ہر د و لعنت
ابھی ابھی فیصل آباد سے ایک اسسٹنٹ پریزائڈنگ آفیسر سے بات ہوئی ہے جو کہ پی ٹی آئی کی سپورٹر تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نون لیگ کے پولنگ ایجنٹ خود ہی گنتی میں نہیں بیٹھ رہے تھے کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ کیا نتیجہ نکل رہا ہے ۔
یہ بھی بتایا کہ نون لیگ کی پولنگ ایجنٹ ایک بڑی عمر کی خاتون تھیں جنھیں بے پناہ حبس کی وجہ سے گرمی محسوس ہو رہی تھی اور گنتی کے وقت وہ کمرے سے باہر جا کر کھلے صحن میں یہ کہہ کر بیٹھ گئی تھیں کہ آپ گنتی کریں میں آتی ہوں۔ ان کے مطابق اس کے باوجود کہ ووٹروں کو ایک ایک گھنٹے سے اوپر انتظار کروایا لیکن کسی نے اف تک نہ کی بلکہ بوڑھی بوڑھی عورتیں آ آکر بلے پر نشان لگا رہی تھیں ۔ ہم نے پوچھا کہ بلے پر ہی کیوں مہر لگا رہی تھیں تو کہنے لگیں کیونکہ بلے کی ہوا چل رہی تھی۔
ہم نے عرض کیا کہ یہ کیسی ہوا تھی کہ قومی اسمبلی کی نشستوں پر تو بلے کے لئے چل رہی تھی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر نون لیگ کے لئے چل رہی تھی ۔ یہ بھی پوچھا کہ اگر سارا پشاور اکھاڑ کر تحریک انصاف وہاں کی پاپولر جماعت بن کر ابھرسکتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اگلی بار تو وہ لوگوں کے گھر بھی گرا کر آئے گی تو مزید پاپولر ہو جائے گی ۔ انہوں نے فوراً کہا کہ ہمارے پاس تو کوئی دھاندلی نہیں ہوئی ریٹرننگ آفیسر کے پاس ہو ئی ہو تو ہواور فون بند کردیا!
مسئلہ پیپلز پارٹی کے ووٹر کا تھا ، پیپلز پارٹی کے ووٹر نے نواز شریف سے بدلہ لے لیااور نواز شریف کی صورت میں جنرل ضیاء الحق سے بدلہ لے لیا ۔ اللہ اللہ خیر ی سلہ !....اب وہ بلاول کے پیچھے چل پڑیں گے اور تحریک انصاف اگلے انتخابات میں قاف لیگ ثابت ہوگی ۔ ہم کولہو کے بیل کی طرح ایک ہی جگہ چکر کاٹے جا رہے ہیں ۔لیکن ہمارا پیپلز پارٹی کے دوستوں سے گلہ ہے کہ انہوں نے اگر قومی اسمبلی کی نشستوں پر پی ٹی آئی کو ووٹ ڈالا تھا تو صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر بھی اسے ہی ڈالنا چاہئے تھا، یا پھر وہ کہہ دیں کہ انہوں نے ووٹ ڈالا ہی صرف قومی اسمبلی کے امیدواروں کو ہے۔
پیپلز پارٹی سے زیادہ قصور وار الیکٹرانک میڈیا ہے جس نے ہتھیار ڈال دیئے ۔ مجال ہے جو سارا دن فیلڈ رپورٹروں کے براہ راست Beeper لئے گئے ہوں ، اول تو لئے ہی نہیں گئے اور اگر لئے بھی گئے تو پہلے ریکارڈ کیے گئے اور پھر چلائے گئے۔ کچھ ٹی وی چینلوں کے رپورٹروں نے بتایا کہ انہیں باقاعدہ ہدایات دی گئی تھیں کہ کیا کہنا ہے اور کیا نہیں کہنا ہے۔
سلیم صافی بھی کہتے پائے گئے کہ انہیں بار بار کہا جا رہا ہے کہ صرف اچھی اچھی باتیں کریں ، حامد میر تک نے امتیاز عالم سے کہا کہ ایسی باتیں نہ کریں اور ٹرانسمیشن چلنے دیں ۔ واضح رہے کہ Ruetersنامی خبر رساں ایجنسی نے خبر دی تھی کہ جیو کو ایک معاہدے کے بعد نشریات چلانے کی اجازت دی گئی ہے ۔ ادھر نواز شریف ابو ظہبی ایئرپورٹ پر کہہ رہے تھے کہ اگر تیس چالیس فیصد میڈیا بھی سٹینڈ لے لے تو پاکستان میں حالات بدل سکتے ہیں ۔
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ زیادہ سے زیادہ وہ آپ کو بند کرسکتے ہیں لیکن اگر آپ سٹینڈ لے لیں تو کتنے دن بند کر سکتے ہیں ؟ ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں پاکستان میں انتخابات سے قبل شائع ہونے والے تنقیدی مضامین کو مقامی اخبارات میں Reproduceنہیں ہونے دیا گیا۔ پیپلز پارٹی کی سیاسی مجبوری تو سمجھ آنے والے شے ہے ، اس کے پاس ہو سکتا ہے کہ اس کے سوا کوئی اور چارہ نہ ہو وگرنہ ان سے سندھ کی حکومت بھی چھین لی جاتی لیکن میڈیا کو ایسی کیا مجبوری تھی ، سمجھ سے بالا تر ہے۔
