انتخاب، احتساب اور انتساب
دو برس قبل پاکستانی عوام نے عام انتخابات میں 25 جولائی 2018 کو اپنا حق رائے دہی استعمال کیا تھا لیکن وہ ”عام“ کی بجائے ”خاص“ انتخاب ثابت ہوا۔ الیکشن کے بعد‘ نتائج آ رہے تھے کہ نصف شب کے قریب الیکشن کمیشن کا سسٹم RTSپراسرار طریقہ سے بیٹھ گیا۔ اگلی صبح اس سسٹم کے بغیر ہی نتیجہ کا اعلان ہو گیا۔ دو سال گذر جانے کے بعد بھی یہ معمہ حل نہیں ہو سکا کہ RTS کیوں بند ہوا اور نہ تحقیقات کا کوئی نتیجہ سامنے آیا۔ اس وجہ سے شبہ ہوتا ہے کہ یہ منصوبہ کے تحت ہوا کیونکہ تکنیکی خرابی ہوتی تو وجہ سامنے آ جاتی۔الیکشن مانیٹر کرنے والی ایک فعال تنظیم فافن نے بتایا کہ 95 فیصد فارم 45 پر ریٹرننگ افسران کے دستخط نہیں تھے چنانچہ اس الیکشن کی شفافیت پر سوالات اٹھنا ایک لازمی امر تھا۔اس الیکشن کے نتیجہ میں کرکٹ کے سابق کپتان عمران خان کو حکومت مل گئی۔
وزیر اعظم بننے سے قبل کسی سیاسی یا انتظامی عہدہ پر کام کرنے کا انہیں ایک دن کا بھی تجربہ نہیں تھا۔ پارلیمانی نظام میں تجربہ بہت اہمیت رکھتا ہے اور زیادہ تر وزرائے اعظم سیاست میں نیچے سے اوپر کی طرف تجربہ حاصل کرتے ہوئے اپنا سفر طے کرتے ہیں۔ بھارت میں نریندر مودی وزیر اعظم بنے تھے تو اس سے پہلے انہیں تیرہ سال ایک بڑی ریاست گجرات کے وزیر اعلی رہنے کا تجربہ حاصل تھا۔ ملائشیا میں ڈاکٹر مہاتیر محمد 1946 سے عملی سیاست میں تھے اور جب 1981 میں وزیر اعظم بنے تو مختلف عہدوں پر کام کرنے کا 35 سالہ تجربہ رکھتے تھے۔ برطانیہ میں حالیہ عشروں میں آنے والے وزرائے اعظم مارگریٹ تھیچر، جان میجر، ٹونی بلئیر، گورڈن براؤن وغیرہ بھی اسی طرح کی مثالیں ہیں۔
موجودہ وزیر اعظم بورس جانسن لندن کے مئیر اور کابینہ کے رکن رہ چکے تھے۔ عمران خان کے معاملہ میں ایسا کچھ نہیں تھا اور یوں پاکستان میں ایک ناتجربہ کار حکومت بنوائی گئی جس میں ماضی کے فوجی آمروں کی طرح اس حکومت کی داغ بیل بھی ”احتساب“ کے نام پر ڈالی گئی اور اس بات کو قطعاً نظر انداز کر دیا گیا کہ عمران خان یا ان کی ٹیم میں ملک چلانے کی صلاحیت ہے یا نہیں۔پاکستان میں جمہوریت پر کام کرنے والے ایک مستند ادارے پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب نے کہا ہے کہ گذشتہ دو سالوں میں جمہوریت نہ صرف کمزور ہوئی ہے بلکہ ملک میں جمہوریت کا مستقبل بھی خطرہ میں نظر آ رہا ہے۔ لوگوں کے ذہن میں یہ خیال پختہ ہوتا جا رہا ہے کہ پہلے ”پانامہ“ اور بعد میں ”انتخاب“ میں اصل نشانہ میاں نواز شریف ہی تھے۔ وجہ ناراضگی غالباًً وہ صاف گوئی تھی جسے ”ڈان لیکس“ کا نام دیا گیا۔اگر میاں نواز شریف کی بروقت وارننگ کو نیک نیتی سے قومی مفاد کے تناظر میں دیکھا جاتاتو عالمی سطح پر پیش آنے والے مسائل میں کمی آ جاتی اور ایف اے ٹی ایف کی تلوار سر پر نہ لٹک رہی ہوتی (فی الحال کرونا کی وجہ سے اس میں تعطل ہے)۔
