اُس بازار میں۔۔۔طوائف کی ہوش ربا داستان الم ۔۔۔قسط نمبر15

اُس بازار میں۔۔۔طوائف کی ہوش ربا داستان الم ۔۔۔قسط نمبر15
اُس بازار میں۔۔۔طوائف کی ہوش ربا داستان الم ۔۔۔قسط نمبر15

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

میرے والد پٹیالے میں اپنے گاؤں کے نمبردار تھے ان کا نام شیخ عطا محمد ہے وہ تین سو بیگھے بارانی اور تین سو پینسٹھ بیگھے نہری زمین کے مالک تھے ، جب بٹوارہ ہوگیا تو ہمیں گاؤں چھوڑنا پڑا ۔ریاست نے مسلمان پناہ گزینوں کے لئے بہادر گڑھ کیمپ جاری کر رکھا تھا سا را کنبہ وہیں پہنچ گیا۔ ہزار ہا لوگ تھے ہٹوارہ کیا تھا ایک زلزلہ تھا۔ چاروں طرف خون ہی خون تھا۔ ہند و صرافوں نے لاکھوں روپے کا سونا تیس 30روپے کے حساب سے خرید کیا۔ مہاراج کے فوجی صبح و شام کیمپ کا چکر لگاتے جو عورت پسند ہوتی اُٹھا کر لے جاتے ۔ ‘‘
اس پر اُس کی آواز کسی قدر روندھ گئی ۔۔۔ اکالی دل نہیں ٹڈی دل ۔۔۔ انسانی آبرو کو بری طرح اُجاڑ رہا تھا۔۔۔ ہزار ہا مسلمان بے حق دھاتوں کی طرح تھے باپ اور بھائی کے سامنے اُن کی بیٹی اور بہن کو ٹٹولا جاتا۔ حکم ہوتا نقابیں اُلٹ دو ۔سور ما لڑکیاں چُن لیتے۔ گویا لڑکیاں نہیں جامنیں ہیں ، کوئی قانون اور انصاف نہ تھا۔ بیس 20روپے سیر آٹا، دو آنے میں پانی کا گلاس اور چالیس 40روپے سیر نمک !‘‘
’’تم پر کیا بیتی۔۔۔ ؟ ‘‘

اُس بازار میں۔۔۔طوائف کی ہوش ربا داستان الم ۔۔۔قسط نمبر 14پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں


