عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا۔۔۔قسط نمبر33

عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا۔۔۔قسط نمبر33
عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا۔۔۔قسط نمبر33

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جہاں تک ینی چری میں قاسم کی ذمہ داریوں کا تعلق تھا تو فی الحقیقت وہی اس کی مستقل ملازمت تھی۔ سلطان شہزادہ محمد کو نوعمری میں ہی تخت پر بٹھا کر خود ایشیائے کوچک کی ریاست ’’ایدین‘‘ میں چلا گیا ۔ یہ نہ صرف ایک پر فضا مقام تھا بلکہ یہاں ایک خانقاہ بھی تھی۔ جس میں ہمہ وقت ذکر و فکر اور زہد و عبادت کی مجلسیں جاری رہتیں۔ ’’ایدین ‘‘ میں شہری زندگی کے ہنگامے نہیں تھے۔ بلکہ یہاں کی آب و ہوا اور خاموش ماحول سلطان کو تختِ سلطنت سے ہزاروں گنا بڑھ کر محسوس ہوا۔ سلطان یہاں شب وروز ذکر و فکر اور عبادات میں مشغول ہوگیا ۔ سلطان مرادخان ثانی درحقیقت ایک درویش اور فلسفی مزاج شخص تھا ۔ اسے مادہ پرستی سے سخت نفرت تھی۔ وہ شہروں میں رہنے والے اور دولت اکٹھی کرنے والے لوگوں کو جہنم کے باشندے کہا کرتا تھا ۔اس کے نزدیک دنیا کی دولت کے لیے تگ و دو کرنے والے شیطان کے پیروکار تھے۔ وہ جانتا تھا کہ حقیقی زندگی کا راز معرفتِ الٰہی میں پوشیدہ ہے۔ چنانچہ اس نے تختِ سلطنت سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا تو اسے زرو جواہرات چھوڑنے کا ایک لمحے کے لیے بھی ملال نہ ہوا۔

عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا۔۔۔قسط نمبر32پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں


سلطان ادرنہ چھوڑ کر چلا گیا ۔ سلطان مراد خان ثانی کی تختِ سلطنت سے دست برداری اور ایک نو عمر شہزادے محمد خان کی تخت نشینی کا حال سن کر عیسائیوں کے منہ میں پانی بھر آیا ۔ اور انہوں نے اس موقع کو بہت ہی مناسب اور غنیمت سمجھ کر معاہدہ شکنی کا ارادہ کیا ۔ ہنگری کی مجلسِ قومی نے ترکوں کو یورپ سے نکالنے کے لیے ان حالات کو سنہری موقع قرار دیا ۔ اس غداری کا اصل محرک پوپ کا نمائندہ کارڈنیل جولین تھا ۔ جو پوپ کی پوری تائید کے ساتھ معاہدہ شکنی پر زور دے رہا تھا ۔ پوپ یعنی پاپائے روم روما کے .....رومن کیتھولک چرچ کا سربراہ تھا ۔ چنانچہ جونہی پوپ نے یہ فتویٰ دیا کہ مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ توڑنا گناہ نہیں تو سارے یورپ میں جوش و جذبے کی لہر دوڑ گئی۔ قیصرِ قسطنطنیہ بھی اس تحریک میں پیش پیش تھا ۔ حالانکہ قیصر آرتھوڈکس کلیسا کا پیرو کار تھا ۔ آرتھوڈکس کلیسا ، رومن کلیسا کا شدید مخالف تھا ۔ اس کے باوجود قیصر قسطنطنیہ مسلمانوں کے خلاف کارڈ نیل جولین اور ہنگری والوں کے ساتھ قدم بقدم چل رہا تھا ۔عیسائیوں کے لیے یہ حالات بے حد امید افزاء تھے۔ سلطنتِ عثمانیہ کی زمامِ حکومت ایک نوعمر لڑکے کے ہاتھ میں تھی۔ اور یہی خبر سن کر ایشیائے کوچک میں امیر کرمانیا نے پھر بغاوت شروع کر دی تھی۔ عثمانی فوجیں امیر کرمانیا کو سبق سکھانے کے لیے ایشیائے کوچک کی جانب روانہ ہوچکیں تھیں۔ ادھر درِ دانیال پر ’’جنیوا‘‘ ، وینس‘‘ اور برگنڈی‘‘ کے بحری بیڑوں کا قبضہ تھا ۔ جن کی موجودگی میں عثمانی فوجوں کے لیے درِ دانیال کو عبور کرنا بہت مشکل تھا ۔ تمام حالات عثمانی سلطنت کے خلاف اور صلیبیوں کے حق میں تھے۔ لیکن اس کے باوجود ہنگری کا بادشاہ لارڈ سلاس ، سلطان کے ساتھ کیے گئے معاہدہ کی خلاف ورزی نہ کرنا چاہتا تھا ۔ ہنگری کی مجلسِ قومی کے بعض دیگر ارکان بھی اس معاہدہ شکنی کو غیر اخلاقی حرکت قرار دے رہے تھے۔ حتیٰ کہ خود ہونیاڈے بھی عہد شکنی کے حق میں نہ تھا ۔ لیکن ’’کارڈ نیل جولین‘‘ نے اپنے مذہبی اثر سے کام لیا اور پاپائے روم کے فتوے سے بادشاہ کے ضمیر کو مطمئن کر دیا کہ غیر عیسائیوں کے ساتھ معاہدہ کی پابندی نہ کرنی چاہیے۔ ہنگری کی مجلسِ قومی کے ارکان کی مخالفت بھی اسی فتویٰ سے دبادی گئی۔ اور جولین نے مجلس میں اعلان کیا کہ اس فتویٰ میں خود پوپ کی تائید بھی شامل ہے۔ اس نے مجلس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:۔
’’کیا تم اس موقع پر ان امیدوں کو توڑ دو گے ۔ جو لوگوں نے تمہارے ساتھ قائم کررکھیں ہیں۔ اس خوش بختی سے فائدہ نہیں اٹھاؤ گے جو تمہیں نصیب ہوئی ۔ تمہارا عہدو پیمان تمہارے خدا اور تمہارے مسیحی بھائیوں کے ساتھ ہے۔ اور وہ سابق معاہدہ اس عاقبت نااندیشانہ اور مخالفِ مذہب عہد کو ساقط کردیتا ہے۔جو مسیح ؑ کے دشمنوں سے باندھا گیا ہو۔ دنیا میں مسیح ؑ کا نائب پاپائے رومہ ہے۔ جس کی اجازت کے بغیر تم نہ تو کوئی وعدہ کر سکتے ہو اور نہ اس کو پورا کرسکتے ہو۔ اس کی طرف سے میں تم کود روغِ خلفی سے بری الذمہ کرتا ہوں۔ اور تمہاری فوج کو برکت دیتا ہوں۔ شہرت اور نجات کی راہ پر تم میرے پیچھے پیچھے چلو اور اگر اب بھی تمہیں کچھ پس و پیش ہے تو میں اس گناہ کا وبال اپنے سر لیتا ہوں۔‘‘(دولت عثمانیہ ، جلد اول، بحوالہ گبن، جلد چار۴ صفحہ ۴۶۴)
ہونیاڈے ابھی تک کارڈنیل جولین کی باتوں میں نہ آسکا تھا ۔ اور وہ ترکوں کے ساتھ معاہدہ شکنی کو برا خیال کرتا تھا ۔ لیکن جب ہونیاڈے کے ساتھ یہ وعدہ کیا گیا کہ بلغاریہ کو ترکوں سے چھیننے کے بعد ہونیاڈے کے حوالے کر دیا جائے گا۔ اور ہونیاڈے کو وہاں کا بادشاہ بنادیا جائے گا، تو وہ بھی راضی ہوگیا ۔