پاکستان کی کل عمر تقریباً 73 برس میں‘ 33 برس ملک پر براہ راست مارشل لاء اور باقی کے 40 سال میں زیادہ تر ”کنٹرولڈ“جمہوریت رہی ہے۔ اہم قائدین پر ابتدائی سالوں سے ہی ”احتساب“ نامی کند دھار آلہ سے وار کئے جاتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے1949 میں ”پروڈا“ نامی قانون ایجاد کیا تھا جس کا اطلاق 14 اگست 1947سے کیا گیا تھا۔ اس میں انہوں نے اپنے قد آور سیاسی مخالفین کو ”کٹ ٹو دی سائز“ کیا تھا۔پابندیوں کی زد میں آنے والوں میں پنجاب کے وزیر اعلی نواب افتخار حسین ممدوٹ اور سندھ کے وزیر اعلی پیر الہی بخش نمایاں تھے۔ نواب ممدوٹ کو گھر بھیج کر پنجاب کا نظام انگریز گورنر سر فرانسس موڈی کے حوالہ کیا گیا۔ 1954 میں گورنر جنرل غلام محمد نے مشرقی پاکستان کے وزیر اعلی شیر بنگال اے کے فضل حق کو پروڈا قانون کے تحت برطرف کیا۔ بعد میں اس ”نیک کام“ میں جرنیل بھی شامل ہو گئے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے 1959 میں پہلے ”پوڈو“ اور پھر ’ایبڈو“ کا قانون بناکر تقریباً تمام نمایاں سیاست دانوں (کل تعداد 75) کو سیاسی میدان سے باہر نکال دیا۔ جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگایا تو1977 میں PPO 16 اور PPO 17 جاری کئے جن کا مقصد سیاسی مخالفین کی نا اہلی تھی۔
بعد میں انہوں نے یہی مقصد غیر جماعتی الیکشن کرا کے حاصل کیا جس میں مین سٹریم سیاست دانوں کے بائیکاٹ کی وجہ سے پرانی کی بجائے ایک نئی لاٹ آ گئی۔اس اسمبلی نے آٹھویں ترمیم کو آئین کا حصہ بنایا جس کی تلوار سے محمد خان جونیجو، بے نظیر بھٹو (دو مرتبہ) اور میاں نواز شریف کی عوام کی منتخب کردہ حکومتوں کے سر قلم ہوئے۔ 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے قومی ادارہ برائے احتساب (نیب) بنایا اور وہی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی۔ المیہ یہ ہے کہ نیب کا طوق آج بھی قوم کے گلے میں پڑا ہے اور عمران خان حکومت اسے سیاسی مخالفین کی سرکوبی کے لئے استعمال کر رہی ہے۔ نیب بہت ڈھٹائی سے صرف یکطرفہ احتساب کر رہا ہے اور اب سپریم کورٹ نے جس طرح نیب کی دھجیاں اڑائی ہیں، نیب کے مزید برقرار رہنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں لکھا ہے‘ ”بونے اور کوتاہ قد لوگوں کو سلیکٹ کیا جاتا ہے، ان کی پرورش کی جاتی ہے، انہیں پروان چڑھایا جاتا ہے اور پھر انہیں اقتدار میں لایا جاتا ہے“۔سپریم کورٹ نے فیصلہ میں مزیدلکھا‘ ”عام تاثر یہ ہے کہ نیب کا قانون سیاسی انجینئیرنگ کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ نیب سیاسی وفاداریاں تبدیل کرانے، سیاسی جماعتوں کو توڑنے، مخالفین کا بازو مروڑنے اور انہیں سبق سکھانے کے لئے استعمال ہوا۔ احتساب یکطرفہ ہوتا ہے“۔