’’ ہم پر ۔۔۔ ماں نے تو کیمپ ہی میں دم توڑ دیاوالد کی عمر اسی برس کی ہے اور ہمیں اس حالت میں دیکھنے سے پہلے ہی اندھے ہو چکے ہیں ہم کل آٹھ جی ہیں بڑی بہن ، چھوٹی بہن ، بھتیجی ، تین چھوٹے بھائی باپ اور میں سب کا بوجھ میرے کندھوں پر ہے ‘‘
’’تمہارے ؟‘‘
’’جی ہاں ‘‘
’’ اور تم یہاں کیسے آئی ہو ؟ ‘‘
’’پاکستان تک تو خدا لایا تھا ، اِ س بازار میں پیٹ لے آیا ہے۔‘‘
’’کیا تمہارا سور ماؤں کے ہاتھ سے بچ نکلنا معجزہ نہیں ؟‘‘
’’جی ہاں ۔۔۔ وہ تو میں نے عرض کیا ناکہ خدا لے آیا ہے خان لیاقت علیخاں کی بدولت سپیشل ٹرین کا انتظام ہوگیا اور ہم شاہدرہ پہنچ گئے۔ ‘‘
’’پھر کیا ہوا‘‘
’’ہوتا کیا ؟ کئی روز تک وہاں کھلے میدان میں پڑے رہے ۔ پھر ادھیڑ عمر کے ایک شخص نے دستگیری کی اور خدا ترسی (اس پر وہ ذرا مسکرائی) کے جذبے میں گھر لے گیا۔ اُس کا مکان انار کلی میں تھا۔ ہمیں چھینٹ کے کپڑے سلوا دیے۔ اس کی باتوں میں شہدتھا۔ والد مکان وغیرہ الاٹ کرانے کی فکر میں تھے ہمارا یہ اجنبی مدد گار درخواستیں لے جاتا لیکن بے سود ، تیسرے چوتھے روز ایک عورت نے آنا شروع کیا اُس کا نام گلزار تھا۔ پہلے اکیلی آتی رہی ، پھر اُس کے ساتھ کچھ جوان لڑکیاں آنے لگیں۔ تمام ریشمی کپڑوں اور سونے کے زیورات میں لدی پھندی ہوتیں ایک دن اُس نے مجھے بہکانہ شروع کیا۔ ‘‘
’’ دیکھو تمہارا باپ اندھا ہوگیا اور قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھا ہے غیر کب تک روٹی کھلائی گا۔۔۔ گانا سیکھ لو اس میں کوئی برائی بھی نہیں ۔۔۔ ایک آرٹ ہے خدا مسبّب الاسباب ہے اس طرح روٹی کی فکر سے آزاد ہوجاؤ گی ۔ ‘‘ یہ میرے لئے ایک نیا مرحلہ تھا ۔ میرا انگ انگ کانپ گیا کئی خوف میرے سامنے آگئے خدا خوف ضمیر کا خوف انسان کا خوف باپ کا خوف اور اس ماں کی قبر کا خوف ، جس کی چھاتی سے ہم نے دودھ پیا تھا گلزار گھاٹ گھاٹ کا پانی پئے ہوئے تھی اُدھر اُس کی چکنی چپڑی باتیں تھیں ادھر ہمارا پیٹ خالی تھا، سو چادل نہ مانا ۔ انکار کیا تو اس کا اصرار بڑھا ۔۔۔ وہ شخص جو ہمیں اس مکان میں لایا تھا کئی روز سے غائب تھا۔
گلزار نے دیکھا سیدھی اُنگلیوں سے گھی نہیں نکلتا تو مطالبہ کیا تم پر اب تک آٹھ سو روپیہ خرچ ہوچکا ہے ادا کرو اور چلی جاؤ۔ اُس کا یہ کہنا تھا کہ پاؤں تلے سے زمین نکل گئی مرتا کیا نہ کرتا آخر اس بازار میں پہنچ گئے۔ اگلی صبح اُستاد جی اگئے۔ تعلیم شروع ہوگئی آواز میں لوچ تھا ہی اب ترتیب پاگیا اور ناچنا کچھ تو اس فضا سے سیکھا کچھ فلموں سے ۔ تھوڑے ہی دنوں میں آواز کی آڑ میں جسم کا چرچا ہوگیا۔ آپ یقین کیجئے میں نے ضمیر کی ایک ادنیٰ سی گھبراہٹ کے بعد اپنا جسم بیچ ڈالا اب ہم دونوں بہنیں بازار کا مال تھیں۔‘‘
’’تمہارا دل اس سے متنفر نہ ہوا ؟‘‘
’’کیوں نہیں ؟ لیکن یہ ماحول ہی ایسا ہے کہ جب کوئی آدمی کسی نی کسی طرح یہاں آپہنچتا ہے تو پھر یہیں کا ہوجاتا ہے۔‘‘
’’ کیا پٹیالہ میں تمہارا نکاح ہوچکا تھا ؟‘‘
’’جی ہاں ! میرے بہن نے خود طلاق حاصل کی اور مجھے طلاق مل گئی تھی ۔‘
’’کیا وجہ ہوئی ؟‘‘
’’یہ خاندانی جھگڑے کچھ عجیب سے ہوتے ہیں ، ان کے ذکر سے آپ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔‘‘
’’ اچھا تم نے کچھ راگ بھی سیکھے ہیں ؟‘‘
