عمران خان کی ایک اور کامیابی
چند روز پہلے پاکستان سے کینیڈا آنے کےلئے جہاز میں سوار ہوا تو وزیر اعظم عمران خان کا دورہ امریکہ شروع ہو چکا تھا اور اب اس کا اختتام ایک کامیاب دورے کے طور پر ہو چکا ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان کو اقتدار سنبھالتے ہی کانٹوں بھری راہ پر چلنا پڑا،حالات تو پہلے ہی دن دگر گوںتھے البتہ تقدیر موافق تھی اور ان کو قوم کی ایک بڑی اکثریت کی حمائت و تائید حاصل تھی ،جس کی وجہ سے وہ مشکل ترین حالات کے باوجود یکسوئی سے اپنی منزل کی طرف گامزن رہے،اندرونی بیرونی قرضوں کا پہاڑ،قرضوں کی قسط اور سود کی ادائیگی،آمدن میں کمی اور بے تحاشا اخراجات اور اس پر تباہ حال معیشت ان کیلئے کسی بڑے چیلنج سے کم نہ تھے،مگر اپنی فطرت اور خدائی صلاحیت کی وجہ سے انہوں نے ہمت نہ ہاری اور اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر عمران خان نے ایک طرف سعودی عرب،قطر،متحدہ عرب امارات سے تعلقات کی نئے سرے سے بنیاد رکھی بلکہ ان سے امدادی پیکیج بھی حاصل کئے،ایران کے ساتھ تنازعات کا حل نکالا۔
اس صورتحال میں ناراض امریکہ بہادر کو اعتماد میں لیکر اپنی منشاء اور قومی مفاد میں تعلقات کی ازسر نو بنیاد رکھنا کسی امتحان سے کم نہ تھا،مگر اپنی ہوشمندی اور فہم و فراست کو بروئے عمل لا کر عمران خان نے اس امتحان میں بھی کامیابی حاصل کی،امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جب وزیر اعظم کو دورہ امریکہ کی دعوت دی تو بہت سے تجزیہ کاروں نے اسے ایک لاحاصل دورہ قرار دیا،عالمی میڈیا نے تو یہاں تک تضحیک کی کہ دونوں کے مزاج میں تلخی اور تیزی ہے اس لئے عمران خان ٹرمپ کو اپنے ڈھب پر نہ لا سکیں گے کی در فنطنی بھی چھوڑی گئی،لیکن دنیا نے دیکھا کہ عمران خان کا دورہ امریکہ ثمر آور ثابت ہواء جس بات کو تخیل میں جگہ دینا ممکن نہ تھا عمران خان نے وہ بھی منوائی،سب سے اہم بات یہ کہ ٹرمپ نے پاکستان اور عمران خان کی اہمیت کو افغانستان سے با عزت انخلاء کے حوالے سے تسلیم کیا،وزیر اعظم نے باور کرایا کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستانی قوم اور سکیورٹی فورسز نے کس قدر لا زوال قربانیاں دیں،70ہزار سے زائد انسانی جانوں کے علاوہ اربوں ڈالر کا مالی نقصان بھی برداشت کیا مگر امریکہ نے ہمارے ساتھ یہ سلوک کیا کہ کولیشن فنڈ سے ملنے والی سکیورٹی امداد بھی روک دی،جس کے جواب میں ٹرمپ نے پاکستان کی سکیورٹی امداد واجبات کے ساتھ بحال کرنے کا عندیہ دیا۔
