ہمارا حال مخدوش ہے،مستقبل تاریک ہے
نظریاتی سیاست ختم ہو چکی ہے اب پڑھنے پڑھانے کی باتیں نجانے کہاں چلی گئی ہیں ایک وقت تھا نوجوانوں میں نظری فکری لٹریچر کی باتیں ہوتی تھیں، پمفلٹ تقسیم کئے جاتے تھے،موضوعاتی، علمی، ادبی، سیاسی اور دینی لٹریچر کی اشاعت اور تقسیم ہوتی تھی، دینی جماعتوں میں شعبہ نشر و اشاعت لٹریچر کی اشاعت کے لئے سرگرداں رہتا تھا، کئی کتب اور مصنف فیشن کے طور پر بھی زیر بحث رہتے تھے۔ جماعت اسلامی اس حوالے سے آگے نظر آتی تھی، مولانا مودودیؒ کی تحریریں عام تھیں، ان کی تحریروں کے حوالے سے ان کے ماننے والوں سے زیادہ اُن کے مخالفین دیتے تھے۔ سید مودودیؒ اور ان کی تحریریں ایک اہم حوالہ ہوتا تھا۔ نعیم صدیقی، مولانا اسعد گیلانی، پیر کرم شاہ الازہری،ڈاکٹر مرتضیٰ ملک وغیرہ کے چرچے عام تھے۔ عبداللہ ملک،سید سبط حسن کی کتب معروف تھیں ”کمیونسٹ پارٹی کا منشور“ بھی پاپولر تھا۔ کارل مارکس کی سرمایہ اور فلسفہ جدلیات کے بانی فلسفی بارے بھی باتیں ہوتی تھیں تین یہودی فلسفیوں، ڈرکائیم، ماس اور سگمڈ فرائیڈ کے نظریات کے بارے گفتگو ہوتی تھیں۔ لبنانی عرب ادیب اور انقلابی خلیل جبران ہمارے ادبی و سیاسی حلقوں میں معروف تھا۔ مصری اخون المسلمین کے بانی حسن البناء کی ڈائری، سید قطب شہید، کمر قطب، علامہ یوسف القرضاوی کی کتب بھی جماعت اسلامی کے توسط سے ہمارے ہاں پڑھی جاتی تھیں۔ ورلڈ اسمبلی آف مسلم یوتھ (WAMY) مسلم نوجوانوں کی عالمی تنظیم تھی۔ جمعیت و جماعت کے لوگوں کے حوالے سے اس تنظیم کے ذریعے اعلیٰ پائے کا لٹریچر عام تھا۔ امریکن سینٹر اور برٹش کونسل لائبریریوں کی ممبر شپ ایک اعلیٰ درجے کا فیشن تھا یہ علم اور معلومات کا بے بہا خزانہ تھے امریکن سینٹر میں فلمیں بھی دکھائی جاتی تھیں، ویڈیو فلمیں بھی دیکھی جا سکتی تھیں، بچوں کی دنیا اور تعلیم و تربیت ماہنامے بچوں کے پسندیدہ رسائل تھے۔ نسیم حجازی کے تاریخی ناول پڑھنا، پڑھانا انتہائی پسندیدہ فعل ہوتا تھا لوگ نسیم حجازی کے ناول لڑکیوں کو جہیز میں دیتے تھے۔ جماعت اسلامی کے مخالف کھالیں جماعت اسلامی کو دیتے تھے۔ نظریاتی مخالفت کے باوجود معاشرتی توازن قائم تھا۔ خیر و شر کی قوتیں موجود تھیں، بلیو رسالے اور بلیو فلمیں بھی دستیاب ہوتی تھیں لیکن یہ معاملات چھپ چھپ کر انجام پاتے تھے، وحی وہانوی کی فحش تحریریں بھی چلتی تھیں، فلمی رسالہ چترالی بھی فحش تصاویر کے ساتھ کچھ لوگوں کے لئے کشش رکھتا تھا، کوک شاستر بھی مل جاتا تھا لیکن معاشرے میں عمومی توازن پایا جاتا تھا ایشیاء سرخ ہے اور ایشیاء سبز ہے کے نعرے بھی گونجتے تھے آمدنیاں کم تھیں۔ دولت کی ریل پیل نہیں تھی لیکن قناعت کا دور دورہ تھا، نمائشی کلچر نہیں تھا،فرقہ واریت ضرور تھی لیکن منافرت نہیں تھی، قتل و غارت گری نہیں تھی، عاشورہ، عید میلاد النبیؐ پُرامن طریقے سے منائے جاتے تھے، پھر ہم افغان جنگ میں ملوث ہو گئے۔1979ء میں سوویت یونین کے افغانستان پر قبضے کے بعد ہم اس عالمی جنگ میں ایسے ملوث ہوئے کہ آج2024ء تک 44 سال گزر جانے کے باوجود ہم اس دلدل سے باہر نہیں نکل سکے ہیں۔