’’ صرف ایک راگ جس کا کوئی نام نہیں۔۔۔ اور گانے والیاں تو اس بازار میں دو چار ہی ہوں گی ، ہمارا کام تو صرف خوش وقتی ہے۔‘‘
’’گلزار نے تمہیں کیا دیا ؟‘‘
’’ مجھے اور میرے متعلقین کو روٹی کپڑا۔‘‘
’’ اور تم نے اُس کو کیا دیا ؟‘‘
’’میں نے اس کو ایک سال میں چالیس ہزار سے زائد روپیہ کما کر دیا جس سے وہ ایک عالیشان بلڈنگ خرید چکی ہے۔‘‘
’’اب کہاں ہے وہ ؟‘‘
’’اسی بازار میں ہے اور کئی لڑکیوں کی مالکن ہے مجھ پر جب اُس کا جبر بڑھا تو میں نے ایک آدمی کے مشورے سے علیٰحدہ کاروبار شروع کیا۔ یہ دو کمرے ڈیڑھ سو روپیہ ماہوار کرایہ پر لے رکھے ہیں۔ خدا کے فضل سے اچھے دن گزر رہے ہیں۔‘‘
’’خدا کا فضل ۔۔۔ ؟‘‘
’’کیوں آپ کو اس پر تعجب ہے ؟ خدا کا فضل نہ ہو تو ہمارے لئے کوئی ٹھکانہ نہیں ، ہر کوئی ہمیں خانگی کر پُکارتا اور مویشی سمجھ کر ہنکارتا ہے ہماری عزت یا محنت صرف بستر تک ہے ، اس کے سوا کوئی عزت نہیں ۔‘‘
’’ تو آپ لوگ یہ پیشہ ترک کر دیں؟‘‘
’’ ہم تیار لیکن جائیں کہاں اور قبولے کون؟ لوگ کھیلتے ہیں بیاہتے نہیں ، کئی دفعہ اخباروں نے چکلے اُٹھا دینے کا شور برپا کیا ہے ، لیکن ہوتا ہواتا کچھ نہیں ، جو اُٹھانے والے ہیں وہ راتوں کو چوری چھپے آتے ہیں اورجو شور مچا رہے ہیں وہ صرف اس لئے کہ انگور کھٹے ہیں کس کا جی چاہتا ہے کہ شارع عام بنے اور محفوظ بہ لحظہ بکتی رہے ، عورت نہ ہوئی اخبار ہوگیا۔‘‘
’’لیکن حکومت پر زور تو دیا جا رہا ہے۔‘‘
وہ کھکھلا کر ہنس پڑی ۔۔۔ ’’ آپ بھی انجان بنتے ہیں حکومت کے لئے اورتھوڑے کام ہیں ، یہ ایک اخلاقی مسئلہ ہے اور اس کا تعلق پورے معاشرہ سے ہے۔‘‘
’’لیکن حکومت کے بھی تو کچھ فرائض ہوتے ہیں؟‘‘
’’جی ہاں ! کیوں نہیں ؟ وہ اپنے فرائض کو بڑی خوبی سے پورا کرتی ہے مثلاً ایک دفعہ قلعہ کی سیڑھیوں پر لیاقت علی خاں نے سلامی لی تھی تو قلعہ کی سیڑھیوں پر جو قالین بچھائے گئے تھے ہمارے ہی مکانوں سے گئے تھے۔ جب کبھی قلعہ سے باہر یا قلعہ کے اندر کوئی سرکاری تقریب ہوتی ہے قالین ہمارے ہاں ہی سے جاتے ہیں۔‘‘
’’ او ہو ! یہ تو ایک خبر ہے ۔‘‘
’’خبر کیسی ؟ راعی کا رعایا پر حق ہوتا ہے ہمیں تو سرکاری دنگل کے لئے بھی ٹکٹ خریدنے پڑتے ہیں۔‘‘
’’ آپ لوگ انکار کیوں نہیں کر دیتے ۔‘‘
’’خوب ! آپ بھی ہوا میں گرہ لگا رہے ہیں ۔ تو بعض اوقات تھانیدار کے مہمانوں کے لئے بستر بھیجنے پڑتے ہیں ، ایسا نہ کریں تو ہمارا کاروبار ایک دن میں ٹھپ ہوجائے۔ ہم لوگ عیبوں کی گٹھڑی ہیں جو شخص بھی یہاں آتا ہے وہ اخلاقی چور ہوتا ہے پولیس سے جھگڑا مول لے کر بھوکوں مرنے والی بات ہے بلکہ قید ہونے والی ۔‘‘
’’تم بیاہ کیوں نہیں کر لیتیں ۔‘‘
’’مجھ سے اور میرے جسم سے تو بیاہ کرنے والے کئی ہیں۔ نہ بھی ہوں تو پیدا ہو سکتے ہیں۔ لیکن میرے بوڑھے باپ اور ناچار کنبہ کی ذمہ داری کوئی نہیں لیتا۔ ایک دفعہ ایک مقامی بنک کا منیجر مجھے گھر لے گیا لیکن دوسرے ہی مہینے اُکتا گیا مجھے رکھنے کے لئے تیار تھا گھر والوں کو نہیں اور اب تو میں بیاہ کے لفظ ہی کو مذاق سمجھتی ہوں۔‘‘
’’اچھا تم نے کبھی کسی سے محبت کی ہے ؟‘‘
’’ محبت ۔۔۔ ‘‘ وہ ایک گہری سوچ میں ڈوب گئی
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)