ہونیاڈے کے راضی ہونے کی دیر تھی کہ صلیبی افواج جنہوں نے دس سال کے لیے مسلمانوں کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا وعدہ کیا تھا ۔ آن کی آن میں تیار ہونے لگیں۔ ہونیاڈے نے تجویز پیش کی کہ معاہدہ شکنی کا اعلان یکم ستمبر 1444ء کے دن تک خفیہ رکھا جائے۔ اس کا خیال تھا کہ عیسائیوں کی اتحادی افواج یکم ستمبر تک صلح نامہ سے پورا پورا فائدہ اٹھالیں گی۔ اور ان تمام علاقوں او ر قلعوں پر قابض ہوجائیں گی جنہیں معاہدہ کی وجہ سے ترک فوجی دیانتداری کے ساتھ خالی کررہے تھے۔ سربیا کے بادشاہ ’’جارج برنیک وچ‘‘ کو سلطنت میں اضافے کا لالچ دیا گیا ۔ چنانچہ وہ بھی معاہد ہ شکن اتحادیوں کے ساتھ شامل ہوگیا ۔
’’جس طریقہ سے یہ غداری عمل میں لائی گئی ۔ اس سے زیادہ معیوب بات یورپ کے سور ماؤں اور ایک بڑے سپہ سالار کی شہرت کے لیے تصور میں بھی نہیں آسکتی ‘‘۔ (بقول لین پول)
ابھی صلح نامے کو لکھے ہوئے ایک مہینہ بھی نہ گزرا تھا کہ اس کے توڑنے پر عیسائی متفق ہوگئے۔ جس وقت عثمانی دستے سربیا ، والیشیا(ولاچیا )، اور دریائے ڈینوب کے ساحل پر واقع قلعے خالی کرکے نکل آئے اور اتحادیوں نے صلح نامے سے پوری طرح فائدہ اٹھالیا۔ تو شاہ لارڈ سلاس ، کارڈ نیل جولین اور ہونیاڈے یکم ستمبر کو بیس ہزار کی فوج لے کر سلطنت عثمانیہ پر حملہ کرنے کی غرض سے روانہ ہوئے ۔ ترک اس فریب سے بالکل بے خبر تھے۔ نتیجتاً متعدد قلعے ان کے ہاتھوں سے نکل گئے ۔ قلعوں میں موجود ترکی دستے یا قتل کردیے گئے یا چٹانوں سے گر کر ہلاک کردیے گئے۔ ہنگری کی فوجیں بے خبر ترکی سراحدات کو تاخت و تاراج کرتی ہوئی بلغاریہ کے راستے بحرہِ اسود کے کنارے پہنچیں اور وہاں سے جنوب کا رخ کیا ۔ اسی طرح وہ کئی اہم مقامات کو فتح کرتے ہوئے ’’وارنا‘‘ پہنچیں اور شہر کا محاصرہ کرلیا ۔ یہاں بھی ترک اس اچانک حملہ کے لیے بالکل تیار نہ تھے۔ مجبوراً انہیں ہتھیار ڈالنے پڑے ۔ اور ’’وارنا‘‘ پر بھی عیسائیوں کا قبضہ ہوگیا ۔ اس سے پہلے راستے میں جس قدر ترکی فوجیں آئیں مقتول و مغلوب ہوتی رہیں۔ اور تمام علاقے میں عیسائیوں نے بڑی بے رحمی اور سفاکی کے ساتھ مسلمانوں کا قتلِ عام کیا ۔