نون لیگ کی مریم اورنگ زیب اور سنیٹر ڈاکٹر مصدق ملک نے میڈیا کو بتایا کہ نون لیگ کے 16000ورکروں کو قید میں ڈالا گیا ۔ ہمارا اندازہ ہے کہ ان 16000میں اکثریت ان بلدیاتی کونسلروں کی ہوگی جو گراس روٹ لیول پر عوام کو نکال سکتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس مرتبہ گلی محلوں میں اس طرح کا انتخابی جوش و خروش نہیں دیکھا گیا جو کبھی ایسی صورت حال کا خاصہ ہوا کرتا تھا۔ آ جا کر شہر میں پی ٹی آئی کے پولنگ کیمپ ہی متحرک نظر آئے جہاں پر بیٹھے لوگ پرچی بنوا کر جانے والے کے بارے میں ایسی گفتگو فرماتے نظر آتے تھے کہ یہ پرانا پیپلیا ہے اور اس کے سارے گھر والے ووٹ ڈالنے آئے ہیں۔
چنانچہ پیپلز پارٹی والوں نے منصوبہ سازوں کی راہ آسان کی ، میڈیا نے مینڈیٹ کی چوری پر آنکھیں بند رکھیں اور نون لیگ کے 16000ورکر انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر اٹھالئے گئے اور یوں گلیاں ہویاں سنجیاں اور ان کے بیچ مرزا یار گھومتا رہا اور نون لیگ گھرانوں کی مائیں اپنے بچوں کو خاموش کراتی رہیں جن کو ان کے پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے دوست ٹیلی فونون پر سات بجے سے ہی چھیڑنا شروع ہو گئے تھے۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف کی نااہلی کے بعد حلقہ 120میں نون لیگ کو کم سے کم ووٹ ڈلوانے کے لئے حکمت عملی یہ اختیار کی گئی تھی کہ ووٹروں کو پولنگ اسٹیشنوں میں جانے ہی نہ دیا جائے لیکن جب ٹی وی چینلوں پر لمبی لمبی قطاریں چلیں تو لوگوں نے حیرت سے پوچھا کہ ان کو کیوں روکا جا رہا تھا تو پتہ چلا کہ صرف اسے اندر جانے کی اجازت تھی جس کے ہاتھ میں پی ٹی آئی کی پرچی ہوتی تھی۔ اس مرتبہ لوگوں نے شروع سے ہی پی ٹی آئی کی پرچی بنوائی تو اندر ان کو ووٹ ڈالنے کے عمل کے دوران ایک پولنگ بوتھ سے دوسرے پولنگ بوتھ کے چکر لگوائے گئے اور یوں ووٹنگ پراسس کو جان بوجھ کر سست رو رکھا گیا جبکہ پولنگ ایجنٹوں کو فارم 45دینے کے بجائے دھکے دے باہر نکال کر گنتی کی گئی اور کروائی بھی گئی اور قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کو جتوادیا اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر نون لیگ کو جتوادیا گیا۔
سوال یہ ہے کہ جس نے قومی اسمبلی کے لئے پی ٹی آئی کو ووٹ ڈالا ، اس نے صوبائی اسمبلی کے لئے نون لیگ کو کیوں ڈالا ؟ کیا ووٹروں کا دماغ خراب تھا یا عمران خان کی طرح خالی تھا کہ ایسی اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتے رہے۔مسلم لیگ نون کا مینڈیٹ چوری ہوگیا اور چوروں نے نون لیگ کی قیادت کو باندھ کر اور ان کے منہ پر ٹیپ لگا کر اس کے گھر میں ڈاکہ ڈالا ہے ، یہ دھاندلی نہیں ڈاکہ ہے ۔
اس چوری کا پرچہ لینے کیلئے الیکشن کمیشن بھی تیار نہیں ہے ، میڈیا بھی اس کی خبر نشر کرنے کو تیار نہیں ہے اور کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ دینے والے حیرت سے میٹرو بس کے ٹریک پر چلنے والی بس کو دیکھ رہے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ اس سے تو بہتر تھا کہ نون لیگ بھی پشاور شہر میں پی ٹی آئی کی طرح لاہور شہر کی کھدائی کرکے چھوڑدیتی !تمام چھوٹی بڑی جماعتوں نے انتخابی عمل کو دھاندلی زدہ قرار دیا ہے ، نون لیگ کے شہباز شریف نے تو نتائج کو مسترد بھی کردیا ہے ، پیپلز پارٹی والوں نے آج اجلاس کے بعد کردینا ہے لیکن اس کے بعد اگر اس ملک میں غدر مچا تو اس کا پہلا شکار سڑکوں پر پھرنے والا عام پاکستانی ہو گا۔
آنے والے حالات کی ابتری کی قیمت مجھے اور آپ کو دینا پڑے گی اور نون لیگ مزید گالیاں کھائے گی کہ اس نے حالات ایسے کر دیئے کہ پی ٹی آئی کی مخلص قیادت سنبھال نہیں پارہی ہے ۔ ہر دو لعنت!2018ء کے انتخابات گزشتہ دو سالوں کے بحران کو حل نہیں کر پائے ہیں اور آئندہ کئی سالوں کے بحران کا پیش خیمہ ثابت ہوں گے۔ کیا اس ملک میں ووٹ کوکبھی عزت مل پائے گی؟