بھارت کے ساتھ دیگر تنازعات کے علاوہ سب سے اہم مگر سنگین تنازع کشمیر ہے،اگر چہ برہان وانی شہید کی شہادت سے پہلے کشمیریوں کی مزاحمتی قوتوں نے مسلح جدوجہد ترک کر کے سیاسی جدو جہد کا فیصلہ کر لیا تھا،جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کشمیریوں نے ہتھیار پھینک دئیے مگر بھارتی فوج نے ظلم و تشدد کا رویہ اختیار کر لیا اور نہتے کشمیریوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا،برہان وانی کی شہادت نے کشمیر یوں کی حق خود ارادیت کی جدو جہد میں نئی روح پھونک دی،بھارتی فوج کی طرف سے پیلٹ گنوں کے استعمال روزانہ محاصرہ اور کئی کئی شہادتوں کے باوجود ان کی تحریک جاری ہے،صورتحال کو سمجھنے کے بعد نہ صرف مسئلہ کشمیر میں ثالثی کی پیشکش کر دی بلکہ اس راز سے بھی پردہ اٹھایا کہ بھارتی وزیر اعظم مودی نے بھی ان سے مسئلہ کشمیر کے حوالے کردار ادا کرنے کا کہا تھا۔
عمران خان نے واضح طور پر کہا کہ وہ کشکول لے کر امریکہ آئے ہیں نہ انہیں امداد کی شکل میں بھیک کی ضرورت ہے،ہم تجارت چاہتے ہیں،دنیا اس بات کی گواہ ہے کہ پورے دورہ کے دوران عمران خان نے امداد کی بات نہیں کی،ٹرمپ کو بھی عمران خان کا رویہ پسند آیا اور انہوں نے پاکستان کیساتھ تجارتی تعلقات بڑھانے کا اشارہ دیدیا،سکیورٹی اور دفاع کے حوالے سے بھی تعلقات کے فروغ پر بات ہوئی،شائد نہیں یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ عمران خان واحد پاکستانی لیڈر ہیں جن کا وفد انتہائی محدود تھا اور لائو لشکر کیساتھ وہ امریکہ یاترا پر نہیں گئے، عمران خان کے مختصروفد نے پاکستانی سفارت خانے میں قیام کیا،اور قوم کے لاکھوں ڈالر بچائے،کتنی عجیب بات ہے کہ جن مماک سے ماضی میں ہمارے حکمران امداد لینے جاتے ان سے زیادہ شاہانہ ٹھاٹھ سے ان کے ملک میں ہی قیام کرتے،بر سر تذکرہ یاد آیا بھٹو سویڈن گئے امداد لینے،جب سویڈش حکمران کے آفس پہنچے تو لمبی لمبی متعدد گاڑیوں کے قافلہ کی صورت پہنچے،میزبان حکمران کی راستے میں سائیکل پنکچر ہو گئی اور اسے کئی میل پیدل چل کر آنا پڑا اور وہ مقررہ وقت سے لیٹ ہو گئے دفتر پہنچے تو گاڑیوں کی قطار دیکھ کر سیکرٹری سے پوچھا کسی عرب ملک کا سربراہ آیا ہے تو سیکرٹری نے بتایا پاکستان سے وفد امداد لینے آیا ہے تو سویڈش وزیر اعظم نے کہا یہ امداد لینے آئے ہیں یا دینے۔دورہ امریکہ میں وزیر اعظم نے پاکستانیوں کے ایک بہت بڑے اجتماع سے بھی خطاب کیا،اس بڑے اجتماع کا اہتمام سفارتخانہ کے اخراجات پر نہیںبلکہ تارکین وطن پاکستانیوں نے خود کیا تھا،اس اجتماع اور لوگوں کی تعداد دیکھ کر سمجھ آیا کہ عمران خان بیرون ملک بھی اتنے ہی مقبول ہیں جتنے پاکستان میں ہیں ،امریکی کانگریس کے ارکان نے بھی وزیر اعظم کو دعوت دی اہم بات یہ کہ ایوان نمائندگان میں خیر مقدمی قرارداد منظور کی گئی،ابھی وزیر اعظم کا جہاز پاکستان کی سر زمین پر لینڈ نہیں کیا تھا دونوں سربراہان مملکت کی ملاقات میں کئے گئے فیصلوں پر عملدرآمد کیلئے میککنزم بنانے کیلئے امریکہ میںکمیٹی قائم کر دی گئی،مخالفین کچھ بھی کہیں،عمران خان نے پاکستان کا نام پوری دنیا میں ایک بار پھر اونچا کر دیا ہے۔
.
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
.
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’dailypak1k@gmail.com‘ پر بھیج دیں۔