صلیبیوں کی معاہد ہ شکنی کی خبر جس وقت نوعمر سلطان محمد خان کے پاس پہنچی ۔ اس وقت تک وارنا شہر فتح ہوچکا تھا ۔ نو عمر شہزادہ اس قدر سنگین حالات کا سن کر گھبرا گیا۔ اس نے فوری طور پر دربارِ سلطنت لگایا اور اپنے سپہ سالاروں اور مشیروں ، وزیروں سے مشورے کرنے لگا۔ دربار میں موجود ہر شخص پر غم و غصے کی کیفیت طاری تھی۔ ینی چری کا بوڑھا سپہ سالار ’’خواجہ خیری‘‘ دربار میں سب سے زیادہ پرجوش دکھائی دیتا تھا ۔ نوعمر سلطان نے دربار کی کار روائی کا آغاز کرتے ہوئے اپنے عمائدینِ سلطنت سے کہا:۔
’’محترم وفادارنِ سلطنت ! جیسا کہ آپ کے علم میں آچکا ہے کہ یورپ کے بد فطرت عیسائیوں نے ہمارے سلطانِ معظم کے ساتھ کیا ہوا معاہدہ توڑ دیا ہے۔ اور ہمارے بہت سے قلعوں اور شہروں کو تاخت و تاراج کرنے کے بعد ہمارے شہر ’’وارنا‘‘ پر قابض ہوچکے ہیں۔ عیسائی لشکر یورپ سے ترکوں کو نکال دینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے معاہدہ شکنی کرکے تاریخ انسانی میں اپنے بد ترین کردار کا ثبوت دیا ہے۔
یہ ہیں موجودہ حالات جن سے نمٹنے کے لیے میں نے یہ مجلسِ مشاورت منعقد کی ہے........ہماری زیادہ تر افواج امیر کرمانیا کے خلاف ایشیائے کوچک کی بغاوتیں کچلنے میں مصروف ہیں یہاں ہمارے پاس ینی چری کے بعض بہترین دستوں سمیت لگ بھگ پینتیس ۳۵ ہزار کی ایسی سپاہ موجود ہے جسے لے کر ہم ہونیاڈے کے مقابلے پر نکل سکتے ہیں۔ لیکن میں گزشتہ کئی دنوں سے محسوس کرتا ہوں کہ ہمارے بعض پرانے سپہ سالار اور وزراء اب عیسائیوں کے ساتھ پنجہ آزمائی کرتے ہوئے کتراتے ہیں۔ ایسے عالم میں میں آپ لوگوں سے سلطنت کی بہتری کا مخلصانہ مشورہ طلب کرتا ہوں۔‘‘
نو عمر سلطان نے اپنی عمر سے بڑھ کر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حاضرین دربار سے بات کی ۔ سب لوگ اپنی اپنی نشستوں پر براجمان شہزادے کی باتیں غور سے سن رہے تھے۔ ینی چری کے پرانے وفادار سپہ سالار ’’خواجہ خیری‘‘ نے سب سے پہلے اٹھ کر سلطان محمد سے کہا:۔
’’سلطانِ معظم ! آپ نے جن سالاروں اور وزراء کا ذکر کیا ہے۔ وہ سلطنت کی بقاء کے لیے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہانے کو تیار ہیں۔ کوئی سچا مسلمان عیسائیوں کے ساتھ پنجہ آزمائی سے نہیں گھبراتا ۔ دراصل سلطنت کے بعض پرانے وفادار یہ چاہتے ہیں کہ بڑے سلطانِ معظم ، عزت مآب حضرت سلطان مراد خان ثانی خود صلیبی افواج کے خلاف ہمارے لشکر کی قیادت کریں۔‘‘
خواجہ خیری نے بات مکمل ہی کی تھی کہ طبیب سلیم پاشا فوراً اٹھ کھڑا ہوا۔ اور انتہائی غصے سے خواجہ خیری کی جانب دیکھتے ہوئے سلطان سے کہا:۔