ہمارے خلاف ففتھ جنریشن وار بھی لانچ کی جا چکی ہے ہم ڈیجیٹل دہشت گردی کے ساتھ ساتھ زمینی دہشت گردی کا بھی شکار ہیں،ہمارا وطن لہو لہو ہو چکا ہے، معاشرہ تار تار ہے، معیشت پتہ نہیں ہے بھی کہ نہیں۔ہماری سرحدیں تو کہیں نظر ہی نہیں آ رہی ہیں، دہشت گرد بندوبستی علاقوں میں کمین گاہوں میں مورچہ زن ہو چکے ہیں۔پہلے دہشت گرد آزاد علاقوں /قبائلی علاقوں تک محدود تھے اب وہ بندوبستی علاقوں تک آن پہنچے ہیں، ہندو کش کے پہاڑوں سے اُتر کر وہ کراچی کے ساحلوں تک پھیل چکے ہیں۔ یہ کسی سرحد کو مانتے ہی نہیں ہیں ان کے پاس اب روایتی اسلحہ کی بجائے امریکی ناٹو افواج کا افغانستان میں چھوڑا ہوا جدید ترین اسلحہ موجود ہے۔نائب وژن گاگلز اور آٹو میٹک ہتھیاروں سے لیس یہ دہشت گرد پاکستان اور ریاست پاکستان سے برسر پیکار ہیں۔ہم آپریشن ضربِ عضب بھی کر چکے ہیں اب ان کے خلاف آپریشن استحکام پاکستان کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے،لیکن انہیں اندرون ملک بھی حمایتی مل چکے ہیں۔انہیں لاجسٹک سپورٹ بھی حاصل ہے اور فکری و نظری سمت نہیں ہے وہ سوشل میڈیا کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اس کے ذریعے ذہنی عیاشی اور انارکی پھیلانے میں مصروف ہیں زیادہ سے زیادہ ریٹنگ کا حصول ان کا مطمع نظر ہے اسی میڈیا کے ذریعے جنت مرزا، چاہت فتح علی خان اور اسی قبیل کی خواتین و حضرات ہمارے ہیروز اور ہیروئنز بن چکے ہیں، کہیں بھی کوئی مثبت اور کارآمد سرگرمی جاری نہیں ہے، ہم ہمہ جہتی زوال کا شکار نظر آ رہے ہیں،24کروڑ آبادی اور ایٹمی قوت کے ساتھ ہم ایک بہت بڑی طاقت تصور کئے جاتے ہیں،ہماری جغرافیائی پوزیشن نے ہمیں نہ صرف ریجنل پالیٹکس میں بلک عالمی سیاست میں بھی اہم مقام دے رکھا ہے،لیکن ہم کسی فکری و نظری ڈائریکشن کے بغیر صرف روزمرہ کے عمومی مسائل نمٹانے میں مصروف ہیں۔ صاف پانی کا حصول، تعلیم و صحت کی سہولیات کی فراہمی،روز گار کے مواقع، اشیاء ضروریہ کی بلا روک ٹوک فراہمی وغیرہ وغیرہ ایسے عمومی مسائل ہیں جو اب تک حل ہو چکے ہونے چاہئیں،لیکن ہم ابھی تک ان ہی میں بھی اُلجھے ہوئے ہیں، یہی ہمارے حتمی ایشو بن چکے ہیں،عوامی خدمات کا کوئی بھی سرکاری محکمہ اپنے فرائض انجام نہیں دے رہا، عوام سرکاری محکموں اور اہلکاروں کو دشمن کی نظر سے دیکھتے ہیں انہیں مسائل حل کرنے والا سمجھنے کی بجائے مسائل کو گمبھیر بنانے کاذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔حکومت بے رحمی کے ساتھ ٹیکس پر ٹیکس لگاتی اور بڑھاتی چلی جا رہی ہے عوام بلبلا رہے ہیں کہ ان کی بس ہو گئی ہے،لیکن حکمران اور اشرافیہ اپنی ہی دھن میں مگن چلے جا رہے ہیں،انہیں بھی اس ملک کی بقاء کے بارے میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں وہ یہاں صرف حکمرانی کرنے اس ملک کے وسائل لوٹنے اور اپنی دولت بڑھانے کے لئے رہ رہے ہیں،جب بھی ذرا سی سختی ہوتی ہے تو وہ اپنے محفوظ ٹھکانوں کی طرف چلے جاتے ہیں،جو بیرونی ممالک میں قائم کئے ہوئے ہیں۔پاکستان کا حال تو مخدوش ہی ہے اس کا مستقبل بھی تاریک ہی نظر آتا ہے۔