔ کشمیر کے علاوہ ابھی جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں کُنیا کمار پاکستان زندہ باد کہہ رہا ہے آسام اوربہار میں پاکستان کا پرچم لہرایاہے یہ غربت نا انصافی کے خلاف صدائے احتجاج ہے جسے سمجھنے میں ہی عافیت ہے غربت کا خاتمہ امن کی فضا سے جڑا ہے نہ انصافی سے المیے جنم لیتے ہیں پھر گورباچوف کی طرح کیاجواز پیش کیے جائیں گے اور جواز کو کون سمجھے گا اور اہمیت دے گا ۔