’’سلطانِ معظم کا اقبال بلند ہو! میرا خیال ہے کہ محترم سالار خواجہ خیری اب بوڑھے ہو چکے ہیں۔ جنہوں نے بڑے سلطانِ معظم کو گوشہ نشینی سے واپس بلانے کی تجویز دی۔ سلطانِ معظم ! آپ کے مبارک بدن میں تروتازہ خون دوڑ رہا ہے۔ آپ کی قیادت ہی صلیبی افواج کے لیے موت کا پیغام ہوسکتی ہے۔ آپ کی قیادت میں عثمانی افواج جس قدر بہادری اور چستی کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کریں گی۔ پرانے سالاروں کی قیادت میں اس قدر ولولہ ان میں پیدا نہ ہوگا۔ چنانچہ میری استدعا ہے کہ آپ اپنے والدِ محترم کو گوشہء عزلت سے نکلنے کی تکلیف نہ دیں۔ اور خود عثمانی افواج کی قیادت سنبھالیں۔‘‘
سلیم پاشا غدار تھا ۔ اس کا اصل نام ’’لوگان‘‘ تھا ۔ اور یہ ابوجعفر کے زمانے میں ایک طبیب کی حیثیت سے ادرنہ میں داخل ہوا تھا ۔ یہی شخص تھا جس نے شہزادہ علاؤالدین کو سست اثر زہر دے دے کر شہید کردیا تھا ۔سلیم پاشا یقیناًیہ چاہتا تھا کہ نوعمر سلطان صلیبی افواج کے مقابلے کے لیے خود جائے۔ تاکہ ہونیاڈے جیسے مایہء ناز سالار کے سامنے نہ ٹھہر سکے۔ اور شکست سے دوچار ہو۔ لیکن قاسم جو سلیم پاشا کو گہری نظروں سے گھور رہا تھا ، اپنی نشست سے اٹھا اور نوعمر سلطان سے کہا:۔
’’سلطانِ معظم ! محترم سالار خواجہ خیری نے جو مشورہ دیا ہے۔ اسی میں ہی سلطنت کی بہتری ہے۔ تختِ سلطنت پر بیٹھنا اور بات ہے........اور میدانِ جنگ میں دشمن کی چالوں کو سمجھنا اور بات ۔ آپ کو تاحال کسی بڑی جنگ میں حصہ لینے کا موقع نہیں ملا۔ چنانچہ یہی بہتر ہے کہ بڑے سلطانِ معظم یعنی آپ کے والدِ محترم کو پھر سے تختِ حکومت سنبھالنے کی درخواست کی جائے۔ یہی صورت ہے سلطنت کے بقاء کی ، اور اسلامی بہبود کی۔‘‘
سلطان محمد اپنے دوست قاسم کی بات دل کی گہرائیوں سے سن رہا تھا ۔ اسے خود احساس تھا کہ وہ ابھی کسی بڑے لشکر کی قیادت کا اہل نہیں۔ چنانچہ اس نے مزید مشاورت کو غیر ضروری سمجھتے ہوئے اپنا حکم جاری کیا:۔
’’حاضرینِ دربار! ہمیں اپنے رفیق و جلیس قاسم بن ہشام اور محترم سالار خواجہ خیری کے مشورے سے اتفاق ہے۔ اور ہم انہیں دونوں وفادارانِ سلطنت کو حکم دیتے ہیں کہ یہ آج ہی ’’ایدین ‘‘ روانہ ہوں اور فی الفور سلطانِ معظم کو واپس ادرنہ لے کے آئیں........‘‘
سلطان محمد نے معنی خیز نظروں سے سلیم پاشا کی جانب دیکھا اور پھر کہا:۔
’’اس کے علاوہ ہم اپنے رفقائے سلطنت پر یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ ہمیں خوشامد کرنے والوں اور خوشامد سننے والوں دونوں سے شدید نفرت ہے۔‘‘
اتنا کہہ کر سلطان محمد خاموش ہوگیا ۔ بعدازاں ضروری معاملات پر بحثیں ہوتی رہیں اور پھر سلطان مراد خان ثانی کی واپسی تک دربار برخاست کردیا گیا ۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)