نیب جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء کی یادگار ہے جنہوں نے دو تہائی اکثریت رکھنے والی ایک منتخب حکومت پر فوج کشی کرکے غیر آئینی قبضہ کیا تھا اور اس کے 34 دن بعد 16 نومبر 1999 کو آرڈی ننس کے ذریعہ نیب کا ادارہ بنایا تھا۔ کسی ملک میں ”انتقامی“ ادارہ کا کیا جواز ہے،کیونکہ دنیا کے کسی جمہوری ملک میں ایسے فسطائی ادارے نہیں ہیں، ان ملکوں میں قومی ادارے مضبوط ہیں۔ پاکستان میں بھی پولیس، ایف آئی اے، ایف بی آر، سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن، سٹیٹ بینک، ریگولیٹری ادارے، صوبوں میں اینٹی کرپشن اور دوسرے ادارے مضبوط اور فعال ہوں اور عدلیہ غیر جانبداری سے اپنے فرائض انجام دے رہی ہو تو نیب جیسے ادارے کا وجود کوئی جواز نہیں رکھتا۔ پاکستان میں احتساب کی آڑ میں ہمیشہ مخالفین کی سیاسی ناکہ بندی، گرفتاری اور انہیں سیاست سے بے دخل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ نیب بنانے کے بعد جنرل پرویز مشرف نے اسے سیاسی انجینئیرنگ کے لئے استعمال کیا اور پیپلز پارٹی سے ایم این اے توڑ کر پیٹریاٹ گروپ بنایا جو حکومت میں شامل ہو گیا۔ حالیہ سالوں میں نیب کا کردار دیکھا جائے تو موجودہ سیٹ اپ بھی واضح طور پر جنرل پرویز مشرف کا ہی تسلسل دکھائی دیتا ہے۔
عمران خان نے الیکشن کے اگلے دن اپنے پہلے خطاب میں کہا تھا کہ ان کی حکومت سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کاروائیاں نہیں کرے گی لیکن ان کے دو سالہ دور اقتدار میں نیب کا کند دھار آلہ صرف سیاسی مخالفین کے خلاف ہی استعمال ہوا ہے۔ دوسری طرف فسطائی ہتھکنڈوں کے ذریعہ حکومت نے میڈیا کا گلا گھونٹ رکھا ہے۔ پی ٹی آئی کے پاس نہ تو ملک کی معیشت کے لئے کوئی منصوبہ بندی ہے اور نہ ہی اچھی گورننس کی صلاحیت، جس کی وجہ سے ملکی حالات ان دو سالوں میں اس قدر خراب ہو چکے ہیں کہ جمہوریت کا مستقبل ہی مخدوش لگنے لگا ہے۔ یہ کہاں کی عقلمندی ہے کہ اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کے لئے ملک کا مستقبل داؤ پر لگا دیا جائے۔ انتقامی کاروائیوں سے ملک آگے بڑھنے کی بجائے کھائی میں گر جائے گا۔ عمران خان کی حکومت اپنے تیسرے سال میں داخل ہو رہی ہے۔ ان دو سالوں میں ان کا فوکس ملکی ترقی کی بجائے صرف اپوزیشن اور میڈیا کو رگڑا لگانے پر رہا ہے جس کا سب سے زیادہ نقصان ان کی اپنی حکومت کو پہنچ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انتہائی ناقص کارکردگی کی وجہ سے پی ٹی آئی کے زیادہ تر لیڈر اب منظر پر نظر نہیں آتے کیونکہ حکومت کی نا اہلی اور نالائقی کا دفاع اب ان کے لئے ممکن نہیں رہا۔ حکومتیں تو آتی جاتی رہیں گی لیکن اگر ملک میں جمہوریت کا مستقبل تباہ ہوا تو پاکستان ایک بار پھر اسی طرح کئی عشرے پیچھے چلا جائے گا جیسے اس سے پہلے فوجی آمروں کے دور میں جاتا رہا ہے۔ یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہئے کہ ایک فوجی آمر کے دور میں ہی پاکستان کے دو ٹکرے ہوئے تھے۔ ملک میں نئے انتخابات کرائے جائیں جو انجینئیرنگ سے پاک اور مکمل طور پر آزادانہ اور غیر جانبدارانہ ہوں۔ پاکستان اور جمہوریت کا بہتر مستقبل صرف اسی ایک راستہ سے ممکن ہے ورنہ فیض احمد فیض نے”انتساب“میں کہا تھا....
آج کے نام
اور
آج کے غم کے نام
آج کا غم کہ ہے زندگی کے بھرے گلستاں سے خفا
زرد پتوں کا بن
زرد پتوں کا بن جو مرا دیس ہے
درد کی انجمن جو مرا دیس ہے